اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔15-12-2010

سرکاری سکولوں کی ناقص کارکردگی
تحریر: نجیم شاہ

تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ نہ صرف انسان میں شعور پیدا کرتی ہے بلکہ تعلیم کی ہی بدولت انسان اچھے بُرے کی تمیز کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے ہر حکومت نے اس اہم قومی فریضے کو ہر دور میں نظرانداز کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیمی معیار بہتری کی بجائے تنزلی کا شکار ہوا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں تعلیم کی جو شرح تھی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معیار کو بلند کیا جاتا مگر غلط ترجیحات اور پالیسیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا ۔ اس وقت پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام موجود ہیں ،جن میں سرکاری سکول، پرائیویٹ سکول اور دینی مدارس شامل ہیں۔ بہت سی تنظیموں اور دانشوروں نے اس نظام کے خلاف آواز بھی اُٹھائی لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں 186ویں نمبر پر ہے اور دنیا کے ان آٹھ ملکوں میں شامل ہے جہاں تعلیم کے شعبے پر ملکی بجٹ کا دو سے تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے اور یہ روش ابھی تک جاری ہے۔ گورنمنٹ کے تحت چلائے جانے والے سکولوں کی ناقص کارکردگی، گھوسٹ سکولز اور سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان اور اسی نوعیت کی دوسری بہت سی وجوہات کی بناءپر ہمارا تعلیمی معیار مسلسل زوال پذیر ہے جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ سکول تعلیمی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے میں شب و روز کوشاں رہتے ہیں۔
پاکستان میں تقریباً آٹھ کروڑ آبادی تعلیم سے محروم ہے۔ سرکاری سکولوں میں سے 25 فیصد کا معیار بدترین ہے جبکہ پرائیویٹ سکول نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ طلباءکا سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کی طرف رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اساتذہ کا اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم دلوانے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور نہ ان کا اپنے آپ پر اعتماد ہے۔
ایک وقت تھا جب سرکاری سکولوں کی طرف طالب علموں کا زیادہ رحجان رہتا تھا اور والدین بھی اپنے بچوں کی سرکاری سکولوں میں تعلیم کو ترجیح دیتے تھے۔ پرائیویٹ سکولوں کی نسبت سرکاری سکولوں میں طلباءو طالبات کی تعداد بھی زیادہ ہوتی تھی جبکہ اس وقت ملک میں کئی سرکاری سکول ایسے ہیں جہاں طالب علموں کے مقابلے میں سکول کے سٹاف کی تعداد زیادہ ہے۔ اساتذہ کی اکثریت مختلف سکولوں میں تعیناتی کے باوجود غیر حاضر رہتی ہے ۔ دوسری طرف کئی سکولوں کے اساتذہ محض حاضری لگانے کے لئے آتے ہیں تاہم طلباءکی مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے اکثریت میں فیل ہو جاتے ہیں۔ کسی پرائمری سکول کے طالب علم سے اگر پوچھ لیا جائے کہ چودہ اگست کیوں مناتے ہیں تو وہ یہی کہے گا کہ ”اس دن چھٹی ہوتی ہے“ جبکہ پرائیویٹ سکول کا نرسری کا بچہ بھی انتہائی ذہین ہوتا ہے۔ کئی صوبوں میں محکمہ تعلیم کی طرف سے سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی غیر حاضریوں اور غیر تسلی بخش سالانہ نتائج پر مانیٹرنگ سیل قائم گئے ہیں جن کا کام ہر ماہ مختلف سکولوں کا اچانک دورہ کرکے طلباءکو درپیش مسائل بارے معلوم کرنا ہے۔ یہ مانیٹرنگ سیل بھی برائے نام ہیں اور کوئی بہتر کارکردگی نہ دکھا سکے۔
ہمارے ہاں ایک غلط روایت یہ بھی موجود ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے طالب علموں کی نسبت غیر سرکاری اداروں میں پڑھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کیونکہ سرکاری سکولوں کے ٹاٹوں پر بیٹھ کر بھی پڑھنے والوں نے بڑی بڑی ترقیاں حاصل کیں اورمختلف شعبوں میں ملک کا نام روشن کیا۔ میرے ذاتی مشاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ سرکاری سکولوں میں میرے ساتھ پڑھنے والے میری کلاس کے تقریباً تمام ایسے لڑکے جن سے کسی نہ کسی حوالے سے میری ملاقات رہی یا مجھے ان کے بارے میں معلومات ملتی رہیں وہ آج معاشی اور معاشرتی اعتبار سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ چند ایک لڑکے جو آگے نہیں بڑھ سکے وہ اپنے معاشی اور خاندانی حالات کا شکار ہوئے۔ اگر اساتذہ کی ابتدائی تربیت اچھی ہو تو طالب علم پھر زندگی کے کسی شعبے میں ناکام نہیں رہتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں سرکاری سکولوں نے بہتر کارکردگی دکھائی اور اساتذہ بھی اپنے طالب علموں کی مناسب رہنمائی اور تربیت کرتے تھے لیکن پچھلے چند سالوں سے معاملہ یکسر مختلف ہو چکا ہے۔ سرکاری سکولوں میں 25فیصد سکول ایسے ہیں جن کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے۔ جہاں اساتذہ کی اکثریت غیر حاضر رہتی ہے، طالب علموں کی مناسب تربیت اور رہنمائی کا کوئی بندوبست نہیں۔ اگر اساتذہ سکول آتے ہیں یا تو صرف حاضری لگانے کے لئے یا پھر ٹائم گزار کرچلے جاتے ہیں۔ جہاں سرکاری سکول ناقص کارکردگی دکھا رہے ہیں وہیں تین طبقاتی تعلیمی نظام ہمارے ملک اور نوجوان نسل کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے ہمارے طلباءکی ڈگریوں کو بیرون ملک خاص اہمیت نہیں دی جاتی اور انہیں دوبارہ سے اپ گریڈ ہونا پڑتا ہے۔ اگر حکومت سرکاری سکولوںکے لئے مانیٹرنگ سیل کو فعال کرتی ہے اور پورے ملک کا تعلیمی نظام ایک کر دیتی ہے تو پھر ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے جن میں نوجوانوں میں اعتماد کی کمی، نوجوان نسل کے نفسیاتی مسائل، بہتر مواقع کا میسر نہ ہونا، باصلاحیت افراد کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved