اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔20-03-2011

فوج کا تیرہواں کور کمانڈر ”پیر پگاڑا
تحریر: نجیم شاہ
خود کو جی ایچ کیو کا ”آدمی“ کہنے والے سید علی مردان شاہ المعروف پیرپگاڑا حُروں کے روحانی پیشوا ہیں۔ سندھ میں لاکھوں لوگ اُنہیں اپنا ”مذہبی پیشوا“ مانتے ہیں ۔ پیر پگاڑا کے مشاغل میں گھڑ سواری، شکار کرنا جبکہ دیگر مشاغل میں فوٹو گرافی بھی شامل ہے۔ مزاج اُن کا یہ ہے کہ ڈربی ریس کیلئے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور مصنوعی جنگل میں ہر قسم کے جانور پال کر اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں۔ سگار پینے کے معاملے میں تو اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ کہا جاتا ہے کہ ”تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے“ پیرصاحب اپنے دوستوں کو سگاروں کا تحفہ دیکر ”محبت بڑھاتے “ہیں۔ پیرصاحب پگاڑا بہت بڑی جاگیر کے مالک ہیں۔ کراچی میں اُن کا بہت بڑا محل ”کنگری ہاﺅس“ کے نام سے معروف ہے۔ وہ سیاست دان جو سیاسی معاملات میں کسی ”بریکنگ نیوز“ کے انتظار میں ہوتے ہیں اس کنگری ہاﺅس کا ”طواف“ کرتے رہتے ہیں۔ سکھر شہر میں دریائے سندھ پر بنے ”بیراج“ کو بائیں طرف کے پل سے عبور کریں تو ایک بہت بڑی نہر کے کنارے کنارے خوبصورت سڑک پیرجوگوٹھ کو جاتی ہے جو پیر صاحب آف پگاڑا کا آبائی علاقہ ہے۔ پیرجوگوٹھ میں پیرپگاڑا کے گھوڑوں کا بہت بڑا فارم موجود ہے۔ اسی علاقہ میں پیر صاحب کا بے شمار کمروں پر مشتمل ایک عالیشان محل بھی موجود ہے جس کی چھت پر لگا ڈش انٹینا یہ گواہی دیتا ہے کہ پاکستا ن میں سب سے پہلے وہ پیر صاحب آف پگاڑا کی چھت کی زینت بنا۔
سندھ سے انگریزوں کو نکالنے کی جدوجہد میں جن خاندانوں نے قربانیاں دیں اُن میں پیر صاحب پگاڑا کا خاندان سرفہرست ہے۔ سندھ کے علاقہ سانگھڑ کے ”مکھی جنگل“ سے انگریزوں کو نکالنے کیلئے ”حُر تحریک“ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس جدوجہد میں انگریزوں کے ہاتھوں پیر پگاڑا کے بزرگوں کا قتل ہوا ۔ اس دوران انگریزوں نے پیرپگاڑا اور اُن کے بھائی کو تعلیم کی غرض سے برطانیہ بھیج دیا ۔پیرپگاڑا نے تعلیم انگریز کے ہاں حاصل کی اور اپنا بچپن بھی برطانیہ میں ہی گزرا۔ جب جوان ہوئے تب سابق وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اُنہیں اس وعدے کے ساتھ واپس لے آئے کہ آپ کی ”پیری مریدی“ یونہی چلتی رہے۔ اس طرح 4فروری 1952ءکو پیر پگاڑا برطانیہ سے سندھ لوٹ کر اپنی خاندانی ”گدی“ پر براجمان ہو گئے۔ پیرجوگوٹھ میں لاکھوں مریدوں کے سامنے ان کی باقاعدہ دستاربندی کی گئی اور انہیں آئندہ کا”پیرسائیں“ منتخب کیا گیا۔
پیر صاحب آف پگاڑا جہاں مذہبی پیشوا کے طور پر مشہور ہیں وہیں ایک عشرے سے وہ سیاسی پیشگوئیاں بھی کر رہے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ پیر پگاڑا کی جی ایچ کیو سے پرانی راہ رسم ہے، وہ اپنی زبان نہیں بلکہ کسی اور کی زبان بولتے ہیں۔ اسی لئے سندھ میں لوگ انہیں فوج کا ”تیرہواں کور کمانڈر “مانتے ہیں جبکہ آزادی پرست سندھی ان کے کردار سے متنفر ہیں۔اُن کے نزدیک پیر صاحب نے کبھی بھی سندھی عوام کے حق کی بات نہیں کی ہمیشہ آمروں کا ساتھ دیا ہے۔ اپنی سیاسی پیشگوئیوں کے دوران پیر پگاڑا اپنے مخصوص ”ڈائیلاگ“ کے ذریعے محفل کو ”کشتہ زعفران“ بنا دیتے ہیں اور پھر اُن کے مُنہ سے نکلے ہوئے برجستہ جملوں کو اگلے روز اخبارات جلی سرخیوں سے شائع کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پیر پگاڑا جو بولتے ہیں وہ فوج کی سیاسی معاملات میں آئندہ کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیاستدان جو آئندہ کسی کردار کی تلاش میں ہوتے ہیں اس ”کنگری ہاﺅس“ کا طواف کرتے رہتے ہیں۔
پیر پگاڑا ہر چیز کو اپنے ایک مخصوص ”زاویہ“ سے دیکھتے ہیں لہٰذا ان کی پیشگوئیاں بھی اسی تناظر میں ہوتی ہیں۔ وہ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ وہ فوج کے ”خاص بندے“ ہیں۔ پیرپگاڑا کی نظر میں وہی سیاست دان ”فیل“ ہیں جو اُن کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے ۔ اس بات سے انکار نہیں کہ فوج کی حمایت کے بغیر اقتدار میں آنا جان جوکھوں کا کام ہے اس لئے ہمارے سیاستدان کسی ”بریکنگ نیوز“ کیلئے تیرہویں کور کمانڈر کے ”دربار“ میں حاضری دیتے رہتے ہیں۔ پیر پگاڑا بھی ایسے سیاستدانوں کی نبض سے آشنا ہو چکے ہیں اور ایسے ”شگوفے “چھوڑتے ہیں جو آگے چل کر میڈیا میں ایک بحث اختیار کر لیتے ہیں۔ جس طرح بیت اللہ سے واپسی پر ایک مسلمان خود کو تمام گناہوں سے پاک سمجھتا ہے بالکل اسی طرح ”کنگری ہاﺅس“ کا طواف کرنے کے بعد فوج کے حمایت یافتہ سیاستدان بھی خود کو ”پاک“ سمجھتے ہیں اور جو سیاست دان طواف نہ کرے وہ پیرپگاڑا کی نظر میں ”فیل“ ہے۔
سید علی مردان شاہ المعروف پیرپگاڑا کی کافی باتیں مجھے پسند ہیں۔ مثلاً اُن کی حسن ظرافت بڑی تیز ہے۔ جس تناظر میں وہ بات کرتے ہیں اس کی ”سیاسی اصطلاح“ کوئی کوئی سمجھتا ہے۔ان کی باتیں ذومعنی ہوتی ہیں اور ان سے ایک دو نہیں بلکہ کئی مطالب نکالے جا سکتے ہیں۔پیر صاحب آف پگاڑا ہمیشہ ”ڈنکے کی چوٹ“ پر بات کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ کوئی ”ہنستا“ ہے یا ”روتا“ پیر سائیں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ جس طرح کئی سیاست دانوں کے بیرون ملک اکاﺅنٹس موجود ہیں پیر پگاڑا کا غیر ممالک جانا تو دور کی بات ایک روپیہ بھی باہر کے بینکوں میں نہیں ہے۔ اُن کے منہ سے نکلے ہوئے ”شگوفے“ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔ ”خفیہ ہاتھوں“ کے اشاروں پر سیاسی اتحاد بنانے میں ہمیشہ مصروف رہتے ہیں البتہ جوڑ توڑ میں وہ اتنے ماہر نہیں جتنا اس کام میں نوابزادہ نصراللہ خان کو ”ملکہ“ حاصل تھا۔
پاکستان کے مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں ساری پیشگوئیاں، اندازے، خواب اور خواہشیںسولی پر لٹک رہی ہیں۔ اپنی سیاسی پیشگوئیوں کے ذریعے پیر صاحب آف پگاڑا کبھی خونی انقلاب کی نوید سناتے ہیں کبھی فوجی بوٹوں سے ڈراتے ہیں۔ ساری خرابیوں کا ذمہ دار فوج کو قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف خود اس کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں پیرصاحب آف پگاڑا کا کہنا ہے کہ ”جب مرغے انڈے دینا شروع کرینگے تو اُن کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔“ پیر صاحب کو یہ بھی پتہ نہیں کہ مرغے بھی کبھی انڈے دیتے ہیں؟ ویسے یہ کہاوت عام ہے کہ مرغا سال میں ایک بار انڈہ ضرور دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے پیر صاحب نے ”انڈہ“ دینے والے مرغے پال رکھے ہوں۔ 2007ءکے انتخابات کے حوالے سے پیر صاحب کی پیشگوئی تھی کہ ”ایم کیو ایم انتخابات سے پہلے ہی حکومت سے الگ ہو جائے گی جبکہ انتخابات بھی ہوتے نظر نہیں آتے۔“ انتخابات بھی ہو گئے اور ایم کیو ایم بھی آخر وقت تک اتحادی رہی۔ ان انتخابات کے بعد پیر صاحب آف پگاڑا نے وزارت عظمیٰ کیلئے مخدوم امین فہیم کی حمایت کا اعلان کیا۔ پیر صاحب کے مطابق اس عہدے کے لئے اُن سے زیادہ حقدار کوئی نہیں تھا کیونکہ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ ایک طرف مخدوم امین فہیم کی حمایت کی جبکہ دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی کو ”اپنا بندہ“ ظاہر کیا۔ وزارت عظمیٰ کی کرسی جب مخدوم امین فہیم کے ہاتھ نہ آئی تو پھر پیرصاحب کو کہنا پڑا کہ ”مخدوم امین فہیم کے ہاتھ پر اقتدار کی لکیر ہی نہیں ہے۔“ ایک طرف خود ہی کسی سیاست دان کو مستقبل کا وزیراعظم نامزد کر دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف فوج سے اپنی ”رشتہ داری“ کا فائدہ اُٹھا کر خود کوئی اعلیٰ منصب حاصل نہ کر سکے۔ یوں لگتا ہے کہ پیر سائیں کے ہاتھ میں بھی ”اقتدار کی لکیر“ نہیں ہے یا پھر وہ کسی مرغے کے”انڈہ “دینے کا انتظار کر رہے ہیں۔
پیر سائیں پاکستان کے مستقبل سے اس قدر پریشان ہیں کہ اس ملک کو دبئی بنانے کیلئے ایک سو ”مولویوں“ کا جنازہ پڑھا کر اجتماعی قبر میں دفن کرنا چاہتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پیر صاحب کونسے مولویوں کا جنازہ پڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر اس سے مراد مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماءہیں تو پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کہیں پیر صاحب اُنہیں اجتماعی قبر میں دفن کرکے مسلک کے نام پر لڑانے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟ پیر صاحب عمر کے آخری حصے میں ہیں اس لئے اُن کی خواہش کی تکمیل کیلئے علماءکو ”قربانی“ دے دینی چاہئے ۔”وہابیت“ کا سبق تو پیر پگاڑا نے بہت پہلے سے ہی ”رٹا “ ہوا ہے اور یقینا وہ دیوبند اور اہل حدیث مسلک کے علماءکا اجتماعی جنازہ پڑھانا چاہتے ہوں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر سندھ میں وہابیت پھیل گئی تو پھر اُن کے مریدوں کی ”ڈائریکٹ ڈائلنگ“ اللہ سے شروع ہو جائے گی۔ اس طرح پیر صاحب آف پگاڑا کی ”پیری“بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved