اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔07-02-2011

ٹریفک کا نظام ، مسائل اور تجاویز
تحریر: نجیم شاہ
کسی بھی قوم کی تہذیب و تمدن کا اندازہ اس کے ٹریفک نظام پر ایک نظر ڈالنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ ٹریفک قوانین کا احترام مہذب قوموں کا شعار ہے۔ مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کیلئے نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں بلکہ عوامی شعور کی بیدار ی کیلئے مختلف ادارے بھی قائم ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی ترقی میں انسانی شعور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ٹرانسپورٹ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے۔ اگر کوئی فرد کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر رہا ہو تو اُسے پہلے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی منزل تک کب پہنچے گا ۔ اس کے برعکس پاکستان میں معاملہ اُلٹ ہے۔ آپ پبلک ٹرانسپورٹ میں اندرون شہر کسی لوکل روٹ پربھی سفر کر رہے ہوں تو ڈرائیور کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ مسافروں کا مقررہ وقت تک منزل پر پہنچنا تو دور کی بات بلکہ گھنٹوں ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ٹریفک قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملکی اور ٹریفک قوانین کی پاسداری کرتے ہیں جبکہ ہماری قوم میں قوانین پر عملدرآمد کی پاسداری کا مادہ نہیں ہے۔
پاکستان کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں اندرون اور بیرون شہر لاکھوں افراد پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ اندرون شہر مختلف روٹس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر انتہائی بدتمیز اور جاہل ہوتے ہیں ۔ نہ صرف سواریوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں بلکہ اپنی منزل سے روانہ ہونے کے بعد ہر سٹاپ پر سواریوں کی تلاش میں دیر تک گاڑی روکنا بھی اُن کا معمول ہے۔ اگر کوئی سواری نظر آئے تو مختلف کنڈیکٹروں کے درمیان کھینچا تانی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گاڑی میں مقررہ حد سے زیادہ سواریاں بھی بٹھائی جاتی ہیں۔ بغیر سٹاپ سواریاں اُتارنا اور چڑھانا بھی معمول بن چکا ہے۔ کرایہ لینے کا مرحلہ ہو یا منزل پر اُترنا، کنڈیکٹر اور ڈرائیور عموماً بدتمیزی کی حدیں پار کر دیتے ہیں۔ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون سننا اور سگریٹ نویشی کرنا بھی باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ ایک ٹیوٹا ہائی ایس میں ڈرائیور سمیت کُل چودہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ عموماً ڈرائیور اور کنڈیکٹر سمیت بیس افراد سوار ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات لالچ میں اس سے بھی زیادہ افراد سوار کر دیئے جاتے ہیں۔یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں قانون نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔
ملک میں ٹریفک نظام کے مسائل سے ہر خاص و عام پریشان ہے۔ ٹریفک کے نظام کا یہ حال ہے کہ بعض اوقات موٹر سائیکلیں وغیرہ فٹ پاتھوں پر چلتی نظر آتی ہیں جبکہ راہگیر سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس اہلکاروں کا کام ٹریفک کو سنبھالنا ہوتا ہے مگر اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار اپنی جگہ پر موجود نہیں ہوتے یا اگر موجود ہوتے بھی ہیں تو کسی اور مقصد کے لئے اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے رہتے ہیں۔ اس دوران اگر ٹریفک جام بھی ہو جائے تو انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔دن میں متعدد بار ٹریفک جام ہونے سے شہریوں ، صنعت کاروں، محنت کشوں اور راہ گیروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور حضرات قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکثر اوقات اشارے بھی توڑ دیتے ہیں ۔ آئے دن ہم ٹریفک حادثات اور ان سے ہونے والے نقصانات کی خبریں پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار اور حادثوں کے مشاہدات اس بات کے غماز ہیں کہ ٹریفک کے زیادہ تر حادثات حد سے زیادہ رفتار اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ٹریفک پولیس کی کارکردگی سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔
ٹریفک قوانین کی پابندی اور عوام میں ٹریفک سے متعلق شعور سے آگہی کیلئے اسلام آباد ماڈل ٹریفک پولیس بنائی گئی۔ اس پولیس نے مختصر سے عرصے میں مثالی کارکردگی دکھائی اور ایسے ایسے اقدامات کئے جن کی بدولت شہریوں کو بہترین سسٹم میسر آیا۔ اسلام آباد کی ماڈل ٹریفک پولیس قائم کرتے وقت یہ تاثر بھی دیا گیا تھا کہ یہ پولیس رول ماڈل ہوگی اور بہت جلد پورے ملک میں اس طرز کی پولیس موجود ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد کی ماڈل ٹریفک پولیس نے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جس سے یہ ادارہ پورے ملک کیلئے ایک مثال بن گیا ۔ ملک کی دوسری پولیس کی نسبت اسلام آباد ٹریفک پولیس کی کارکردگی کافی حد تک لائق تحسین رہی لیکن یہ بھی ٹریفک قوانین پر سو فیصدی عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی۔ ٹریفک پولیس کی طرف سے جڑواں شہروں میں مختلف روٹس پر چلنے والی ٹیوٹا ہائی ایس کی سکرین پر باقاعدہ ایک سٹکر چسپاں ہوتا ہے جس میں مالک کا نام، اُس کا ایڈریس اور گاڑی میں سواریوں کی گنجائش کے حوالے سے معلومات درج ہوتی ہیں۔ اس تشہیر کے باوجود ایک ٹیوٹا ہائی ایس میں کنڈیکٹر اور ڈرائیور سمیت نہ صرف بیس افراد سوار ہوتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اس سے زیادہ سواریاں بھی ٹھونس دی جاتی ہیں۔ اسکے علاوہ ڈرائیور حضرات اکثر ٹریفک پولیس کو دھوکہ دینے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں ٹریفک قوانین کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی ہے ۔ اس کے برعکس پاکستان میں ٹریفک مسائل انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ملک میں ٹریفک جام، غلط پارکنگ جیسے مسائل میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ لوگوں کی اکثریت میں ٹریفک قوانین کے شعور سے ناواقفیت ہے۔ عام لوگوں کو ٹریفک کے اُصول بتانے کیلئے ٹریفک پولیس ہوتی ہے مگر اسلام آباد کے سوا پاکستان کے اکثر شہروں میں ٹریفک پولیس اہلکار چوراہوں پر ٹی سٹال والوں کے پاس براجمان ہوتے ہیں۔ وہاں چائے کا دور چلتا ہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک بے ہنگم انداز میں چلتی رہتی ہے۔ اس وقت پاکستان کے تمام بڑے شہر گاڑیوں کی پھیلائی ہوئی کاربن سے آلودگی کا شکار ہیں۔ ایک طرف پاکستان کی آبادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف ٹریفک سے جو فضائی آلودگی جنم لیتی ہے وہ ہر انسان کے لئے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔
ٹریفک قوانین کی پابندی ہرشہری پرلازم ہے ۔قانون سب کیلئے برابر اور یکساں ہونا چاہئے۔ ہمیں قانون والے سے نہیں بلکہ قانون سے ڈرنا چاہئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف پورے ملک میں اسلام آباد طرز کی ٹریفک پولیس قائم کی جائے بلکہ ایک ایسا ادارہ بھی قائم ہو جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہو سکے۔ اس تربیتی ادارہ میں نہ صرف اُن میں ٹریفک قوانین سے متعلق شعور بیدار کیا جائے بلکہ اُنہیں مہذب اور بااخلاق بھی بنایا جائے۔ ادارہ سے تربیت کے بعد اُنہیں باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجراءکیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کو بھی پابند کیا جائے کہ اس سرٹیفکیٹ کے حامل افراد کو ہی کنڈیکٹر اور ڈرائیور رکھا جا سکتا ہے ،بصورت دیگر مالکان کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ اگرایک ڈرائیور تربیت یافتہ ہوگا تو یقینی بات ہے کہ نہ صرف ٹریفک کے مسائل ختم ہونگے بلکہ حادثوں میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی۔ اسی طرح جب ایک کنڈیکٹر تربیت یافتہ ہوگا تو پبلک ٹرانسپورٹ میں لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ ہو گاکیونکہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر دونوں تہذیب یافتہ اور بااخلاق ہونگے۔ اسکے علاوہ ٹریفک پولیس کی طرف سے پیدل چلنے والوں کےلئے بھی قوانین کی آگہی کیلئے باقاعدہ بیداری مہم شروع ہونی چاہئے۔
کسی بھی سماج کے امن وامان کا براہ راست تعلق نظم ونسق اورقانون کی پابندی وبالادستی سے ہوتاہے۔ دنیا کی تمام مہذب اقوام اورمعاشروں میں قواعدوضوابط‘ آئین‘ قانون اورنظم ونسق پرموثر طورپرعمل درآمد کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لائسنس یافتہ ڈرائیور وں اور کنڈیکٹروں کو تربیتی کورس کرائے جائیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سوار کرنے پر پابندی عائد کی جائے، حکومت کے مقرر کردہ کرائے نامے آویزاں کئے جائیں، اندرون شہر مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کو بس سٹاپ پر ایک منٹ سے زائد رُکنے کی اجازت نہ دی جائے، بس سٹاپ کے علاوہ مسافروں کو اُتارنے یا سوار کرنے کے قواعد پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے، مختلف روٹس پر چلنے والی گاڑیوں کے سٹاپس پر خفیہ کیمرے نصب کئے جائیں جن سے نہ صرف مشکوک افراد پر نظر رہے گی بلکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی ٹرانسپورٹ کے خلاف کارروائی میں بھی مددگار ثابت ہونگے،غیر ضروری پریشر ہارن یا ممنوعہ ایریا میں ہارن بجانے پر جرمانے کئے جائیں، ٹریفک قواعد سے متعلق عوام کی معلومات میں اضافہ کیلئے ذرائع ابلاغ کے جملہ وسیلوں خصوصاً ایف ایم ریڈیو کی نشریات کا استعمال کیا جائے، جن بڑے شہروں میں ٹریفک پولیس کے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن نہیں ہیں وہاں بھی ریڈیو اسٹیشن قائم کئے جائیں ، ڈرائیونگ لائسنس کے اجراءکا طریقہ کار آسان بنایا جائے اور مختلف مقامات پر لائسنس کے حصول کیلئے مراکز بنائے جائیں، ٹریفک رضاکار مہم کے ساتھ ساتھ ڈرائیونگ لائسنس ڈے منایا جائے، عوام اور ٹریفک پولیس کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اس لئے عوامی شکایات دور کرنے کیلئے نہ صرف ٹول فری نمبر مشتہر کیا جائے بلکہ ٹریفک پولیس ہیلپ لائن کا اجراءبھی کیا جائے جس کے ذریعے عوامی شکایات سنی اور حل کی جائیں، گدھا گاڑیوں، تانگوں، پیٹرانجن جیسی گاڑیوں کی بھرمار بھی ٹریفک رکاوٹ کا باعث بنتی ہے ایسی ٹریفک کو بھی نہ صرف قوانین پر عملدرآمد کا پابند کیا جائے بلکہ خلاف ورزی پر سزائیں بھی دی جائیں، فنی طور پراَن فٹ، ناقص، خستہ حال اور سست رفتار گاڑیوں کو سڑک پر آنے سے روکا جائے،ڈرائیور کا لائسنس یافتہ اور تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔ کمسن بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ جو بھی بچہ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتے پکڑا جائے اُسکے والدین سے رابطہ کرکے اُنہیں سخت تنبیہہ کی جائے ۔ اس کے علاوہ ٹریفک قوانین کو نصاب تعلیم کا حصہ بنایا جائے تاکہ خواندہ لوگوں کو اس بارے میں بنیادی معلومات ہوں۔ اگر ان تجاویز پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے تو نہ صرف ٹریفک کے مسائل میں کمی واقع ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان بھی ٹریفک کے معاملے میں مہذب معاشروں کی لسٹ میں شامل ہو سکتا ہے ۔ اس طرح ٹریفک حادثات میں بھی خاطرخواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ زندگی خدا کی عظیم نعمت ہے اپنی اور دوسروں کی زندگی کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved