اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔15-01-2011

بھارت میں مسجد النور کی شہادت
تحریر: نجیم شاہ

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی سیکولر اور جمہوری ہونے کا زعم ہے۔ سیکولر ریاست ایسی ریاست کو کہا جاتا ہے جہاں ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔ ایسی ریاست نہ کسی مذہب کے حق میں نہ مخالفت میں قدم اُٹھاتی ہے مگر اس کے برعکس بھارتی آئین میں کئی ایسی شقیں موجود ہیں جو سیکولرازم کے خلاف ہیں۔ سیکولر ازم کے بارے میں بھارتی دانشور جو کچھ کہتے ہیں اس سے سیکولرازم کا ایک خوبصورت اور دلکش تصور اُبھرتا ہے ۔ اس کا حقیقت سے دور دور تک بھی تعلق نہیں۔ عملاً بھارت سیکولرازم کی بجائے ایک انتہاپسند ہندو سٹیٹ ہے جہاں اقلیتوںکے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ شرما دینے کے مترادف ہے۔ اقلیتوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے ، املاک پر قبضہ اور خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔
بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انتہا پسند ہندوﺅں کے جبر کا نشانہ بھی زیادہ تر مسلمان ہی بنتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہندو مسلم فسادات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا، تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، حکومتی سرپرستی سے گجرات میں فسادات کروائے گئے ۔جہاں پانچ ہزار کے قریب مسلمانوں کو شہید کیا گیا جن میں ڈھائی ہزار کو نہ صرف زندہ جلایا گیا بلکہ ان کی املاک کو لوٹا اور جلایا بھی گیا۔ بھارت میں موجود مسلمانوں پر ایک پلاننگ کے تحت مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ہندو جنونی اور انتہا پسند تنظیمیں مساجد اور مزارات کو بلاجواز شہید کر دیتی ہیں۔ ان جنونیوں کو ریاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کے بعد مسلمانوں پر عرصہ حیات مزید تنگ کر دیا جاتا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا تازہ ترین واقعہ مسجد النور کی شہادت ہے۔ یہ مسجد مشرقی دہلی میں بستی نظام الدین کے قریب جنگ پورہ کے مقام پر واقع ہے ۔ مسجد النور پینتیس سال قبل دہلی وقف بورڈ کی اراضی پر تعمیر ہوئی تھی۔اس مسجد کی شہادت نے ایک بار پھر بابری مسجد کی یاد تازہ کر دی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بابری مسجد کو ہندو انتہا پسندوں نے زمین بوس کیا تھا جبکہ مسجد النور کو خود سرکاری اہلکاروں اور پولیس نے رات کی تاریکی میں بلڈوزر سے زمین بوس کر دیا ۔ جب دنیا سو رہی تھی تب رات کے اندھیرے میں یہ مسجد شہید کی جا رہی تھی۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر ناجائز قبضہ کرکے بنائی گئی تھی جبکہ دہلی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین نے یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسجد النور وقف بورڈ کی اراضی پر تعمیر ہوئی تھی اور اس اراضی کی تمام قانونی دستاویزات بھی موجود ہیں۔
مسجد النور کے انہدام کی کارروائی دہلی ہائیکورٹ کے ایک آرڈر کا سہارا لے کر کی گئی ہے۔اس مسجد کی شہادت اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مسجد کی شہادت کے واقعہ کے خلاف جیسے ہی مظلوم مسلمان کھڑے ہوئے اور صدائے احتجاج بلند کیا۔ ان پر لاٹھیاں چارج کی گئی، گولیاں چلائی گئیں، آنسو گیس کے گولے چھوڑے گئے اور بے گناہ مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا۔مسجد النور خسرہ نمبر 633پر واقع تھی جسے شہید کر دیا گیا جبکہ اس کے بالکل برابر خسرہ نمبر 634اور 635پر ایک مندر اور ایک گرجا گھر آج بھی جیسا کا تیسا موجود ہے حالانکہ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے ماضی میں مندر اور گرجا گھر کو بھی نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور متعصبانہ سلوک کی اس سے بدتر مثال کیا ہوگی کہ وقف اراضی پر تعمیر کی گئی مسجد شہید کر دی گئی۔ دہلی گزٹ کے مطابق شہید کی گئی مسجد کی جگہ کے قریب مسلم اور عیسائی قبرستان موجود ہیں جن پر ایک چرچ، ایک مسجد اور مندر تعمیر کیا گیا ہے لیکن تعصب کی حد ہے کہ صرف مسجد شہید کر دی گئی۔مذہبی امور کی کمیٹی سے توقع تھی کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو ایک ہی نظر سے دیکھے گی لیکن مسجد النور کے معاملے میں مذہبی امور کی کمیٹی نے مسجد کے انہدام اور مندر کے تحفظ کا فیصلے لے کر انتہائی درجے کے تعصب اور تنگ نظری کا ثبوت فراہم کیا۔
بھارت میں اندرا گاندھی کے دور میں ریلوے سٹیشنوں، بس سٹاپس، سینماﺅں، عوامی مقامات، سرکاری اراضی اور تعلیمی اداروں میں بغیر اجازت تعمیر ہونیوالی عبادت گاہوں کو بھارتی سپریم کورٹ نے گرانے کا حکم دیا تھا۔ اس کی زد میں سب سے زیادہ مندر آتے تھے لیکن موجودہ حکومت نے مندروں کے سوا مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہدف بنانا شروع کر دیا ہے۔ اقلیتوں کی عبادت گاہیں گرانا انسانیت سوز اقدام اور انسانی جذبات کو مجرو ح کرنے کے مترادف ہے۔ حکومتی پالیسی کے تحت تین ہزار سے زائد مساجد اور مزارات پر سرخ دائرہ لگا دیا گیا ہے۔ پانچ سو مساجد اور مزارات شہید کئے جانے کا سرکاری سطح پر ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ ان میں کچھ کو یہ کہہ کر گرایا جائے گا کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ ہیں جبکہ کچھ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کو مندروں کی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔
مسجد النور کی شہادت کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔1921ءکے ریونیو ریکارڈ کے مطابق یہ مسجد مسلمانوں کے قبرستان اور وقف اراضی پر تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کا خسرہ نمبر 633ہے جبکہ اسکے ساتھ مندر کا خسرہ نمبر634 اور برابر میں گھرجا گھر کا خسرہ نمبر 635ہے۔ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق یہ تینوں غیر قانونی ہیں جبکہ شہید صرف مسجد کو کیا گیا حالانکہ مسجد کے ساتھ مندر کو بھی دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے نوٹس بھیجا گیا تھا۔ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد پہلے مئی 2010ءمیں مسجد کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تب مسلمانوں کے بروقت احتجاج سے منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ پھر دسمبر 2010ءمیں اس مسجد کو منہدم کرنیکی کوشش کی گئی لیکن مخالفتوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو پایا۔ بالآخر 12جنوری 2011ءکو رات کی تاریکی میں مسجد النور کو شہید کیا گیا جب ساری دنیا سو رہی تھی۔
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد جرائم میں آر ایس ایس ، وی ایچ پی، بجرنگ دل، بی جے پی اور ان کی ذیلی تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ ان کو بھارتی حکومت اور خفیہ تنظیم ”را“ کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ یہی تنظیمیں مساجد اور مزارات کو شہید کرنے میں ہراول دستہ کا کام کرتی ہیں۔ مسجد نور کی شہادت کے بعد کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومت کا ظلم سامنے آ چکا ہے۔ بھارت میں مسلم تنظیموں اور علمائے کرام نے مسجد النور کی دوبارہ تعمیر تک احتجاج شروع کر رکھا ہے۔مسجد کی شہادت پر مسلمانوں نے نہ صرف جمعہ کو اپنا کاروبار بند رکھا بلکہ جمعتہ المبارک کی نماز بھی مسجد کی جگہ پڑھنے کا اعلان کیا ۔ انہدام کے بعد مسجد کے مقام پر دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پولیس کی ناجائز گھیرابندی ابھی تک جاری ہے۔ احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ حکومت کی خاموشی کے سبب مسلمانوں میں غم و غصہ بڑھا جا رہا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ مذہبی اعتبار سے بھی ناجائز یا قبضہ والی زمین پر نماز جائز نہیں ہوتی۔ مسجد کے انہدام کے بعد دہلی وقف بورڈ نے مسلمانوں کا دفاع کرتے ہوئے ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ اس پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے عدالت کو گمراہ کیا اور عدالت نے ہمیں پارٹی بنائے اور اطلاع دیئے بغیر مسجد کو منہدم کرنے کا فیصلہ دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب ظلم مسلمانوں پر ہی کیوں ہو رہا ہے؟ صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے جبکہ یہاں سکھ، ہندوسبھی اپنے ڈھنگ سے آزادانہ طور پر عبادت کرتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ مسلمانوں پر ایک ظلم یہ کہ ان کی مذہبی عبادت گاہ کو شہید کیا گیا جبکہ دوسری طرف کانگریس حکومت کی جانب سے افواہ پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسجد سرکاری زمین پر قبضہ کرکے بنائی گئی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس زمین پر مسجد تعمیر کی گئی تھی وہ زمین وقف بورڈ کی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی کی کانگریسی حکومت نے ایک سازش کے تحت مسجد کو شہید کروایا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی الگ الگ ریاستوں میں ہزاروں مسلمان آج بھی بے قصور قید ہیں۔ جس کی وجہ سے پہلے ہی مسلمانوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس، مالیگاﺅں اور دیگر مذہبی مقامات پر بم دھماکوں میں ملوث قصوروار مجرم گرفتار بھی ہو چکے ہیں اور انہوں نے اقبالِ جرم بھی کر لیا ہے لیکن چونکہ اُن کا تعلق انتہاپسند ہندو تنظیموں سے ہے اس لئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنماءاور سابق نائب وزیراعظم ایل کے ایڈوانی آج بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو سیکولر ملک بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان سیکولر نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ ملک ہے۔ قائداعظم ایک دیندار مسلمان تھے۔ انہوں نے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگوا کر فرمایا تھا کہ ”پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا اور اس کا دستور قرآن ہوگا۔“ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور خود اقلیتیں ان ممالک کی نسبت کہیں زیادہ محفوظ ہیں جو خود کو سیکولر قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوﺅں، سکھوں سمیت تمام اقلیتوں کو برابری کے حقوق حاصل ہیں جبکہ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم و ستم برقرار ہے اور آج بھی اقلیتوں کو دبایا جا رہا ہے۔نبی کریم نے اقلیتوں کو معاشرے میں وہی مقام عطا کیا جو معاشرے کے بنیادی شہریوں کو حاصل ہے۔ نبی آخر الزمان نے اقلیتوں کی جان، مال، عزت، آبرو، ناموس حتیٰ کہ ان کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو بھی مدینہ کے آئین کا حصہ بنایا۔ مدینہ کے بعد پاکستان دوسری نظریاتی مملکت ہے جہاں اقلیتوں کی اسی طرح حفاظت کی جا رہی ہے جیسی حضور اور بعد ازاں خلافت راشدہ کے ادوار میں کی جاتی تھی۔ سیکولرازم نافذ کرنے کی ضرورت تو بھارت میں ہے جہاں ہندو انتہا پسند تنظیمو ں نے اس کی جگہ لے لی ہے۔انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں جو بھارت میں اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کہ اقوام متحدہ میں مستقل رکن ہونے کے خواہشمند ملک بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال کتنی خراب ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved