اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔13-11-2010

سستی شہرت
تحریر: نجیم شاہ

تحریر: نجیم شاہ
آج کل ایک ہتھیار کا خوب استعمال ہو رہا ہے جسے ”سستی شہرت“ کہا جاتا ہے۔ اس ہتھیار کے حصول کیلئے بیرون ممالک ”معاہدے“ نہیں کئے جاتے بلکہ اپنے نام کی طرح یہ بھی انتہائی ”سستا“ ہے ۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے سامنے ایٹم بم، میزائل بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی بیرونی طاقت کا ایسے ہتھیاروں کو ”تلف“ کرنے کے احکامات کا ڈر رہتا ہے۔اس ہتھیار کا استعمال عموماً اُس وقت کیا جاتا ہے جب کسی کے دل میں ”شارٹ کٹ عزیز“ بننے کی خواہش شدت اختیار کرتی جا رہی ہو۔ ہمارے سیاستدان، کھلاڑی، فلمی سٹارز وغیرہ عموماً اس ہتھیار کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ واحد ہتھیار ہے جسے ہمیشہ ”ناکام“ لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔ سستی شہرت کا ”ہتھیار“ اگر ڈائریکٹ نشانے پر لگ جائے تو پھر ”موجیں ہی موجیں“ اور راتوں رات آپ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں لیکن اگر نشانہ ”خطا“ ہو گیا تو پھر یہی ”سستی شہرت“ گلے پڑ جاتی ہے اور اُس کے بعد اس کا طلبگار ”منی بدنام ہوئی ساجن تیرے لئے۔۔۔“ گاتا پھرتا رہے۔ آسان الفاظ میں ”سستی شہرت“ زیرو کو ہیرو بنا دیتی ہے اور اگر اس کا سائیڈ ایفیکٹ ہو گیا تو پھر”منہ چھپانے“ کی جگہ بھی نہیں ملتی۔
زیرو سے ہیرو بننے کی خواہش میں یہی کچھ حال آج کل پاکستان کرکٹ ٹیم کے وکٹر کیپر بیٹسمین ذوالقرنین حیدر کا ہو رہا ہے۔ اگر وہ”سستی شہرت“ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تو شاید ”نشانہ“ لگ ہی جاتا بھلے ”بے تُکا“ ہی ہوتالیکن اس کے برعکس اُنہوں نے اسے کوئی ”ڈاکٹری نسخہ” سمجھ کر نگل لیا ۔ ذوالقرنین حیدر کو یہ معلوم ہونا چاہئے تھا کہ ڈاکٹری نسخہ بھی استعمال کرنے سے پہلے کسی اچھے ”معالج“ سے مشورہ طلب کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ اس کے ”سائیڈ ایفیکٹ“ ہونے کے امکانات روشن رہتے ہیں۔ کرکٹ حکام سے سِم (SIM) خریدنے کے بہانے پاسپورٹ حاصل کرکے ”پُراسرار“ طور پر غائب ہونے والی ”بلی“ صرف چھ گھنٹے بعد لندن ایئرپورٹ کے ”تھیلے سے باہر آ گئی“۔۔۔ معاف کیجئے گا یہاں میں نے لفظ ”بلی“ کا استعمال کیا ہے کیونکہ ”شیر“ تو دلیر ہوتے ہیں ۔
انتہائی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دھمکی آمیز پیغامات ذوالقرنین حیدر کے بجائے کسی اور ”سٹار بلے باز“ کو کیوں نہیں ملے۔۔۔؟ ذوالقرنین حیدر سے زیادہ اچھے اور تجربہ کار کھلاڑی کرکٹ ٹیم میں موجود ہیں۔ کرکٹ بورڈ حکام کے مطابق ذوالقرنین حیدر اتنے ”اہم“ کھلاڑی بھی نہیں تھے کہ اُنہیں اس طرح کی دھمکیاں ملتیں۔ اگر ایسا کچھ تھا بھی تو اُن کا فرض تھا کہ کرکٹ حکام کی توجہ اس جانب مبذول کراتے مگر اُنہوں نے بہانے سے پہلے ”پاسپورٹ“ حاصل کیا اور پھر میڈیا سے رابطہ کرکے ”سستی شہرت“ حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی جو بالآخر اُن کے اپنے ہی گلے پڑ گئی۔ ذوالقرنین حیدر نے ”سیاسی پناہ“ حاصل کرنے کی خاطر پہلے اپنی اور فیملی کی جان کو خطرہ قرار دے کرانٹرنیشنل کرکٹ سے ”ریٹائرمنٹ “کا اعلان کیا لیکن جب اُسے معلوم ہوا کہ اس ”ناکام ڈرامے“ کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اُس پر تاحیات پابندی لگانے کا سوچ رہا ہے تو اُنہوں نے ”بیانات“ بدلتے شروع کر دیئے۔۔۔ پہلے اُنہوں نے انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ جب اُن سے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ آخر کن وجوہات نے اُنہیں اتنا بڑا قدم اُٹھانے پر مجبور کیا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ وہ تسلی بخش جواب کیسے دیتے؟ ۔۔۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کیلئے ”فن کار“ کو پہلے ریہرسل کروائی جاتی ہے ۔ کرکٹ بورڈ حکام نے کھلاڑیوں پر پابندیاں ہی اتنی لگا دی ہیں کہ انہیں ”ریہرسل“ کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ابھی ”دوپہر “بھی نہیں آئی کہ ذوالقرنین حیدر نے وطن واپس آنے کی ”پیشکش“ کر دی۔ ”شام“ بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ اُنہوں نے پی سی بی کو پیشکش کر دی کہ اگر ٹیم کو ضرورت ہو تو وہ دبئی میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے تیار ہیں اور پھر ”رات“ کو ذوالقرنین حیدر نے آئی سی سی اور پی سی بی سے ”التجائیں “شروع کر دیں کہ وہ اُن کے ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پر ”پابندی “نہ لگائیں۔
ذوالقرنین حیدر کے اس ”ناکام ڈرامے“ کا مقصد ایک طرف ”سستی شہرت“ کا حصول تھا جس میں اُنہیں ”ناکامی“ رہی جبکہ دوسری طرف انہیں اپنی ”لالچ“ کی پڑی ہوئی تھی۔ یہ لالچ کسی اچھے ملک میں ”سیاسی پناہ“ حاصل کرنا، اُس کے بعد”کاﺅنٹی“ کھیلنا یا باہر کے ملک کی ”شہریت“ حاصل کرنا تھا۔ اگر اُنہیں ملکی عزت اور مفاد عزیز ہوتے تو وہ نہ صرف کرکٹ بورڈ حکام کو اس بارے آگاہ کرتے بلکہ کرکٹ ٹیم کے ”شانہ بشانہ“ چلتے۔۔۔ کرکٹ ٹیم جو پہلے ہی کئی الزامات کی وجہ سے ”تذبذب“ کا شکار تھی ، اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد مزید ”پریشانی “میں مبتلا رہی اور بالآخر پاکستان کو ”ون ڈے سیریز میں شکست“ کا تحفہ قبول کرنا پڑا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ ایسی ”گندی مچھلیوں“ پر تاحیات پابندی عائد کی جائے تاکہ آئندہ کسی کھلاڑی کو ”سستی شہرت“ کا ڈرامہ رچانے کا موقع نہ مل سکے۔ اس کے ساتھ ایسے عناصر کو بھی بے نقاب کیا جائے جنہوں نے ذوالقرنین حیدر کو اس ”سستی شہرت“ پر اُکسایا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved