اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔15-12-2010

 خواجہ سراﺅں کی تالیاں رنگ لے آئیں!
تحریر: نجیم شاہ

خواجہ سراﺅں کا دیرینہ مطالبہ مانتے ہوئے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے فیصلہ کیا ہے کہ خواجہ سراﺅں کے قومی شناختی کارڈ میں ان کی مرضی کے مطابق ان کی جنس کو شناخت دی جائے ۔ اس سے قبل قومی شناختی کارڈ پر تیسری جنس کے درخواست گزاروں کو صرف مرد تصور کیا جاتا تھا۔ خواجہ سراﺅں کی جانب سے ایک عرصے سے اس کے خلاف ایک مہم چلائی جا رہی تھی۔ کچھ خواجہ سراءچاہتے تھے کہ ان کو مرد لکھا جائے جبکہ کچھ کی خواہش تھی کہ انہیں مونث لکھا جائے۔ اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ یکم جنوری سے خواجہ سراﺅں کو جاری ہونے والے شناختی کارڈز میں ان کی جنس ”مخنث“ لکھی جائے گی۔ اس حوالے سے نادرا نے اپنے سافٹ ویئر میں مناسب تبدیلیاں بھی کر لی ہیں اور اگلے سال سے ہیجڑوں کیلئے نئے شناختی کارڈ جاری کئے جائیں گے۔ نادرا انتظامیہ کے مطابق ادارے نے یہ قدم سپریم کورٹ کی ہدایت پر اُٹھایا ہے اور جہاں سسٹم میں ردوبدل کی گئی ہے وہاں اس بارے میں قانون سازی کیلئے حکومت کو سفارشات بھی بھیج دی گئی ہیں۔ نادرا کے مطابق جو مرد ہیجڑا ہوگا اس کااندراج بطور ”خواجہ سرا“ جبکہ خاتون ہیجڑے کا ”زنخا“ کے طور پر اندراج ہوگا۔ تاہم ہیجڑوں کو جاری ہونے والے شناختی کارڈ پر ان کی جنس ”مخنث“ ہی لکھی ہوگی اور ان کے ”خواجہ سرا “یا ”زنخا “ہونے کا ریکارڈ صرف نادرا کے پاس ہوگا۔
بنی نوع انسان کی دو واضح اصناف کے علاوہ ایک اور صنف جو بظاہر تو مکمل انسان ہے مگر نہ ہی مکمل مرد اور نہ ہی مکمل عورت ہوتی ہے ، اسے خواجہ سرا، کھسرا اور ہیجڑا جبکہ مغربی زبان میں لیڈی بوائے سے پکارا جاتا ہے۔ اس صنف کا مزاجی رحجان صنف نازک یعنی عورت کی طرف واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں ہیجڑے ”خواجہ سرا “کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بادشاہ، نواب، راجے اور مہاراجے اپنے حرموں کی نگرانی کے لئے عموماً ایسے افراد کا چناﺅ کرتے تھے جو پیدائشی نامرد ہوتے تھے یا پھر جن کو ”مخنث“ کر دیا جاتا تھا۔ ان افراد کو خواجہ سرا کے نام سے منسوب کیا جاتا تھا۔ امیر خسرو کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسی صنف سے تعلق رکھتے تھے اور اللہ کے نیک بندے ہو کر گزرے ہیں۔ لفظ ”کھسرا“ اصل میں امیر خسرو کی مناسب سے پنجابی میں ”خسرا“ سے بگڑ کر بنا ہے۔ تاریخ سے اس بات کا کوئی ثبوت تو نہیں ملتا کہ آیا امیر خسرو اسی صنف سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں البتہ انہوں نے زندگی بھر شادی نہیں کی جبکہ ہیجڑوں کے بارے میں مشہور ہے کہ شروع شروع میں یہ حضرت امیر خسرو کے گیت گاتے تھے۔ غالباً اسی نسبت سے انہیں ”خسرا “ یا پھر ”کھسرا“ کہا جانے لگا۔تاریخی شواہد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نواب اودھ واجد علی شاہ نے اپنی فوج میں ہیجڑوں پر مشتمل ایک فوج دستہ تشکیل د ے رکھا تھا جو کہ تاریخ میں ہیجڑوں کی باقاعدہ واحد فوجی بٹالین تھی اور ان کی یونیفارم بھی زنانہ لباس پر مشتمل تھی۔
ہیجڑے ٹیکنیکل بنیاد پر نامرد نہیں کہے جا سکتے۔ ایک عام مرد بھی اس چیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ عام طور پر وہ افراد ہوتے ہیں جن کی جنس پیدائش کے وقت متعین نہیں کی جا سکتی۔ بڑے ہونے پر مختلف ہارمونل ٹیسٹس کی بنیاد پر ان کو قریبی مرد یا عورت کہا جاتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کا ہارمونل بیلنس کس طرف زیادہ ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ عام انسانوں کی طرح اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ہیجڑے جو کہ ایک نامکمل انسان ہیں جن کو نہ تو معاشرہ قبول کرتا ہے اور نہ ہی ان کی حرکات و سکنات کی وجہ سے ان کے گھر والے قبول کرتے ہیں۔ ان کی اپنی ہی الگ سی دنیا ہے جہاں یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں آپس میں بانٹتے ہیں۔ ان ہیجڑوں میں کوئی ریما، کوئی ریشم، کوئی مالا اور کوئی انجمن ہوتی ہے۔ ان کی اپنی اقدار اور رسم و رواج ہوتے ہیں جس کے تحت یہ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔یہ لوگ معاشرے سے کٹ کر رہنا پسند کرتے ہیں، خواتین کی طرح کا لباس پہنتے ہیں، مصنوعی بال اور آرائش حسن اشیاءکا فالتو استعمال کرتے ہیں جو انہیں عام لوگوں کیلئے قابل توجہ بناتا ہے۔ یہ لوگ عموماً ٹولیوں کی شکل میں رہتے ہیں ۔ ہر ٹولی کا لیڈر گرو کہلاتا ہے جبکہ جس گھر میں یہ رہتے ہیں اُسے ڈیرہ کہا جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اندر احترام آدمیت نہیں رہا ۔ کھسروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ معاشرے میں فحاشی پھیلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مانا کہ یہ معاشرے میں کچھ بُرے کاموں کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ برائی بھی اسی معاشرے ہی کی پیداوار ہے۔ ان کی یہ تیسری کنڈیشن انہیں گندی عادات پر مجبور نہیں کرتی بلکہ معاشرہ ہی کے چند لوگ انہیں اس طرف مائل کرتے ہے اور رفتہ رفتہ یہ اُسے عادت اور پیشہ بنا لیتے ہیں۔یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ انہیں پیدا کرنے والی ہستی تو وہی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ ہمارے معاشرے نے ان لوگوں پر ہر قسم کے پیشے کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کوئی ان کو چپڑاسی تک کی نوکری بھی نہیں دیتا۔ پھر ان کے پاس کرنے کو وہی کچھ رہ جاتا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ ایک بچہ اگر پیدائشی طور پر معذور ہوتا ہے تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے اور اس کی زندگی نہ ”برباد“ ہونی چاہئے اور نہ اس پر زندگی کے دروازے بند کرنے چاہیں لیکن افسوس ہمارے معاشرے میں ابھی تک اس بات کا شعور نہیں ہے۔یہ بھی انسان ہیں اور جینے کا حق رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں ہیجڑوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ یہ لوگ بھی انسان اور پاکستانی ہیں۔ ان کا فطرتی ہیجڑا یا کھسرا ہونا اور ان کا مناسب طریقے سے علاج معالج، تعلیم، رہنا سہنا یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ مسائل حل طلب ہیں اور حل ہو بھی سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہیجڑوں کو بنیادی حقوق دلوانے کے لئے قانون سازی کی ہدایت کی ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے جبکہ نادرا کی طرف سے ہیجڑوں کے لئے نئے سال سے شناختی کارڈ کا اجراءبھی ایک اہم اقدام ہے۔ اس وقت تقریباً80ہزار ہیجڑوں کے پاس شناختی کارڈ ہیں تاہم ان میں ان کی جنس مرد لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالی کسے کیسا پیدا کرتا ہے یہ خدا کی دین ہے۔ ۔۔دے تو دے دے، نہ د ے تو نہ دے۔۔۔ اس ذات کے سامنے کسی کا بس نہیں۔۔۔ مجال نہیں۔۔۔۔ اسٹیٹ کا قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ ان کی مردم شماری کے بعد ان کی تعداد کا تعین کیا جائے اور پھر ان کے لئے ایک ادارہ بنایا جائے اور ایک فنڈ مختص کیا جائے۔ اس فنڈ سے ان کے لئے چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں، کارخانے لگا کر ان سے وہاں کام لیا جائے۔ جس کے بدلے میں ان کو اتنا پیسہ ملے کہ یہ اس طرح سڑکوں اور گھر گھر جا کربھیک نہ مانگیں اور عزت سے اپنے روزگار سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔ تب ہی ان کی معاشرے میں عزت بھی بحال ہو سکتی ہے اور یہ اپنا مقام بھی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں ہر انسان اپنا مقام خود بنا لے تو اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ورنہ مذاق بنانا اور تنقید کرنا ہماری عوام کا پرانا کام ہے۔ حوصلہ افزائی اور حوصلہ شکنی میں بڑا فرق ہے۔ ہماری عوام حوصلہ افزائی کم اور حوصلہ شکنی زیادہ کرنے کی عادی ہے۔اس قانون سازی سے اس بات کی قومی امید ہے کہ خواجہ سراﺅں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں گے جس سے ان کے طرز معاشرت میں مثبت تبدیلی آ سکے گی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved