اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔22-12-2010

لیڈی بوائے
تحریر: نجیم شاہ

انسانوں میں تیسری مخلوق جسے اُردو میں خواجہ سرا، پنجابی میں ہیجڑا یا کھسرا جبکہ مغربی زبان میں لیڈی بوائے کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہ مخلوق آج کل موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے کیونکہ گزشتہ سال دسمبر میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں بنیادی حقوق دلوانے کے لئے حکومت کو قانون سازی کی ہدایت کی تھی تاکہ دوسرے شہریوں کی طرح انہیں بھی برابری کے حقوق میسر آ سکیں۔ اس فیصلے کو جہاں عوام میں سراہا گیا وہاں خواجہ سراﺅں نے بھی اس پر انتہائی خوشی کا اظہار کیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جہاں حکومت ہیجڑوں کی مردم شماری کے لئے اقدامات کر رہی ہے وہیں یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ یکم جنوری سے خواجہ سراﺅں کو جو شناختی کارڈ جاری ہوں گے اُن میں ان کی جنس ”مخنث“ لکھی جائے گی جبکہ نادرا کے ریکارڈ میں مرد ہیجڑے کا ”خواجہ سرا“ اور عورت ہیجڑے کا”زنخا“ کے طور پر اندراج ہوگا۔
پچھلے ہفتے ”خواجہ سراﺅں کی تالیاں رنگ لے آئیں“کے عنوان سے میرا کالم مختلف قومی اخبارات اور آن لائن اردو میڈیا میں شائع ہوا۔ جس میں حکومت سے میں نے مطالبہ کیا تھا کہ خواجہ سراﺅں کی مردم شماری کے بعد ان کی تعداد کا تعین کیا جائے اور پھر ان کیلئے ایک ادارہ بنایا جائے اور ایک فنڈ مختص کیا جائے۔ اس فنڈ سے ان کے لئے چھوٹی چھوٹی فیکٹریاںاور کارخانے لگاکر ان سے وہاں کام لیا جائے۔ جس کے بعد ان کو اتنا پیسہ ملے کہ یہ اس طرح سڑکوں اور گھر گھر جا کر بھیک نہ مانگیں اور عزت سے اپنے روزگار سے اپنا گزربسر کر سکیں۔ تب ہی ان طرز معاشرت میں بہتر تبدیلی آ سکے گی ۔اب نیشنل ڈیٹابیس آف ریگولیشن اتھارٹی (نادرا) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ خواجہ سراﺅں کی مردم شماری کے بعد نہ صرف ان کے شناختی کارڈ میں جنس کے اندراج کا مسئلہ حل ہو جائے گا بلکہ انہیں نادرا کے صوبائی مراکز، مرکزی ہیڈ کوارٹر اور آزاد کشمیر کے دفاتر میں ڈیٹاانٹری آپریٹر کی نوکریاں بھی دی جائیں گی۔ یہ یقینا ایک مستحسن فیصلہ ہے اور نادرا کے موجودہ چیئرمین اس اہم فیصلے پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
خواجہ سراﺅں کے حوالے سے میرے گزشتہ کالم کی اشاعت کے بعد جہاں دیگر حلقوں کی طرف سے مجھے ای میل پر فیڈ بیک موصول ہوتی رہی ،وہیں راولپنڈی سکستھ روڈ سے نسرین جمو (لیڈی بوائے) نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کچھ یوں کیا۔ ”آج اخبار میں آپ کا کالم پڑا۔ بہت خوشی ہوئی اور اپنے تمام دوستوں کو بھی دکھایا کہ کوئی تو ہے جو ہمارے لئے آواز اُٹھاتا ہے۔ سب دوستوں نے آپ کے لئے دعا کی۔ ہم درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے پرانے نام خواجہ سرا، ہیجڑہ، کھسرا وغیرہ ختم ہونے چاہئیں اور ہمیں صرف ایک ہی نام دیا جائے ”لیڈی بوائے“۔۔۔ اُمید ہے آپ آئندہ بھی ہمار ے لئے اسی طرح آواز اُٹھاتے رہیں گے۔“
عام انسانوں کے مقابلے میں ہیجڑوں کی اقدار اور رسم و رواج بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر متوسط طبقے کی آبادیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ معاشرے سے کٹ کر رہتے ہیں کیونکہ معاشرہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ عورتوں کی طرح کا لباس پہنتے ہیں تاکہ دوسرے لوگوں میں ممتاز نظر آئیں۔ آپس میں جو زبان بولتے ہیں وہ فارسی چندرنا کہلاتی ہے۔ یہ لوگ عموماً ٹولیوں کی شکل میں رہتے ہیں اور ہر ٹولی کا ایک لیڈر ہوتا ہے جو گرو کہلاتا ہے۔گرو سب سے زیادہ تجربہ کار اور عمر رسیدہ شخص ہوتا ہے ۔ جس گھر میں یہ رہتے ہیں اس کو ڈیرہ کہا جاتا ہے۔ ہیجڑوں کی ٹولی میں جب کوئی نیا ہیجڑا شامل ہوتا ہے تو پہلے اُسے گرو کا چیلا بننا پڑتا ہے۔ اُسے شاگردی میں لینے سے قبل گرو ایک رسم کا انعقاد کرتا ہے جسے ”رسم شاگردی“ کہا جاتا ہے۔ شاگردی میں آنے والا اس موقع پر اپنی حیثیت کے مطابق گرو کو تحفے تحائف پیش کرتا ہے۔جس کے بعداس نئے چیلے کی تربیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں ایک اُستاد اس کو ہاتھوں اور پاﺅں کے انداز، قدم اُٹھانا، گھنگرو بجانا، گردن ہلانا اور تھاپ پر ہلنا سکھاتا ہے۔ ایک ماہ کی تربیت کے بعد چیلا اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹولی کے ساتھ جا کر ناچے اور پیسے کمائے۔ یہ لوگ سرکس، میلوں، شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش وغیرہ پر ناچ کر پیسے کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ چوری چکاری اور جسم فروشی بھی کرتے ہیں۔ ہیجڑوں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرکے یا کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرکے باعزت زندگی بسر کرتے ہیں۔
ہیجڑوں میں جب کوئی مر جاتا ہے تو تمام ہیجڑے پوری طرح تیار ہو کر اس کی میت پر آتے ہیں اور خوب رونا دھونا اور ماتم کرتے ہیں۔ مرنے والے کے جنازے کے ساتھ سادہ کپڑوںمیں جاتے ہیں۔ ہیجڑوں کی چار مختلف قسمیں ہوتی ہیں جن میں پیدائشی ہیجڑہ، پیدائشی ہیجڑی، نربان اور اقوای شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی نربان ہیجڑہ فوت ہو جائے تو اُسے رات کے اندھیرے میں دفنایا جاتا ہے۔ نربان کی نہ تو نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی قبر کا تعویذ بنایا جاتا ہے البتہ اقوای ہیجڑے کی نماز جنازہ بھی ہوتی ہے اور اُسے دن کی روشنی میں دفنایا جاتا ہے۔اگر کسی ڈیرے کا ”گرو“ مر جائے تو اس کی جگہ نئے گروہ کا چناﺅ ہوتا ہے۔منتخب ہونے والے گرو کے سر پر قل والے دن پگڑی رکھ دی جاتی ہے جبکہ چالیسویں کے دن نئے گرو کی رسم تاج پوشی کی جاتی ہے۔ اس طرح نیا گرو ڈیرے کی ذمہ داریاں سنبھال لیتا ہے۔
زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان لوگوں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں نہ ان کا شناختی کارڈ بنتا تھا اور نہ ہی ان کو ووٹ کا حق حاصل تھا۔ نیشنل ڈیٹا بیس آف ریگولیشن اتھارٹی کی طرف سے جن 80ہزار خواجہ سراﺅں کو پہلے سے شناختی کارڈ کا اجراءہو چکا ہے اُن میں بھی ان کی جنس مرد لکھی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہیجڑوں کو بنیادی حقوق دلوانے کیلئے قانون سازی کی ہدایت دینا جبکہ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا ایک خوش آئند بات ہے۔ اس قانون سازی سے اس بات کی قوی اُمید ہے کہ خواجہ سراﺅں کو نہ صرف اُن کے بنیادی حقوق مل سکیں گے بلکہ ان کے طرز معاشرت میں بھی مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ جہاں حکومت ان لوگوں کے لئے قانون سازی کر رہی ہے وہیں یہ لوگ یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ شناختی کارڈ میں اُن کی جنس ”مخنث“ کی بجائے ”لیڈی بوائے“ لکھی جائے تاکہ آئندہ لوگ انہیں خواجہ سرا، ہیجڑہ، کھسرا وغیرہ کے ناموں سے نہ پکار یں۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved