اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔28-12-2010

چین گونگا نہیں ہے
تحریر: نجیم شاہ

قومی زبان کسی بھی قوم کی شناختی زبان ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی قوم میں بولی جانے والی زبانوں، زبانوں کے لہجے اور پھر مجموعی تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک لحاظ سے قومی زبان کو کسی بھی قوم کی شناخت مانا جاتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم وین جیاباﺅ نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنی قومی زبان میں خطاب کرکے نہ صرف زندہ قوموں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ دوسروں کی زبان اور ثقافت اپنانے والے ہمیشہ ادھورے ہی رہتے ہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے سابق وزیراعظم چو این لائی کے اُس تاریخی جملے کو بھی زندہ کردیا جب ایک غیر ملکی ملاقات کے دوران اُن سے انگریزی بولنے کو کہا گیا تو اُن کی طرف سے ایک جواب آیا جو تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کیلئے رقم ہو گیا کہ ”چین گونگا نہیں ہے“۔ صرف یہی نہیں بلکہ سنہ دو ہزار چھ میں جب چینی صدر ہوجن تاﺅ پاکستان آئے تھے تب بھی انہوں نے کنونشن سنٹر میں پاکستانی قوم سے اپنی قومی زبان میں خطاب کیا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے سٹیج سیکرٹری سے لیکر تقریب کے آخری مقرر تک ہر ایک پاکستانی مقرر نے اپنی قومی زبان کی بجائے انگریزی زبان میں خطاب کیا ۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ چین کے کسی صدر کے پاس کچھ ممالک کا وفد ملنے آیا تو ان کی بات چیت کیلئے چینی صدر نے اپنے مترجم کو استعمال کیا۔ اس دوران وفد میں سے کسی نے ایک لطیفہ سنایا تو سوائے چینی صدر کے تمام لوگ ہنسنے لگے۔ چینی صدر کے مترجم نے اس لطیفہ کو جب چینی زبان میں ترجمہ کرکے اپنے صدر کو سُنایا تو وہ بھی مسکرا دیئے۔۔۔ پھر کسی نے سوال کیا کہ آپ کو چینی زبان کے علاوہ اور کونسی زبانوں پر عبور حاصل ہے تو چینی صدر کے مترجم نے وفد کو جن زبانوں کا بتایا اُن میں انگریزی زبان بھی شامل تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کی اہمیت آج کی دنیا میں مسلمہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں عربی زبان پر بھی عبور ہونا چاہئے جبکہ انگریزی چونکہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ہمیں بھی اس زبان پر عبور حاصل کرنا چاہئے تاکہ ہم دنیاوی ترقی کے لئے پیچھے نہ رہ جائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کی اہمیت ویسی ہی رہنی چاہئے جیسی کہ باقی ممالک میں اپنی زبان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جب بھی کوئی اہم اور کڑا وقت ہو اپنی زبان کو اہمیت دیں اور ثابت کریں کہ آپ ایک اچھے اور سچے پاکستانی ہیں۔ انگریزوں نے جب برصغیر چھوڑا یہاں اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر چلے گئے جن میں ایک انگریزی زبان بھی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں کا یہی حال ہے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد آج تک یہاں انگریزی کا ہی راج ہے۔ جبکہ اُردو اور ہندی صرف کہنے کی حد تک قومی زبانیں ہیں۔
زبان ثقافت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی زبان کے مسئلے پر ہوئی تھی۔ ہمارے حکمران اسمبلی کے اندر، عوام سے خطاب میں انگریزی زبان کا استعمال لازمی سمجھتے ہیں لیکن کیا وہ نہیں جانتے کہ ابھی میرے ملک کی آدھی سے زیادہ عوام کو انگریزی کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے حکمران یا اُن کی اولادیں جب انگلش میڈیم سے پڑھ کر آتی ہیں تو اُن کی اردو کمزور ہوتی ہے یا پھر وہ اُردو بولنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہم لوگ اپنی زبان کی اہمیت کو خود ہی گرا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ کیا کوئی بیرونی نمائندہ ہمارے ملک میں آ کر ہماری زبان میں بات کرے گا۔۔۔ جواب صاف۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ دوسرا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک ٹی وی میڈیا جب سے ترقی کرنے لگا ہے وہ اپنی ثقافت، تہذیب کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔ ٹی وی چینلز کے پروگراموں ، ڈراموں میں اب کافی سارے الفاظ انگریزی اور دوسری زبانوں کے استعمال ہونے لگے ہیں ۔ ایک اور بڑی خرابی یہ ہے کہ قومی زبان اُردو میں ہوتے ہوئے تمام کاغذی کارروائیاں انگریزی میں کی جاتی ہیں جو کہ اُردو کے ساتھ زیادتی اور ظلم سے کم نہیں ہے۔ اگر ہمارا نظام اُردو میں ڈھل جائے تو عجب نہیں کہ باہر کے لوگوں سے ہم بھی کافی حد تک محفوظ رہیں۔ آج ہمارا جتنا بھی سرکاری ڈیٹا آن لائن ہے وہ انگریزی میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کو دن میں کتنی دفعہ چیک کیا جاتا ہوگا۔ ہمارے ملک کی قومی زبان ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی سرکاری عمارتوں پر اور دیگر کئی جگہوں پر سائن بورڈ تک انگریزی میں دیکھتے ہیں۔
پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ایک مضبوط اور مستحکم وفاق کا نام ہے اور اس کی قومی زبان اُردو ہے۔پوری دنیا میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں ارد و کا نمبر چوتھا ہے اور یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے۔ جب تحریکِ پاکستان اپنی ابتدائی منزلوں میں تھی تو اُس وقت اُردو سب سے زیادہ پسندیدہ زبان تھی۔ اس زبان کی محرومی کا اصل سبب بھی یہی ہے کہ ہم وطنوں کی اکثریت اپنی ثقافت پر غیروں کی ثقافت کو ترجیح دیتی ہے۔ ہر قوم کی ایک زبان ہوتی ہے جو اس کے عوام کے مابین اتحاد و روابط کے ذریعے کے طور پر کام آتی ہے۔ مسلمانوں کو باہم یکجا کرنے والی قوت اسلام ہے۔ اسلام کے پیغام کی تبلیغ کے لئے اُردو ایک مشترکہ ذریعہ بنی ہے اور اسی وجہ سے یہ پاکستان کی قومی زبان کہلائی گئی۔اُردو زبان دنیا کی ان چیدہ زبانوں میں سے ہے جو انتہائی فصیح اور جامع ہے۔ اُردومیں اہلیت موجود ہے کہ دور جدید کے سائنسی، علمی اور تحقیقی علوم کے تراجم اور اصطلاحات کو الفاظ کا بیش بہا ذخیرہ فراہم کر سکے۔ یہ زبان مروجہ علوم کو انگریزی زبان سے بھی زیادہ وسیع المفہوم اور اعلی اصطلاحات مہیا کر سکتی ہے لیکن تحقیق کی کمی اور ارباب اختیار کی عدم توجہی دو ایسے عوامل ہیں جو اردو زبان کو خود اس کے دیس میں اجنبی بنا رہے ہیں۔ یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ انگریزی کو بالکل فراموش کر دیا جائے بلکہ فی زمانہ انگریزی کا ایک زبان کے طور پر سیکھنا بہت ضروری ہے۔
پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک قوم نے ترقی کی ہو جس کا ذریعہ تعلیم کوئی غیر ملکی زبان رہی ہو۔ تاریخ قدیم اور جدید بھی اسی بات کے حق میں فیصلہ دیتی ہے کہ ترقی ان اقوام نے کی جنہوں نے جدید علوم کو اپنی زبان میں ڈھالا ،نا کہ وہ اقوام جو خود اغیار کی زبان میں ڈھل گئیں۔دنیا کے سامنے چین، جاپان، فرانس، کوریا، ملائشیا اور جرمنی سمیت بے شمار ممالک کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کو اختیار کرکے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی، طب، انجینئرنگ اور دیگر تمام علوم میں دسترس حاصل کی اور کر رہے ہیں۔ ان قوموں نے تمام جدید علوم ”اپنی“ ہی زبان میں عام کئے اور آج دنیا کی سب سے زیادہ ذہین قوموں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ چین ، جاپان میں جتنے لوگ بھی غیر ملکی زبان سیکھتے ہیں اپنی کسی تجارتی ضرورت کے تحت یا محض شوقیہ سیکھتے ہیں۔ کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر فلاں زبان نہ سیکھوں تو اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ عرب ممالک میں بھی انگریزی زبان سیکھنا ضروری نہیں ہے۔ تمام عرب ملکوں میں عربی سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک پوری دنیا پر یورپی حکومت کا سکہ جما ہوا تھا اور ان کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ فلم و فن، ثقافت و لباس ہر چیز میں ان کی نقالی کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا اور ہمارے ملک میں یہ غلامانہ ذہنیت آج بھی موجود ہے ۔آپ پاکستان میں کسی بھی شہری محفل میں کھڑے ہو جائیں اور تبادلہ خیال کرنے کی کوشش کریں تو سوائے بزرگوں کے ہر مخاطب قومی زبان میں بات کرتے وقت چند انگریزی لفظوں کا بھی ضرور استعمال کرے گا۔ اگر گفتگو انگریزی میں شروع ہوئی ہے تو دو چار جملوں کے بعد اُردو کی پٹڑی پر آ جائے گی مگر اس میں انگریزی کا جا بجا استعمال درد کے پیوند کی طرح ہر گھڑی لگتا چلا جائے گا اور اس کے بعد پھر انگریزی کا ایک جملہ سنگ گراں کی طرح آپ کے حسن سماعت کے لئے لڑھکا دیا جاتا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر حضرات ابلاغ کے معاملے میں تقریباً اسی طرح کی کیفیت سے دوچار رہتے ہیں۔ دو چار فقرے بولنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ابلاغ مکمل نہیں ہوا چنانچہ پھر اُردو سے انگریزی یا اس کے برعکس گیئر بدلا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے کلچر کے متعلق بے یقینی کا شکار ہیں اور صحیح طور پر اپنا ثقافتی تشخص نہیں کر پا رہے ۔
ابھی بھی وقت نہیں گزرا۔ ہمیں آج ہی جاگنا ہوگا اور اپنے ملک کی سرحدوں کے علاوہ اپنی زبان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ ثقافتیں قوموں کی پہچان ہوتی ہیں اور ہمیں اپنی پہچان زندہ رکھنی ہوگی۔ جس طرح ہمیں پاکستان سے پیار ہے اسی طرح ہمیں اپنی زبان اور اپنی ثقافت سے بھی اتنا ہی پیار ہونا چاہئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد بھارتی پارلیمنٹ میں خطاب کر رہے تھے، کسی نے اُن سے کہا مولانا سمجھ نہیں آ رہی انگلش میں بات کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ساری زندگی انگریزوں سے لڑنے میں گزار دی ہے، میں اپنی زبان کے لئے لڑا ہوں اور اب وہ چلے گئے تو انکی زبان پر بھروسہ کیوں کروں تاہم آپ انگلش میں سوال کریں میں اسکا جواب اردو میں دونگا۔ میں نے آج تک چین جیسی خوددار قوم کوئی اور نہیں دیکھی۔ وہ تو اہل یورپ نے دھوکے سے ان میں پھوٹ ڈلوا کر اور افیون پر لگوا کر کچھ سال کی مہلت حاصل کر لی تھی ورنہ یہ مغربی اتنے سال دنیا پر حکمرانی نہ کر پاتے۔ چین جس تیزی سے معاشی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے ، حالات بتا رہے ہیں کہ بہت جلد مشرقی ایشیاءدنیا کا طاقتور گڑھ ہوگا اور پھر ہمیں انگریزی کی نہیں چینی زبان سیکھنے کی ضرورت ہوگی۔۔۔۔!!!
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved