اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔30-01-2011

کے ای ایس سی کے برطرف ملازمین کی جیت
تحریر: نجیم شاہ

دنیا کی سات ارب کے قریب آبادی میں پانچ ارب عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی محنت کش عرصہ سے استحصال کا شکار ہیں۔ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری اور مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث غربت بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ کئی ادوار میں بے شمار مزدور دشمن قوانین بنائے گا جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں مزدوروں کو بے روزگار کیا گیا۔ ان ظالمانہ قوانین کے بعد چھانٹیوں اور ڈاﺅن سائزنگ کا بے رحم عمل شروع ہوا جس کا مقصد نجکاری جیسے گھناﺅنے عمل کو سرمایہ داروں کیلئے زیادہ پرکشش بنانا تھا۔ انہی قوانین کی بدولت مختلف بنکوں، پبلک سیکٹرز کی شوگر ملز، سیمنٹ فیکٹریوں، پی آئی اے، ریلوے، کراچی اسٹیل مل، کراچی پورٹ ٹرسٹ سمیت درجنوں اداروں سے مزدوروں کی برطرفیاں عمل میں لائی گئیں۔
ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت عروج پر ہے کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انتظامیہ کی جانب نے ساڑھے چار ہزار محنت کشوں کو برطرف کرکے مزدور دشمنی کا ثبوت دیا گیا۔ سنہ دو ہزار پانچ میں اس ادارہ کی نجکاری کی گئی جس کے بعد یہ ایک پرائیویٹ ادارہ بن گیا ہے ۔ نجکاری کے بعد کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں حکومت کے صرف چھبیس فیصد حصص ہیں۔ کراچی کے تمام شہریوں تک بجلی پہنچانا کے ای ایس سی کی ذمہ داری ہے لیکن نجکاری کے بعد سے یہ ادارہ مسائل کا شکار ہی رہا۔ اس کی نجکاری کے بعد سے کراچی میں صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ لوڈ شیڈنگ کے دورانیئے میں روز بروز اضافہ اور کے ای ایس سی کی کارکردگی خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ انتظامیہ بجلی کی پیداوار میں اضافہ پر توجہ دینا تو درکنار پرانے نظام کو چلانے میں بھی دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی ۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے انتظامیہ نے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ایک بوجھ تصور کرتے ہوئے ملازمت سے سبکدوشی کے احکامات جاری کر دیئے۔
کے ای ایس سی انتظامیہ کے مطابق انہوں نے ملازمین کو رضاکارانہ علیحدگی اختیار کرنے پر معقول پیکیج دینے کا اعلان کیا تھا لیکن سکیم سے فائدہ نہ اُٹھانے والے ملازمین اگلے دن حسب معمول اپنی نوکریوں پر پہنچے تو دفاتر کے دروازوں پر کمپنی سے فارغ کئے جانے والے تقریباً ساڑھے چار ہزار ملازمین کی فہرست آویزاں تھی اور انہیں دفتر میں داخلے تک کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔کے ای ایس سی انتظامیہ کے اس فیصلہ کے خلاف برطرف ملازمین نے برطرفی کے دن سے ہی احتجاج شروع کر دیا اور بالآخر صرف چار دن کے بعد ہی اُن کی کوششیں رنگ لائیں اور حکومتی مذاکراتی ٹیم اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انتظامیہ کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد برطرف کئے گئے ساڑھے چار ہزار ملازمین کو بحال کر دیا گیا۔کے ای ایس سی کے سی ای او تابش گوہر برطرف ملازمین کو بحال نہ کرنے پر مصر تھے مگر سیاسی، سماجی اور محنت کش تنظیموں کے علاوہ کے ای ایس سی کی یونائیٹڈ ورکرز فرنٹ، پیپلز ورکر یونین اور برطرف ملازمین کی جدوجہد کے بعد بالآخر انہیں گھٹنے ٹیکنے پڑے۔کے ای ایس سی انتظامیہ کے مزدور دشمن اقدام کے بعد مختلف سیاسی، مذہبی اور مزدور تنظیموں کے رہنماﺅں نے ملازمین کی برطرفی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس اقدام کو ظالمانہ اور مزدوروں کا معاشی قتل اور تمام ملازمین کو فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انتظامیہ نے اپنی نااہلی اور کرپشن چھپانے اور استعداد کار بڑھانے کی بجائے غریب ملازمین کو ادارے سے نکال کر مزدور دشمنی کا ثبوت دیا ۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے دور میں سرمایہ داروں کے اس طرح کے ظالمانہ فیصلے عوام کو انقلاب پر مجبور کر دیتے ہیں۔یہ بھی ایک خوش آئند بات ہے کہ کے ای ایس سی ملازمین کی برطرفی کے معاملے پر سیاسی جماعتیں متفق نظر آئیں ورنہ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ماضی میں قومی اسمبلی میں برطرف مزدوروں کی بحالی کی قانون سازی کے لئے ووٹنگ کے دوران کئی جماعتوں نے نہ صرف اجلاس کا بائیکاٹ کیا تھا بلکہ ایک سیاسی پارٹی نے تو اسے ملکی خزانے پر بوجھ تک قرار دیا تھا۔ ایک ایسی معاشی کیفیت میں جبکہ غربت اور بے روزگاری دن بدن ایک خونی عفریت کی طرح انسانوں کی اکثریت کو نگلتی جا رہی ہے اور سماج میں بے چینی اور غم و غصہ بڑھتا ہی چلا جا رہے ہیں ایسے میں پہلے سے ملازمتیں کرنے والوں کو اور وہ بھی نچلے درجے کے ملازمین کو روزگار سے محروم کرنا معاشی قتل سے کم نہیں ۔ کے ای ایس سی کے ان چھوٹے ملازمین کے ساتھ ہونے والی زیادتی نے پورے ادارے اور پاکستان کی مزدور تحریک میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی نجکاری کے وقت کئی سیاسی پارٹیوں کا کردار انتہائی گھناﺅنا رہا اور آج جب کراچی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہے یہی سیاسی پارٹیاں مجرمانہ طور پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کے ای ایس سی کی بُری کارکردگی سے آج حکومتی وزراءبھی نالاں ہیں اورعوام کے بہتر مفاد میں کے ای ایس سی کی نجکاری ختم کرکے اسے حکومتی تحویل میں لینے کی سفارش بھی کر چکے ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ کے ای ایس سی کی نجکاری سے لیکر آج تک اس ادارے کی انتظامیہ نے کراچی کے شہریوں کو اندھیروں اور مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا اور یہی وجہ ہے کہ آج اس شہر کے دو کروڑ عوام بھی اس امر پر متفق ہیں کہ اس ادارے کو فوری طور پر دوبارہ سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ ایسے میں جب کے ای ایس سی کی انتظامیہ عوام کے مفادات اور حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارہ کی نجکاری منسوخ کرکے فوری طور پر حکومتی تحویل میں لیا جائے ۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved