اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-11-2010

برطانیہ میں تعلیم کا حصول
تحریر: نجیم شاہ

دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی تعلیم حاصل کرنا بیشمار طلباءکا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ دنیا جس طرح قریب آتی جا رہی ہے اسی طرح اس خواب کی رفتار میں بھی کافی تیزی آتی جا رہی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کی طرح پاکستان، ہندوستان اور ایشیاءکے دیگر ممالک کے طلباءمیں بھی برطانیہ میں تعلیم کی خواہش کافی زور پکڑتی جا رہی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ اسکالرشپ کی سہولیات، والدین اور سر پرستوں کی بڑھتی ہوئی آمدن اور بینکوں سے آسانی سے ملنے والا قرض ہے۔ ان تمام مجموعی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے طلباءکا برطانیہ میں حصول تعلیم کی جانب دیکھنے کا ایک بدلتا رحجان یعنی ایک نئے کیریئر آپشن کی طرف پیش قدمی نظر آتی ہے۔
3مارچ 2010ءسے برطانوی حکومت نے غیر ملکی طلباءکو تعلیمی ویزوں کے اجراءبارے نئی پالیسی مرتب کی ہے۔ سابقہ قوانین کی نسبت نئے قوانین زیادہ مربوط اور جامع ہیں۔ حکومت کے مطابق نئے امیگریشن قوانین متعارف کرائے جانے کا مقصد برطانوی تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانا ہے کیونکہ ان قوانین کے بعد کالجز، یونیورسٹریز بہتر تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کیلئے اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔اس نئی پالیسی میں طلباءکو جاری کئے جانے والے ویزوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں کیونکہ برطانوی حکومت کے مطابق سٹوڈنٹ ویزوں پر آنے والے بیشتر غیر ملکی طلباءتعلیم حاصل کرنے کی بجائے کام پر لگ جاتے ہیں۔ برطانوی ہوم آفس کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ 2004ءمیں جن افراد کو برطانیہ میں تعلیم کے حصول کیلئے ویزہ جاری کیا گیا تھا ان میں سے 21فیصد تاحال برطانیہ میں ہی قیام پذیر ہیں۔ اس نئی پالیسی کے تحت طلباءکو ویزا کی درخواست سے پہلے ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی انگریزی کی استعداد سیکنڈری ایجوکیشن کے برابر ہے۔ نئے قوانین کے تحت طالب علم کو ایک ہفتے میں بیس گھنٹے کام کرنے کی بجائے دس گھنٹے کام کرنے کی اجازت ہوگی جبکہ ڈگری لیول سے کم درجے کے کورس کے لئے صرف اس وقت ویزا دیا جائے گا جب متعلقہ ادارہ جو نیا رجسٹر ہوگا اور وہ انتہائی قابل بھروسہ سپانسرز لسٹ کی گارنٹی دے گا۔ اس کے علاوہ چھ ماہ سے کم عرصہ کے کورس میں داخلہ لینے والے طلباءکو اپنے لواحقین کو برطانیہ لانے کی اجازت نہیں ہوگی جبکہ زائد عرصہ کے کورس میں زیر تعلیم طلباءکے لواحقین برطانیہ آ سکیں گے تاہم اُنہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
برطانیہ کا تعلیمی ویزا تعلیمی مدت تک ہی جاری کیا جاتا ہے اگر کورس ایک سال کا ہے تو اتنا ہی ویزا جاری کیا جائے گا۔ بیرون ملک تعلیم کے خواہشمند طلباءداخلے سے لے کر دیگر تمام لوازمات تو پورا کر لیتے ہیں مگر اُنہیں ویزا کب ملے گا اس کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا اور آخری مرحلے میں پہنچ کر کوئی طالب علم ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ کسی کو مایوسی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس لئے ویزا حاصل کرنے میں ہم جو کوشش کرتے ہیں اس سے قبل ہمیں کئی باتوں کا دھیان رکھنا ہوگا۔ پیپر ورک اگر صحیح اور درست ہے تو پھر ہر طالب علم کا ویزا مسترد ہونے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔
برطانوی ایمیگریشن قانون کے مطابق ویزا آفیسر کو مناسب جوابات دینا اور ضروری دستاویزات مہیا کرنا طالبعلم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔حکومت نے غیر ملکی طالب علموں کیلئے ایک نیا پوائنٹس بیس سسٹم متعارف کروایاہے جس کے تحت اُمیدوار کو ملک میں داخلے کیلئے چالیس پوائنٹس حاصل کرنا ہوتے ہیں، جن میں سے 30مارکس یونیورسٹی، کالج کی طرف سے ملنے والے داخلہ فارم کیلئے جبکہ 10مارکس جمع کرانے والی تفصیلات کیلئے رکھے جاتے ہیں۔ اگر آپ دونوں باتوں کو پورا کرتے ہیں اور 40مارکس حاصل کرتے ہیں تب ہی آپ کو ویزا مل سکتا ہے۔ طلباءکو چاہئے کہ سٹوڈنٹ ویزا کی درخواست دیتے وقت ان باتوں کا خاص خیال رکھیں۔ (1) آپ کا ذاتی پاسپورٹ، (2) مکمل طور پر پُر کردہ سٹوڈنٹ ویزا فارم ، (3) کم از کم دو سال اسپانسر کا انکم ٹیکس فائل ، (4) وائٹ بیک گراﺅنڈ کا 2x5انچ کا ذاتی فوٹو ، (5) یونیورسٹی یا کالج کی طرف سے ملنے والالیٹر ، (6) اپنی ذاتی بینک پاس بُک ( جس میں ایک سال کیلئے برطانیہ میں ہونے والا خرچ، اسی طرح سال اول کی فیس اتنی رقم موجود ہو)، (7) اسپانسر کا بینک پاس بک یا چھ ماہ کا بینک اسٹیٹمنٹ ،(8) بینک لون لیٹر یا اسکالرشپ ملنے کی صورت میں دستاویزات وغیرہ۔ ان تمام اُمور کو پورا کرکے جب کوئی طالب علم اپنا ویزا فارم بمعہ ویزا فیس کے ساتھ جمع کرائے گا تو کم از کم 15دنوں میں اُسے برٹش ہائی کمشنر کی جانب سے ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کا ویزا حاصل کرنا آسان کام نہیں ہے تاہم اگر ویزا فارم درست پُر کیا گیا ہو اور اس کے مندرجات دھیان سے تحریر کئے گئے ہوں تو ویزا کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved