اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔03-12-2010

وکی لیکس بم پھٹ گیا
تحریر: نجیم شاہ

تحریر: نجیم شاہ
”وکی لیکس “ بم ایک بار پھر زوردار دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس بم کے پھٹنے سے مختلف ممالک کے درمیان سفارتی تباہی شروع ہونے کے امکانات بڑھ گئے ۔ پاکستان، سعودی عرب، ایران ، چین اور القاعدہ کے بارے میں مزید ایسے راز افشاءہو گئے ہیں جن کے باعث دنیا بھر کی مختلف شخصیات کی زندگیاں خطرے میں پڑ جانے کا خدشہ ہے۔ افغانستان اور عراق میں امریکا اور اُس کی افواج کے سیاہ کارنامے منظرعام پر لانے سے شہرت حاصل کرنیوالی ویب سائٹ وکی لیکس نے پاکستان، ایران، سعودی عرب، روس، بھارت ، چین اور امریکا سمیت کئی ممالک کے بارے میں خفیہ امریکی دستاویزات جاری کر دی ہیں۔ ان دستاویزات کے مطابق القاعدہ کے اہم مالی مددگار سعودی باشندے ہیں جبکہ سعودی عرب کے بادشاہ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے امریکا سے ایران پر حملہ کرنے اور ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کیلئے کہا تھا۔ افشاءکی جانیوالی خفیہ امریکی دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا نے پاکستان سے ایٹمی تنصیبات کے معائنے کا مطالبہ کیا تھا جو پاکستان نے مسترد کر دیا ۔ ان دستاویزات کے مطابق سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پاکستان کی ترقی میں صدر آصف علی زرداری کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے جبکہ اُن کی طرف سے عراقی وزیراعظم پر بھی طنز کی گئی ہے۔ ابوظہبی کے ولی عہد محمد زید کے خیالات بھی پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے بارے میں کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ ان کی طرف سے زرداری کو بدعنوان جبکہ میاں محمد نواز شریف کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ان خفیہ دستاویزات کے مطابق اوباما انتظامیہ ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکی کہ کون سے پاکستانیوں پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور کن پر نہیں جبکہ امریکا ابھی تک پاکستان میں بااعتماد ساتھیوں کی تلاش میں ہے۔ ان خفیہ دستاویزات کے مطابق ہیلری کلنٹن بھارت کو سلامتی کونسل کا حقدار نہیں سمجھتیں جبکہ چین بھی بھارت کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کا سخت مخالف ہے۔ وکی لیکس کی خفیہ دستاویزات کے مطابق پاکستانی آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی نے کیری لوگر بل پر تنازعہ کھڑا کیاجبکہ افغانستان کے حقانی نیٹ ورک کو ناقابل شکست قرار دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ راز بھی افشاءہوا کہ چین کو متحدہ کوریا قبول ہے۔ امریکا اور برطانیہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں پاک بھارت ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے۔ وکی لیکس کی دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی سفارتکار ایرانی صدر احمدی نژاد کو ہٹلر اور حامد کرزئی کو پاگل سمجھتے ہیںجبکہ فرانسیسی صدر کو برہنہ بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ مزید انکشافات کے بعد یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ ایران نے یورپ تک مار کرنیوالے میزائل شمالی کوریا سے حاصل کئے جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنے سفارت کاروں کو بیرون ممالک جاسوسی کرنے پر زور دیا۔ وکی لیکس کے مطابق امریکا نے دشمنوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کی بھی جاسوسی کروائی۔ اس کے علاوہ امریکا نے اقوام متحدہ کی قیادت کی جاسوسی کیلئے بھی پورا نیٹ ورک بنایا ہوا ہے۔ چین، روس، فرانس اور برطانیہ کے سفارتکاروں کی جاسوسی کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جاسوسی بھی کروائی گئی جبکہ کئی ممالک میں امریکی سفیروں اور سفارتی عملے کو ان ممالک کے سیاست دانوں، فوجیوں، تاجروں ، اہم افراد اور تنظیموں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کی جاسوسی کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔ افشاءہونے والی خفیہ دستاویزات میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکا اس بات سے سخت پریشان ہے کہ پاکستان سے ایٹمی مواد غائب ہو کر ایٹم بم کی تیاری میں استعمال ہو سکتا ہے۔
2007ءمیں قائم ہونیوالی ہالینڈ کی یہ ویب سائٹ اس سے پہلے بھی کئی بار خفیہ دستاویزات افشاءکر چکی ہے۔ وکی لیکس پر شروع شروع میں دستاویزات محدود نوعیت کی ہوتی تھیں جبکہ بعد میں عراق اور افغانستان جنگ کے حوالے سے امریکی خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے بعد یہ ویب سائٹ عالمی توجہ کا مرکز بن گئی۔ وکی لیکس پر 25جولائی 2010ءکو جاری کی گی ”افغان وار ڈائری“ کا تعلق افغانستان میں مصروف امریکی فوج سے متعلق ہے۔ ان 92ہزار دستاویزات میں سے صرف 75ہزار دستاویزات جاری کی گئی تھیں جن میں 180دستاویزات کا تعلق پاکستان کے ساتھ تھا ۔جن میں الزام عائد کیا گیا کہ پاک آرمی اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔ اس کے علاوہ آئی ایس ایس آئی پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کروائے ۔ افغان جنگ کے حوالے سے ان خفیہ دستاویزات کے منظرعام پر آنے سے امریکہ میں خوب کھلبلی مچ گئی تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکی حکام نے اس کی مذمت کرنے اور اسے مجرمانہ فعل قرار دینے کے باوجود ان رپورٹس کی تردید نہیں کی ہے۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے سے وکی لیکس کے انکشافات کے بعد نہ صرف پاکستان نے ان رپورٹس کی تردید کی بلکہ امریکا نے بھی وکی لیکس کی ان دستاویزات کو قومی سلامتی اور اپنے فوجیوں کیلئے خطرہ قرار دیا۔ افغان جنگ کے حوالے سے دستاویزات سامنے آنے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروس کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وکی لیکس کی پرانی دستاویزات پر پاکستان کے تعاون پر سوالیہ نشان نہیں لگایا جائیگا۔ وائٹ ہاﺅس نے کہا کہ امریکا پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات سے آگاہ ہے۔ پاکستانی عوام اور آئی ایس آئی سمیت سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ پاکستان نے بھی وکی لیکس کی طرف سے آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ پاک فوج اور خاص طور پر آئی ایس آئی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی دوسری فوج کے مقابلے میں زیادہ قربانیاں دی ہیں۔
”افغان وار ڈائری“ کے بعد وکی لیکس عراق جنگ سے متعلق چار لاکھ دستاویزات بھی اپنی ویب سائٹ پر شائع کر چکی ہے۔ ان دستاویزات میں عراقی شہریوں پر ریاست کی منظوری سے تشدد اور امریکی فوج کے ہاتھوں ہزاروں شہریوں کی ہلاکت کا انکشاف کیا گیا ہے۔ ان خفیہ دستاویزات میں 2004ءسے 2009ءکے دوران عراق میں ہونے والے جنگی واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق عراق جنگ کے دوران ایک لاکھ نو ہزار عراقی ہلاک ہوئے جن میں سے 63فیصد عام شہری تھے حالانکہ کچھ عرصے پہلے امریکی فوج کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار میں عراقی جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے عراقیوں اور سکیورٹی فورسز کی مجموعی تعداد 77ہزار بتائی گئی تھی۔ عراق جنگ کے حوالے سے وکی لیکس کے انکشافات کے بعد امریکا کو اقوام متحدہ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جبکہ امریکی حکام نے تنقید پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کو علم ہے کہ جنوری 2009ءمیں صدر باراک اوباما کے اقتدار سنبھالنے کے بعد صورتحال تبدیل ہو گئی ہے۔
وکی لیکس نے ایک اور رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کرا رہی ہے۔ افغان جنگ کے متعلق خفیہ دستاویزات شائع کرنے کے بعد اس ویب سائٹ نے سی آئی اے کی پندرہ ہزار خفیہ دستاویزات میں سے ایک دستاویز جاری کی۔ سی آئی اے کی میمو نام کی اس خفیہ دستاویز سے ثابت ہو گیا کہ سی آئی اے پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کرانے میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی خفیہ ایجنسی القاعدہ کو امریکا پر حملے اور دہشت گرد بھرتی کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہی ہے۔اس کے علاوہ یہ راز بھی افشاءکیا گیا کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ایک دوسرے کی مدد اور جاسوسی بھی کرتی ہیں۔
وکی لیکس نامی اس ویب سائٹ کو سن شائن نامی ایک تنظیم چلاتی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں، عام شہری، تحقیقاتی صحافت کرنے والے صحافی اور ٹیکنالوجی کے ماہرین ان کو مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔وکی لیکس کئی بار خفیہ دستاویزات سامنے لا چکا ہے لیکن ابھی تک امریکا یا کوئی بھی ملک حساس دستاویزات کی اشاعت رکوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس ویب سائٹ کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ جب سے وکی لیکس قائم ہوئی ہے اس وقت سے لے کر اب تک یہ ایک سو سے زیادہ قانونی حملوں کا مقابلہ کر چکی ہے۔ اس ویب سائٹ کے خلاف کئی قانونی دعوے دائر ہو چکے ہیں جن کا فیصلہ وکی لیکس کے حق میں ہی ہوا۔ اپنے ادارے کے مقاصد کے بارے میں اس ویب سائٹ کے منتظمین کہتے ہیں کہ وہ لوگوں یا اداروں کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ معلومات، پوشیدہ رکھی جانے والی یا حساس دستاویزات ان کے نام پوشیدہ رکھتے ہوئے منظرعام پر لانے کا کام کرتے ہیں۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے تیزی سے پھیلاﺅ اور الیکٹرانک دستاویزات کی آسانی سے نقل ہونے کی خصوصیت کی بناءپر خفیہ معلومات شائع ہونے کے بعد دوبارہ کبھی خفیہ نہیں بن سکتیں۔ جیسے جیسے خفیہ دستاویزات کی فراہمی میں اضافہ ہوا ،وکی لیکس نے پوشیدہ معلومات افشاءکرنے والوں کی سہولت کے لئے اپنی پالیسیوں میں کئی تبدیلیاں کیں۔ جس میں اپنے نیٹ ورک میں کئی ایسے رضاکاروں کی شمولیت بھی تھی جو ان خفیہ دستاویزات کی صداقت کی تصدیق اور اس کے دیگر پہلوﺅں کی جان پرکھ کر سکیں۔ وکی لیکس انتظامیہ کا یہ بھی الزام ہے کہ خفیہ دستاویزات افشاءکرنے کے جرم میں اُن کی سائٹ کئی بار ہیکرز حملوں کا نشانہ بھی بنی جبکہ ادارے سے منسلک افراد کو جرمنی، اسرائیل اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک میں ہراساں کرنے کی بھی کوششیں بھی کی گئیں۔ وکی لیکس اپنے دفاع میں یہ بھی کہتی ہے کہ ہماری تنظیم بااصول طریقے سے معلومات افشاءکرتی ہے۔
وکی لیکس کی طرف سے آئندہ بھی اس طرح کے راز افشاءہوں گے اور کئی ممالک کے حکمرانوں اور اہم شخصیات کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا لیکن اس طرح سب سے زیادہ بدنامی خود امریکا اور اس کے سفارت کاروں کی ہی ہوگی۔ رپورٹ میں نئے انکشافات نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکا ہر ملک میں اپنی حکمرانی کا سکہ جمانا چاہتا ہے اس لئے نہ صرف جنوبی ایشیاءبلکہ دنیا بھر کے ممالک میں جاسوسی کا جال بچھا چکا ہے۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے افشاءہونے پر جہاں امریکا اور کئی دوسرے ممالک میں حکمرانوں کے لئے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں وہاں گزشتہ کئی برس سے اختیار کی گئی امریکی پالیسیاں، رحجانات اور عزائم بھی بے نقاب ہو گئے ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات آسانی سے ایک غیر متعلقہ شخص کے ہاتھ لگنے سے یہ بھانڈا بھی پھوٹ گیا کہ خود کو دنیا کی سپر پاور کہنے والے ملک امریکا کا اندرونی سکیورٹی سسٹم انتہائی ناقص ہے۔ ایسی خفیہ دستاویزات جس جگہ موجود ہوتی ہیں وہاں داخل ہونے کے لئے بھی اسپیشل کوڈ درکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح جہاں یہ دستاویزات رکھی جاتی ہیں وہ بھی انتہائی محفوظ جگہ ہوتی ہے اور ان دستاویزات تک پہنچنے کے لئے کئی مراحل سے گزرتا پڑتا ہے۔ اگر ایسے خفیہ راز کسی اور ملک سے چوری ہوتے تو وہاں ابھی تک ان دستاویزات کے انچارج آفیسر کا کورٹ مارشل ہو چکا ہوتا ورنہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان دستاویزات کو دانستہ طور پر شائع کرایا گیا۔
پاکستان دنیا کی نظر میں ایک مضبوط اسلامی ملک ہے ۔ پاک آرمی اور آئی ایس آئی کے بارے میں وکی لیکس کے انکشافات حقائق کے برعکس نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہیں۔ پاکستان میں اس وقت صرف دو ادارے مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیاں ہی ایسی ہیں جن پر عوام جان تک نچھاور کرتے ہیں۔ پاکستانی عوام یہ بھی سمجھتی ہے کہ جب تک پاکستان کی مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیاں موجود ہیں انشاءاللہ پاکستان ہمیشہ مستحکم رہے گا اور اس پر کوئی آنچ نہیں آ سکے گی۔ وکی لیکس کے انکشافات کے بعد امریکا کے چین، برطانیہ، بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں جبکہ پاکستان پر اس کا اثر ہرگز نہیں پڑے گا بلکہ عوام میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مقبولیت بڑھے گی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ان انکشافات میں اسرائیل کا ذکر تک نہیں اور یہی لمحہ فکریہ ہے۔۔۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved