اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔04-01-2011

سیاسی گرما گرمی
تحریر: نجیم شاہ

ملک کا موسم تو سرد ہے لیکن سیاست میں ایک بارپھر گرما گرمی پیدا ہوگئی ہے۔ اس سیاسی گرما گرمی کا مرکز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ہے کیونکہ یہی وہ شہر ہے جہاں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں، جہاں سیاسی جوڑ توڑ اور اتحاد بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔آپ صبح کے وقت اس شہر میں داخل ہوں تو آپ کو سڑک کے کنارے ”کورا“ نظر آئے گا جس سے دارالحکومت میں سردی کی شدت کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن جیسے ہی آپ اس شہر کے ریڈ زون ایریا میں داخل ہوں آپ کو گرمی لگنا شروع ہو جائے گی۔ یہی وہ سیاسی گرما گرمی ہے جس کی وجہ سے اسلام آباد کے ریڈ زون میں پڑنے والا ”کورا“ بھی سورج کے نکلنے سے پہلے ہی پِگل جاتا ہے۔
پچھلے چند روز سے ملکی ماحول ٹھنڈا ٹھنڈا اور پھیکا سا محسوس ہو رہا تھا لیکن آج پاکستان کی سیاست میں بیانات کی حد تک بڑی گرما گرمی ہے۔ حج سکینڈل آخر کار حکومتی اتحاد میں دراڑ ہی ڈال گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے بھی حکومت سے علیحدگی اختیار کرکے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حکومت سے علیحدگی کے بعد پیدا ہونیوالی ہلچل ایم کیو ایم کے فیصلے کے بعد سیاسی طوفان میں بدل گئی ہے۔ وزیراعظم کی تبدیلی ہوگی یا پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ، وسط مدتی انتخابات ہوں گے یا پھر حالات کی خرابی ایک بار پھر مارشل لاءکا راستہ ہموار کرے گی۔اس طرح کے سوالات سامنے آ رہے ہیں جن کا جواب آنے والے دنوں میں ہی مل سکے گا۔
فضل الرحمن گروپ کے بعد متحدہ قومی موومنٹ نے وفاقی وزارتوں سے علیحدگی کا اعلان کرکے ملک بھر میں توجہ حاصل کرلی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی نسبت ایم کیو ایم اپنے کارڈز نہایت احتیاط کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ ایک طرف اس جماعت کے رابطے مختلف سیاسی پارٹیوں سے برقرار ہیں جبکہ دوسری طرف ایم کیو ایم کسی ٹھوس جواز کی بنیاد پر حکومت سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے۔ ایسی صورتحال میں سندھ کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذولفقار مرزا کے بیانات، کراچی ٹارگٹ کلنگ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نے ایم کیو ایم کی مشکل آسان کر دی ہے۔
فروری 2008ءکے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) میں سے کوئی جماعت بھی بھاری اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔ لہٰذا پیپلز پارٹی نے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرکے نواز لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی اور جے یو آئی سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کو اپنے سال ملا کر مخلوط حکومت قائم کی۔ لیکن یہ غیر فطری اتحاد چند دنوں کا مہمان ثابت ہوا جب ن لیگ نے مرکز میں حکومتی اتحاد سے علیحدگی تاہم پنجاب میں پیپلز پارٹی سے اتحاد برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بعد متحدہ قومی موومنٹ حکومت سے علیحدہ ہونے والی تیسری جماعت ہے۔
حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے والی ہر جماعت نے پیپلز پارٹی سے وعدے وفا نہ کرنے کا الزام لگایا۔ نواز لیگ ججوں کی بحالی کا وعدہ پورا نہ کرنے کی صورت میں حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی اتحاد سے علیحدہ ہو گئی تھی جبکہ حج سکینڈل کے معاملے پر وفاقی وزیر مذہبی امور حامد سعید کاظمی کی برطرفی کے ساتھ ہی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اعظم خان سواتی کی برطرفی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رازداری میں کئے گئے معاہدوں پر عملدرآمد نہ ہونا جمعیت علمائے اسلام کی علیحدگی کا سبب بنا۔ دوسرے اتحادیوں کی طرح پیپلز پارٹی ایم کیو ایم سے بھی وعدہ ایفا نہ کر سکی۔ جس کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ سندھ کے وزیر داخلہ کے بیانات، ٹارگٹ کلنگ اور پٹرول کی قیمتوں کو جواز بنا کر حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہو گئی۔جمعیت علمائے اسلام نے اپنے وزیر کی برطرفی کے بعد تین شرائط پر حکومتی اتحاد میں واپسی کا عندیہ دیا تھا لیکن بعد میں مولانا فضل الرحمن نے وزیراعظم کی تبدیلی کا مطالبہ کرکے سیاسی منظرہی تبدیل کر دیا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کو آئینی اور جمہوری طریقے سے گرانے کا بھی ایک ہی راستہ ہے کہ اسمبلی کے اندر اس پارٹی کی عددی اکثریت ختم کر دی جائے ۔ وفاقی وزراءکی برطرفی کے بعد حکومتی اتحاد میں پڑنے والا شگاف ابھی بھرا بھی نہیں تھا کہ نواز، الطاف ”تُوتڑاک“ کے باعث سیاست دان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے، گھٹیا الزامات لگانے اور گالم گلوچ پر اُتر آئے۔ یوں لگتا ہے کہ سیاسی مفاہمت، رواداری اور برداشت کا جنازہ اُٹھ گیا ہے۔ الزامات در الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلا ہے۔ حکومت انتہائی کمزور ہے مگر اس طرح کے حالات اسے طاقت ور بنا دیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نواز شریف کی طرف سے توپوں کا رُخ ایم کیو ایم کی طرف موڑنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف موجودہ سیاسی صورتحال میں کسی تبدیلی کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ن لیگ کے بغیر ق لیگ، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی مل جائیں تب بھی ایوان میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔
حکومتی اتحاد میں پڑنے والے شگاف سے جہاں اتحادی ایک ایک کرکے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں وہیں اس سال کو تبدیلی کا سال بھی قرار دیا جا رہا ۔ اس حوالے سے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں نے پیش گوئیاں شروع کر دی ہیں۔ آئندہ آنے والے الیکشن میں پیپلز پارٹی، نواز لیگ کے خلاف انتخابی اتحاد کے لئے ق لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی اور فنکشنل لیگ متفق نظر آتی ہیں۔ ن لیگ زین بگٹی کے حق میں بیان دے کر جہاں بلوچستان میں ووٹ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے وہیں طاقتور حلقوں کی جانب سے زرداری، گیلانی اختلافات کا فائدہ اُٹھانے کے لئے اِن ہاﺅس تبدیلی کا منصوبہ بھی صاف نظر آ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے وزیراعظم کی برطرفی کا مطالبہ بھی اسی کڑی کا حصہ لگتا ہے۔
اپنے تین سالہ دورمیں حکومت بے نظیر قتل کیس کے ملزموں کو سامنے نہ لا سکی ۔ اب ناہید خان اور صفدر عباسی کو گرفتار کرکے پیپلز پارٹی سندھ میں ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ آئندہ آنے والے الیکشن میں ق لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی طرف سے نواز لیگ کو پنجاب میں ہارڈ ٹائم دیئے جانے کا بھی امکان روشن ہے۔ قومی اسمبلی کے کل 342ارکان میں سے اس وقت حکومت کو 157ارکان کی حمایت رہ گئی ہے جبکہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 174ہو گئی ہے، جو حکومت سازی کے لئے کافی ہے لیکن اس وقت اپوزیشن میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ نواز نے ایک دوسرے کی طرف توپوں کا رُخ کرکے حالات مزید پیچیدہ بنا دیئے ہیں۔ اس وقت حتمی فیصلہ نواز لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ مسلم لیگ ن اعتماد کا ووٹ دے کر ڈوبتی حکومت کو سہارا دے سکتی ہے جبکہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے والی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بھی بنا سکتی ہے۔ اگرچہ سیاسی حالات کے بگڑتے سدھرتے دیر نہیں لگتی تاہم حالات جس نہج کی طرف جا رہے ہیں اس سے ممکنہ طور پر اِن ہاﺅس تبدیلی سے بڑھ کر سیاسی اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا امکان قوی تر نظر آتا ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved