اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔17-10-2010

جعلی ڈگریاں جعلی حکمران
تحریر: نجیم شاہ

موجودہ زمانے میں جمہوریت کے نظام کے تحت یہ سوچ مروج ہو گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو بادشاہی حاصل ہے۔ پارلیمنٹ جو قانون چاہے بنانے میں آزاد ہے اسی لئے اسے قانون ساز اسمبلی بھی کہا جاتا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ اراکینِ پارلیمنٹ قانون سازی میں حصہ لیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس پارلیمنٹ میں غیر تعلیم یافتہ یا جعلی ڈگری والے اراکین موجود ہوں کیا وہ قانون سازی کر سکتے ہیں؟ ہمارے ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود نہیںہے۔ بوگس ڈگریاں اسمبلی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ میں جہاں ایک بڑی تعداد غیر تعلیم یافتہ ہے وہیں جعلی ڈگریوں والے بھی اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں جو سیاسی شعور و آگاہی سے ناواقف ہیں۔ ایک طرف پاکستان میں جہاں حکومت اور ریاست بوگس ڈگری رکھنے والوں کو عدالتی احکامات کے باوجود دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ے کر ان کی سرپرستی کر رہی ہے وہیں دنیا بھر میں بے شمار ممالک ایسے ہیں جہاں ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جا رہے ہیں جو ملازمت ، تنخواہوں میں اضافے، موکل/گاہکوں کو پھنسانے یا پارلیمنٹ کی نشستیں جیتنے کیلئے بوگس دستاویزات/ڈگریاں پیش کرنے کے مجرم ثابت ہوئے ہیں۔ اخلاقی زوال کا اس سے اور کوئی روشن پہلو کیا ہو سکتا ہے ملک کا صدر جعلی ڈگری کی حمایت میں قائداعظمؒ کو بھی نان گریجویٹ ثابت کرکے جعلی ڈگری یافتہ اراکین پارلیمنٹ اور جعلسازوں کو داد تحسین پیش کر رہا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا یہ بیان کہ ”جعلی ڈگریاں ملک توڑنے اور کارگل جنگ کی پسپائی سے بڑا جرم نہیں “ تعلیم کی افادیت کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے جبکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کھلے عام ملک میں تعلیم کا جنازہ نکال رہے ہیں کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی۔ جعلی ڈگری ہولڈر اراکین پارلیمنٹ نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے ان سیاسی پارٹیوں کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں جعلی ڈگری ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جبکہ دیگر جماعتیں بھی جعلی ڈگری کی صورت میں نازل ہونے والے عذاب کا شکار ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں ایسے فراڈیئے نہ صرف اسمبلیوں میں براجمان ہیں بلکہ عوام کو بے وقوف بھی بناتے ہیں۔بوگس ڈگری سے بھی بڑا جرم جھوٹ، مکر اور فریب ہے یعنی اسمبلی ارکان نے جس طرح دھوکے، فراڈ اور بے ایمانی سے جعلی ڈگریوں کے بل بوتے پر اسمبلیوں کی رکنیت حاصل کی وہ بہت بڑا جرم ہے۔ اگر یہ جرم یورپ میں سرزد ہوتا یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہوتا تو مجرم کو ایسی عبرتناک سزا ملتی کہ دنیا اس کی مثال دیا کرتی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ہایئر ایجوکیشن کمیشن جہاں اراکین پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کیلئے کام کر رہی ہے وہیں اُس کے راستے میں رکاوٹیں بھی کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ ڈگریوں کی تصدیق کیلئے متعلقہ یونیورسٹیاں، ڈگری ہولڈر اُمیدوار کسی قسم کا تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی اسناد جمع نہ کرانے والے 428ارکان کی فہرست جاری کر دی ہے، ان میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان بھی شامل ہیں جبکہ دیگر ارکان میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی، سینیٹر افراسیاب خٹک، مسلم لیگ ن کے احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، جاوید ہاشمی شامل ہیں۔ وفاقی وزراءشاہ محمود قریشی، منظور وٹو، ارباب جہانگیر، غلام احمد بلور، فردوس عاشق اعوان، لال محمد خان، فرزانہ راجہ، سردار آصف احمد علی نے بھی میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی اسناد جمع نہیں کرائیں۔ الیکشن کمیشن ان ارکان کی میٹرک اور ایف اے کی اسناد کی فراہمی کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز اور چیئرمین سینٹ کو خطوط بھی لکھ چکا ہے۔ ملک بھر میں جعلی ڈگریوں کی ایسی وباءچل نکلی ہے کہ پی آئی اے، بنک، محکمہ صحت، پارلیمنٹ ہاﺅس اور دوسرے سرکاری اداروں کے ملازمین کی ڈگریاں بھی چیک ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ پارلیمنٹ ہاﺅس، پی آئی اے کے بہت سے اعلیٰ عہدیداروں، بنکوں کے سینکڑوں اعلیٰ عہدیداروں اور 26فیصد ڈاکٹروں کی جعلی ڈگریاں پکڑی گئی ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جعلی ڈگری والے اس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں جبکہ تعلیم یافتہ لوگ سول انتظامیہ میں موجود ہیں۔ اچھے لوگوں کی کمی محسوس کی جارہی ہے، ایسے لوگوں کو نکال باہر کرنا ہوگا جو جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ ارکان اسمبلی کے لئے گریجویشن کی شرط عائد کرنا پرویز مشرف دورِ حکومت کے ان چند اچھے کاموں میں سے ایک تھا۔ پچھلے چونسٹھ سالوں سے جس برطانوی جمہوریت کو ہم نے یہاں نافذ کرنے کی کوشش کی اس میں رکن پارلیمنٹ کا بنیادی فریضہ قانون سازی اور اس سے متعلق کام ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ان پڑھ شخص جسے قانون اور آئین کا کچھ نہیں پتہ کسی طور پر بھی دیانت داری کے ساتھ یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ سابقہ حکومت کا یہ اُصولی فیصلہ تھا جس کے تحت اراکین اسمبلی کے لئے گریجویش کی شرط رکھی گئی، کیونکہ جس طرح ایک ڈاکٹر کیلئے ایم بی بی ایس، انجینئر کیلئے بی ای، بنکر کیلئے ایم بی اے ہونا ضروری ہے اسی طرح قانون سازی کے سب سے بڑے اور خود مختار ادارے کے اراکین کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ از کم کم گریجویٹ تو ہوں۔قائداعظمؒ کے اس پاکستان میں آج ووٹ بھی جعلی، نوٹ بھی جعلی، حکمران بھی جعلی اوراب ڈگریاں بھی جعلی ہیں۔ اگر قائداعظمؒ آج کے دور میں دوبارہ زندہ ہو جائیں تو ملک کے حالات دیکھ کر یہی کہیں گے ،بھائیو! میں نے پاکستان بنا کر بہت بڑی غلطی کی تھی۔ برائے مہربانی اس ملک کا نام تبدیل کرکے”جاہلستان “ رکھ دیا جائے۔ موجودہ حالات کے مطابق حکومت کو چاہئے کہ ملک میں ایک عدد جعلی یونیورسٹی بھی کھول لے۔یونیورسٹی بھلے ہی جعلی ہو لیکن اس یونیورسٹی کی جاری کردہ ڈگریاں تو اصلی ہوں گی جیسے ”ڈاکٹر“ بابر اعوان اور ”ڈاکٹر“ عامر لیاقت حسین کے پاس ہیں۔ پرویز مشرف دورِ حکومت میں گریجویشن کی شرط سے کئی اراکین بے نقاب ہو گئے ہیں۔ میں سابق دورِ حکومت کی اس شرط سے بھی اختلاف کرتا ہوں بلکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ الیکشن لڑنے کیلئے ایم اے کی شرط ہو جبکہ ووٹ ڈالنے کا حق میٹرک یا ایف اے پاس لوگوں کے پاس ہونا چاہئے۔ اس طرح نہ صرف پاکستان سے موروثی سیاست کرنے والی پارٹیوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کا جنازہ نکل جائے گا بلکہ ایک پڑھی لکھی قیادت سامنے آئے گی ۔ عدالت کا جعلی ڈگریوں کے حوالے سے ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہئے۔ قوم کو پڑھے لکھے لوگ ہی آگے لے جا سکتے ہیں۔ جب یہ لوگ اسمبلی میں ہوں گے تو عوامی مسائل کو سُننے اور سمجھنے اور حل کرنے کی کوشش بہتر بنائی جا سکے گی۔ خود غرض اور مفاد پرست عناصر سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹ جائے گی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved