اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔25-02-2011

کالا ڈھاکہ کا جہانگیرہ ڈاکو
تحریر: نجیم شاہ
ضلع مانسہرہ سے ملحقہ قبائلی علاقہ کالا ڈھاکہ جو صدیوں سے آزاد اور خود مختار چلا آ رہا تھااب باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ بن چکا ہے۔27جنوری 2011ءکہ صدر آصف علی زرداری نے ایک قانون پر دستخط کرکے کالا ڈھاکہ کو صوبہ خیبرپختونخواہ کا پچیسواں ضلع بنا دیا ہے۔ اس علاقے کو اب کالاڈھاکہ کی بجائے ”تورغر“ کے نام سے پکارا جائے گا جو ہزارہ ڈویژن کا حصہ ہوگا۔ صدیوں سے آزاد اور خود مختار اس علاقے کی اپنی روایات اور رسوم و رواج ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے جرائم پیشہ افراد قانون کے ڈر سے اس علاقے کا رُخ کرتے اور جب تک چاہتے یہاں رہتے تھے۔ اس دوران انہیں مقامی رسوم و رواج کا پابند ہونا پڑتا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس علاقے کا رُخ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ یہ ایک قبائلی علاقہ تھا ۔ یہاں کے عوام علاقائی رسم و رواج یا جرگوں کے فیصلوں کی پابندی کرتے تھے۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں جہانگیرہ ڈاکو کی شہرت عروج پر تھی۔ ہزارہ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں خوف و دہشت کی علامت، قتل اور اغواءجیسی وارداتوں میں مطلوب جہانگیرہ ڈاکو کا مسکن بھی کالا ڈھاکہ رہا۔ ایک وقت میں ان کی شہرت اس قدر تھی کہ بچپن میں ہم جہاں چڑیلوں کے قصے، درختوں پر جنوں کا بسیرا جیسی کہانیاں سنتے وہیںجہانگیرہ ڈاکو کے نام سے بھی ہمیں ڈرایا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم گھر سے باہر رات بسر نہیں کر سکتے تھے بلکہ باقاعدہ رات کو بھی ڈر لگا رہتا تھا۔ بچپن میں رات کے وقت جب ہم قصے کہانیاں سنتے سناتے اس دوران اگر جہانگیرہ ڈاکو کا کسی طور ذکر ہو جاتا تو سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رکھنے کو کافی ہوتی تھی۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے اکثر یہ سوچتے کہ جس جہانگیرہ ڈاکو کے نام سے ہمیں بچپن میں ڈرایا جاتا تھا وہ بھی قصے کہانیوں کی طرح ایک افسانوی کردار تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن 23فروری 2011ءکو سابق ضلع ناظم مانسہرہ سردار محمد یوسف اور سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ جہانگیرہ ڈاکوجیسے ہی ایڈیشنل سیشن جج مانسہرہ کی عدالت پہنچے میرے بچپن کی یادیں دوبارہ تازہ ہو گئیں ۔ بچپن میں جس نام سے ہمیں ڈرایا جاتا پھر جسے ہم قصے کہانیوں کی طرح افسانہ سمجھتے وہ حقیقت میں جہانگیرہ ڈاکو تھا ۔
جہانگیرہ ڈاکو کے بارے میں مشہور ہے کہ ماضی میں مختلف جرائم پیشہ افراد اُن کا نام استعمال کرکے وارداتیں کرتے رہے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ماضی میں جہانگیرہ ڈاکو کا نشانہ صرف امیر لوگ ہی بنے جبکہ غرباءکی وہ ہمیشہ مدد کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیرہ ڈاکو کے گروپ کو انصاف کا نام دیا گیا۔ پینتیس سال قبل جہانگیرہ نے جب جرائم کا آغاز کیا تھا کہا یہ جا رہا ہے کہ جب اُنہیں اپنے عزیزوں کے قتل پر انصاف نہ ملا تو اُنہوں نے بندوق اُٹھالی۔ جہانگیرہ گروپ غریبوں کی طرف سے شکایات ملنے پر ایکشن لیتا تھا اور ظالم شخص کو اغواءکرکے کالا ڈھاکہ لے جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ قتل اور تاوان جیسی وارداتوں میں بھی مطلوب رہا۔ عدالت میں پیشی کے وقت صحافیوں کے سامنے جہانگیرہ کا کہنا تھا کہ میں بے گناہ ہوں، کسی انسان کو قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور جرائم پیشہ افراد میرا نام استعمال کرکے وارداتیں کرتے ہیں۔ 86سالہ جہانگیرہ ڈاکو نے تین شادیاں کر رکھی تھیں جن سے25بیٹے بیٹیاں ہیں۔سابق ایم این اے سردار محمد یوسف اور دیگر سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ جلوس کی شکل میں جہانگیرہ ڈاکو نے عدالت میں درخواست ضمانت دے رکھی ہے۔ عدالت نے عبوری ضمانت منظور کرکے اٹھائیس فروری کو مختلف تھانوں سے ملزم کا ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
سوات میں جب شورش برپا ہوئی اور افواج پاکستان کو یہاں آپریشن کرنا پڑا۔ اس دوران انتہا پسندوں نے سوات سے بھاگ کر کالا ڈھاکہ میں پناہ ڈھونڈ لی تھی اور پھر یہاں سے ہزارہ اور دیگر علاقوں کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کالا ڈھاکہ کے قبائل ایک کڑے امتحان سے دوچار تھے اگر وہ انتہا پسندوں کا ساتھ دیتے تو پاکستان کے عتاب کا شکار ہوتے اور اگر اُن کی مخبری کرتے تو انتہا پسند انہیں گولیوں کا نشانہ بناتے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو کالا ڈھاکہ میں بھی سرچ آپریشن جاری رکھنا پڑا ۔ دہشت گردوں کی کمین گاہوں کے خاتمے کے لئے یہاں کے عوام نے پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیا۔ 2005ءمیں ہونے والے زلزلے، سرچ آپریشن اور پھر جولائی میں آنے والے سیلاب کے باعث یہاں کے مکین کالا ڈھاکہ کو قومی دھارے میں شامل کرنے پر مجبور ہوئے تاکہ کالا ڈھاکہ کا مستقبل روشن ہو سکے۔
اب کالا ڈھاکہ ”تورغر“ کے نام سے باقاعدہ ضلع بن چکا ہے۔ کالا ڈھاکہ جسے پشتومیں ”تورغر“ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں چونکہ پشتو بولنے والوں کی اکثریت ہے اسی مناسب سے اس کا نام تبدیل کرکے ”تورغر“ رکھا گیا ہے۔ ماضی میں حکومت کی طرف سے اس علاقے میں باقاعدہ ایجنٹ مقرر کئے جاتے رہے لیکن ان لوگوں کا رابطہ زیادہ تر قبائلی سرداروں تک ہی محدود رہا۔ اب چونکہ یہ علاقہ صوبائی انتظام میں شامل ہو چکا ہے یہاں تھانے، سکولز، ہسپتال، کچہریاں اور جدید دور کی دیگر سہولیات کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ ماضی میں جس طرح جرائم پیشہ افراد کالا ڈھاکہ کا رُخ کرتے رہے اب قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد اس علاقے میں بھی پاکستان کا قانون رائج ہوگا۔ وہ جرائم پیشہ افراد جو کالا ڈھاکہ میں پناہ حاصل کرتے رہے اب اُنہیں یہاں ایسی پناہ نہیں مل سکے گی۔ کالا ڈھاکہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ سکھوں کے دور میں بھی اس علاقے کو تسخیر نہ کیا جا سکا اور انگریزوں کو بھی یہاں لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ پاکستان نے قبائلیوں کے رواج کا ہمیشہ احترام کیا اور اس علاقے کی خصوصی حیثیت سے کبھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کی۔ یہی وجہ ہے کہ کالا ڈھاکہ جو ماضی میں ضلع مانسہرہ کی ایف آر میں شامل تھا 27جنوری سے باقاعدہ طور پر پاکستان میں شامل ہو چکا ہے۔
کالا ڈھاکہ میں جہانگیرہ ڈاکو کی خاص شہرت رہی۔ جہانگیرہ کے خلاف قتل کا پہلا باقاعدہ مقدمہ 1985ءمیں درج ہوا ۔ بچپن میں اُن کی شہرت اس قدر تھی کہ میری طرح کئی لوگوں کے دل میں اُنہیں دیکھنے کی خواہش رہی۔ ضلع مانسہرہ کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ضلعی ناظم اور اپنے وکیل کے ہمراہ اُن کی تصویر مقامی اخبارات میں شائع ہوئی۔ وہ ادھیڑ عمر میں بھی انتہائی ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ جہانگیرہ ڈاکو کی لمبی مونچھیں دیکھ کر بچپن کی یادیں زندہ ہو جاتی ہیں جب ہمیں ڈرانے کے ساتھ ساتھ اُن کا حلیہ بھی بتایا جاتا تھا۔ جہانگیرہ مجرم ہیں یا بے گناہ یہ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے البتہ ایک لمبے عرصے بعد قانون کا احترام کرتے ہوئے ضمانت کے لئے عدالت میں پیش ہونا اُن کا ایک درست فیصلہ ہے۔ اس سلسلے میں سابق ضلعی ناظم سردار محمد یوسف کا کردار بھی لائق تحسین ہے۔ جہانگیرہ ڈاکو جو اس وقت اُدھیڑ عمر کو پہنچ چکے ہیں وہ چاہتے تو مزید کچھ عرصہ روپوش رہ سکتے تھے لیکن اُنہوں نے عدالت کے روبرو پیش ہو نے سے قبل یقینا یہ سوچا ہوگا کہ ذلت اور ندامت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved