اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-11-2010

بینظیر بھٹو کا قتل،چند سوالات
تحریر: نجیم شاہ

دسمبر آنے والا ہے۔ یہ مہینہ اہل پاکستان کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینے کی سولہ تاریخ کو مشرقی پاکستان ”بنگلہ دیش“ بنا، پچیس تاریخ کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ولادت ہوئی جبکہ ستائیس تاریخ کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ 16دسمبر کا دن جونہی قریب آئے گا ہمیں ایک عظیم غلطی کا بھی احساس ہوگا جب ہمارا ایک بازو ہم سے جدا ہو گیا تھا۔ 25دسمبر قریب ہوگا تو ہم بانی پاکستان اور برصغیر کے عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناحؒ کا یوم پیدائش منائیں گے جبکہ صرف دو دن کے وقفے کے بعد 27دسمبر کو ہم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تیسری برسی منائیں گے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک عظیم قومی سانحہ ہے۔ اس قومی سانحے کو تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن محترمہ کے قاتلوں کا آج تک سراغ نہ لگ سکا۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دو سابق وزرائے اعظم خان لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعات رونما ہوئے اور اتفاق سے دونوں کے قتل کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے بے نظیر کے قتل کی پہلی برسی پر دعویٰ کیا تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ قاتل کون ہیں البتہ صدر مملکت بن جانے کے بعد قتل کی دوسری برسی پر اپنی تقریر میں اس بارے کچھ نہ بتا سکے ۔اسی طرح اقوام متحدہ کے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کے اجراءکے بہت بعد وزیر داخلہ رحمن ملک کا یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی حکمت عملی کہاں اور کیسے تیار کی گئی ۔ اب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تیسری برسی قریب ہے۔ اس دوران بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کا دائرہ سابق صدر پرویز مشرف تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے چالان پیش کرنے کے بعد عدالتی احکامات کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ کیس کی تحقیقات کے لئے سابق صدر مشرف کو بھی شامل تفتیش کیا جائے۔ جس کے بعد ایف آئی اے نے 32سوالات پر مشتمل سوالنامہ تیار کرکے سابق صدر پرویز مشرف کو بھجوا دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس سوالنامے میں بے نظیر بھٹو شہید کی سکیورٹی سے متعلق ان کے لکھے گئے خط اور ان پر حملے کے بعد فوری طور پر بریگیڈیئر جاوید اقبال چیمہ کی پریس کانفرنس میں بیت اللہ محسود کو مرکزی ملزم قرار دینے کے ان شواہد سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے ہیں۔ سوالنامے میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کس اعلیٰ شخصیت کی کال پر بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہیں ہونے دیا گیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے سو فیصد حق میں ہیں کہ بینظیر بھٹو کی قبر کشائی کرکے ان کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جانا چاہئے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا نہیں، تاہم انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا تھا کہ ایسا اقدام محترمہ کے ورثاءکی اجازت سے ہی ممکن ہے کیونکہ کسی سرکاری حکم سے سیاسی تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے۔ سابق صدر نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ محترمہ قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرائی جائیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعے پر جہاں پرویز مشرف حکومت پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں وہاں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بھی اس دلخراش واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔ پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے بعد بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اپنے پرانے مطالبے کے مطابق اقوام متحدہ سے کروانے کیلئے درخواست دی جو اس نے قبول کرلی۔ پہلی تحقیق خود اس وقت کی حکومت نے کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بیت اللہ محسود نے انہیں قتل کیا ہے۔ اس تحقیق پر اس لئے بھی عوام کو بھروسہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی جس میں بے نظیر بھٹو سب سے آگے تھیں۔ دوسری تحقیق اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ماہرین سے کرائی گئی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات کے دوران برطانوی ہائی کمیشن نے ایک دستاویز جاری کی جس میں کہا گیا کہ برطانوی ماہرین پر مشتمل ٹیم صرف معاونت کریگی اور اپنی رپورٹ بنا کر پاکستانی حکام کو دے گی جبکہ بنیادی تحقیقات صرف اور صرف پاکستانی حکام ہی کرینگے۔اس تحقیق کی رپورٹ کے مطابق بے نظیر بھٹو کو انتہاءپسندوں نے قتل کیا تھا کیونکہ وہ طالبان کے سلسلے میں امریکہ کے موقف کی کھل کرحمایت کر رہی تھیں۔ تیسری رپورٹ اقوام متحدہ کے تین رکنی کمیشن نے تیار کی تھی جس میں پاکستان کے بعض حساس اداروں کی ناقص کارکردگی پر اُنگلیاں اُٹھائی گئیں اور مبینہ طور پر ان پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی کہ ان کی غفلت سے اور مکمل سکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے بے نظیر بھٹو کمیشن نے جو رپورٹ پیش کی وہ بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس رپورٹ میں ان عناصر کا ذکر تک نہیں جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ اقوام متحدہ کے قائم کردہ تین رکنی کمیشن کی رپورٹ نے کئی نئے سوالات جنم دیئے۔بے نظیر بھٹو مرحومہ کے قتل سے متعلق تینوں تحقیقاتی رپورٹیں حقائق کو اطمینان بخش طریقے سے عوام کے سامنے لانے میں ناکام رہی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بے نظیر بھٹو ایک عوامی لیڈر تھیں ۔ جہاں ان کے قتل کی متضاد اطلاعات ہیں وہیں اُن کے متنازعہ بیانات بھی ہیں۔ محترمہ کے ان متنازعہ بیانات نے پاکستانی قوم میں بڑا اضطراب پیدا کر دیا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے لال مسجد آپریشن کی کھل کر حمایت کی، ایک انٹرویو میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ امریکی افواج کو پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی اجازت دے دیں گی۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پوچھ گچھ کیلئے امریکہ کے حوالے کر دیں گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو تین سال کا عرصہ ہو چکا ہے تاحال قاتلوں تک پہنچا نہیں جا سکا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ بے نظیر بھٹو کی موت گولی لگنے سے ہوئی یا پھر سن روف کا لیور اُن کی موت کا سبب بنا۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے جہاں سابق حکومت پر انگلیاں اُٹھائی گئیں وہیں پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تین مختلف تحقیقات کے بعد بھی قتل کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ جب تک مندرجہ ذیل سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک یہ گتھی سلجھتی نظر نہیں آتی ۔
-1 ستائیس دسمبر 2007ءسانحے کی جاری کی گئی تمام ویڈیوز سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بے نظیر بھٹو اوپن ٹارگٹ تھیں اور انہیں باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ کیا اُن کی سکیورٹی کیلئے سانحہ کارساز سے بھی زیادہ سخت انتظامات کئے گئے تھے؟
-2 خود پیپلز پارٹی نے بھی محترمہ کی سکیورٹی پر غور کیا ہوگا۔ بینظیر بھٹو کے اس انداز سے لوگوں میں گھلنے ملنے کے ممکنہ خطرات کیا پارٹی فورم پر زیر بحث آئے تھے؟ اگر ہاں تو پھر پارٹی نے اس حوالے سے کیا انتظامات کئے تھے؟
-3 خودکش دھماکہ کی جگہ جلسہ گاہ سے باہر تھی اور وہاں بے نظیر کو رُکنا بھی نہیں تھا۔ گاڑی رُکی کیسے؟ کسی نے اشارہ کیا یا شیدائیوں کی بھیڑ دیکھ کر وہ خود ہی گاڑی رکوانے پر مجبور ہوئیں اور نتیجتاً گولی چل گئی پھر فوراً دھماکا بھی ہو گیا؟
-4 حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی؟ کیا وہ واقعی چانس لے رہے تھے کہ بینظیر سن روف سے نکلیں اور کارروائی کی جائے؟ اگر بے نظیر بھٹو سن روف سے نہ نکلتیں پھر کیا وہ حملے کا ارادہ ترک کر دیتے؟
-5 محترمہ شہید کی گاڑی میں مخدوم امین فہیم اور شیریں رحمان کے ساتھ اور کون کون لوگ موجود تھے؟ ان تمام لوگوں نے کیا دیکھا ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں نے گولی چلنے کی آواز سنی یا نہیں؟
-6 محترمہ بے نظیر بھٹو کی موت کیسے ہوئی؟ انہیں گولی لگی، بم کا ٹکڑا لگا یا پھر سن روف کا لیور لگنے سے موت واقع ہوئی؟
-7 شیریں رحمان نے میت کو غسل کرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ گردن پر گولیوں کے نشان موجود تھے۔اب سوال یہ ہے کہ جو دیگر لوگ بے نظیر کے ساتھ اس گاڑی میں موجود تھے انہیں بے نظیر بھٹو کو گولی لگنے کا پتہ کیوں نہیں چلا؟
-8 بے نظیر کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کیا گیا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کی درخواست کیوں کی گئی؟ حکومت کی جانب سے فیصلہ کس نے کیا کہ پوسٹ مارٹم نہیں ہوگا؟ پوسٹ مارٹم نہ کرانے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما تھے؟ جب لاش کا پوسٹ مارٹم ہی نہیں کیا گیا تو پھر موت کے اسباب کیسے تلاش کئے جائیں گے؟ پوسٹ مارٹم حادثاتی موت کے اسباب کا تعین کرنے کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیا پوسٹ مارٹم نہ کیا جانا کسی عالمگیر سازش کا اشارہ تو نہیں؟
-9 بے نظیر کی موت کے بارے میں اُس وقت کی حکومت نے متضاد بیانات کیوں دیئے؟ پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں کی جانب سے بھی متضاد بیانات سامنے آئے؟ گاڑی میں موجود تمام افراد کے بیانات میں کتنا تضاد تھا؟
10۔ حادثے کے فوراً بعد جائے وقوعہ کو کیوں دھویا گیا؟ ثبوت ضائع کرنے کا حکم کس کا تھا اور احکامات کس نے جاری کئے؟ خون کے دھبوں اور بارود کے ذرات کو دھونے کا مقصد ثبوت و شواہد کو مٹانا کیوں نہ مانا جائے؟
-11 تدفین کے معاملے میں عجلت سے کیوں کام لیا گیا؟ محترمہ کے جنازے میں عالمی رہنماﺅں کی شرکت کیوں نہیں ہوئی؟
-12 بی بی کی لاش کا آخری دیدار کیوں نہیں کرایا گیا؟ مداحوں کو اپنی محبوب رہنماءکا چہرہ دیکھنے سے کیوں روکا گیا؟ تدفین سے قبل کس نے ان کی شکل دیکھی اور ان کا کیا کہنا تھا؟
-13 کیا واقعی محترمہ کا قتل بیت اللہ محسود نے کرایا؟ حساس اداروں نے اتنی جلدی بیت اللہ محسود اور اُن کے ایک ساتھی کی بات چیت کیسے ریکارڈ کرلی؟ یہ ریکارڈنگ اُس وقت کیوں نہیں ہوئی جب قتل کی کوئی سازش بن رہی تھی؟
-14 محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی غیر طبعی موت کی صورت میں جن افراد کو اپنی زندگی میں ملوث قرار دے دیا تھا ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ کیا وہ تمام لوگ قانون سے بالاتر ہیں؟ اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم کو بھی ان افراد سے پوچھ گچھ کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟
-15 بے نظیر بھٹو کے قتل کے اسباب جاننے کیلئے سابق حکومت، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ علیحدہ علیحدہ تحقیقات کر چکی ہیں۔ کیا ان تمام اداروں کی تحقیقاتی یا تفتیشی رپورٹس غیر جانبدارانہ ہیں؟ آئندہ آنے والے نتائج کتنے صحیح ہونگے؟
یہ تمام سوالات جواب طلب ہیں اور اگر کوئی آزادانہ تفتیش ہو تو بہت سے چہرے عیاں ہو سکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔ ! اس نوع کے معاملات میں ہمارا گزشتہ ریکارڈ کسی لحاظ سے بھی قابل رشک نہیں ہے۔ جب تک ان بنیادی سوالات کا جواب نہیں مل جاتا اس وقت تک یہ گتھی سلجھتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل اگر صدر زرداری کے دور میں بھی سامنے نہ آ سکے تو پھر یہ شہادت بھی قصہ پارینہ بن جائے گی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved