اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔22-03-2011

بکاﺅ مال
تحریر: نجیم شاہ

آخر حکومت کو سکون کا سانس میسر آ گیا۔ ریمنڈ ڈیوس عدالتی فیصلے کے بعد امریکا چلا گیا۔ جب گرفتار ہوا تھا اُس دن سے ہی مرکزی اور پنجاب حکومت کی نیتوں پر شک کیا جا رہا تھا۔ ایک طرف سفارتی استثنیٰ دلانے کی کوششیں ہو رہی تھیں جبکہ دوسری طرف اُسے جیل میں وی آئی پی پروٹوکول حاصل تھا۔ میڈیا اور عوامی دباﺅ کے ڈر سے تاثر دیا گیا کہ فیصلہ عدالت کریگی۔ پھر آزاد ملک کی آزاد عدلیہ کا ایک اور روشن فیصلہ سامنے آ گیا۔ دیت کی رقم ادا کرنے پر ریمنڈ ڈیوس کے تمام جرائم معاف کر دیئے گئے جن میں بے گناہ شہریوں کے قتل سمیت ملک کے خلاف جاسوسی کرنے، غیر قانونی اسلحہ رکھنے، ملک دشمن عناصر کو سہولیات فراہم کرنے، ممنوعہ علاقے میں داخلے جیسے الزامات شامل تھے۔ اِدھر جج نے ریمنڈ کو کلیئر قرار دیا اُدھر سارے دروازے کھلتے ہی چلے گئے۔ فوراً پولیس حراست ختم، عدالتی فیصلے سے ایک دن پہلے پہنچے ہوئے طیارے کی طرف روانگی اور پھر بغیر وقت ضائع کئے افغانستان کی طرف اُڑان۔ مجھے تو ایسا لگا کہ جیسے امریکا نے کسی جان ریمبو یا آرنلڈ کمانڈو کو بھیج دیا تھا جس نے ساری رکاوٹیں توڑ کر اپنے آدمی کو آزاد کروا لیا۔ ریمنڈ ڈیوس خود تو چلا گیا لیکن اپنے پیچھے کئی سوالات چھوڑ گیا۔
پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں یہ بات کسی امریکی عہدیدار نے تقریباً ایک دہائی قبل کہی تھی۔ ریمنڈ ڈیوس کو عین اس وقت رہا کیا گیا جب ساری قوم ورلڈ کپ میں مگن تھی۔ اس کیس سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے پنجاب میں سیاسی ڈرامہ چل رہا تھا۔ ایک طرف ریمنڈ کا جہاز افغانستان کا بارڈر کراس کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف امن جرگہ پر ڈرون حملہ کرکے تاثر دیا گیا کہ ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ اس ڈرون حملے کے بعد امریکا سے احتجاج کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہم محب وطن حکمران ہیں۔ ڈرون حملے تو عرصہ سے ہو رہے ہیں لیکن حکومت کو ریمنڈ کی رہائی کے بعد احتجاج یاد آ رہا ہے۔ رہائی سے قبل وزیراعظم بھی ملک سے باہر، نواز شریف بھی علاج کی غرض سے برطانیہ روانہ، شہباز شریف بھی لندن میں، مولانا فضل الرحمن ایسے موقعوں پر اکثر عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں، اسفند یارولی کو پٹھان مہاجر دشمنی پر بیانات دینے سے فرصت نہیں ملتی، الطاف حسین لندن سے موبائل تقریروں تک محدود ہوں تو پھر یہ تو ہونا ہی تھا۔ ریمنڈ ڈیوس امریکا کا بندہ تھا کوئی پاکستانی تھوڑا ہی تھا۔ یوسف رمزی، ایمل کانسی کو اپنے گھر میں بھی پناہ نہ مل سکی جبکہ اس رہائی سے ہماری مظلوم بہن کی قید میں ایک اور شکنجہ کَس دیا گیا۔ عافیہ نے کیا سوچا ہوگا جب اُسے پتہ چلا ہوگا کہ قاتل ریمنڈ ڈیوس رہا ہو چکا ہے اور میں بے گناہ قید زنداں سہہ رہی ہوں۔
جن معاشروں میں انسانی بنیادی حقوق کا کوئی احترام نہ کیا جائے، کسی کی عزت کو تحفظ حاصل نہ ہو، کسی کی آبرو کی کوئی ضمانت نہ ہو، جہاں پر ظلم ننگا ناچ رہا ہو اور ظالمانہ نظام کے کل پرزے انسانیت کی تذلیل کر رہے ہوں، جہاں قانون ساز قانون شکن بنے ہوں اور منصف بکاﺅ مال ہو، جہاں عدالتیں انصاف کا مذاق اُڑا رہی ہوں، جہاں میرٹ اور قابلیت جرم اور نالائقیاں باعث تفاخر ہوں ایسے معاشروں میں زندہ رہنا تو درکنار سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے ہم اپنے منصب سے بہت نیچے اُتر کر ”بکاﺅ مال “بن گئے ہیں۔ جو چاہے ہماری بولی لگا سکتا ہے۔ یہ سیاسی سطح پر بھی ہوتا ہے، شہرت و ناموری اور نیتاگیری کی سطح پر بھی ہوتا ہے اور اس بے تکلفی اور بے باکی کے ساتھ ہوتا ہے کہ جیسے ہماری قومی و ملی غیرت ہم سے چھین لی گئی ہو۔ ہر طرف بکاﺅ مال موجود ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، بھاﺅ تاﺅ ہو رہے ہیں، اقتدار و اختیار کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ کوئی بھی نظریاتی و جمہوری روایات کا علمبردار نہیں۔ کافی دنوں سے یہ سننے میں آ رہا تھا کہ مقتولین کے ورثاءکو لالچ کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ ”بکاﺅ مال“ بن جاﺅ ورنہ ریمنڈ ڈیوس نے تو ایک نہ ایک دن چھوٹ ہی جاتا ہے اس طرح آپ کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئیگا۔
یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کا قاتل تھا، اسکے قبضے سے دھماکہ خیز آلات برآمد ہو ئے، حساس نوعیت کے ملکی سلامتی کیلئے خطرہ جیسے دیگر آلات برآمد ہو چکے ہیں۔ جماعت الدعوة کے دفاتر، منصورہ اور دیگر مدارس و مذہبی جماعتوں کے اداروں کی تصاویر بھی خفیہ طور پر امریکا بھیج چکا ہے تو پھر اس کے بچ نکلنے کیلئے اتنی آسانیاں کیوں پیدا کی جا رہی تھیں؟ مقتولین کے ورثاءنے کہا تھا کہ ہم غیرت والے لوگ ہیں، ہم نہ تو بدلے ہیں ڈالر لینگے نہ امریکی ویزے بلکہ ہم صرف لاش کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس صورت میں دیت کے مسئلہ کا جواز باقی نہیں رہتا تھا۔ آخر ایک دم ہی ایسا فیصلہ سامنے آنا کہ مقتولین کے ورثاءنے دیت لیکر خون معاف کر دیا شکوک و شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ ابھی کوئی بھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتا کہ مقتولین کے ورثاءنے واقعی دیت لیکر معاملہ رفع دفع کیا یا پھر اُن پر کوئی دباﺅ تھا۔ صد افسوس یہ کہ ایک مرتبہ پھر ہم نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ ایک مرتبہ پھر ہماری گردنیں جھک گئیں۔ اتنے آرام سے ایک جاسوس ہمارے ملک سے حکومتی سرپرستی میں نکل گیا۔
ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر جس طرح پاکستان کی عزت کو نیلام کیا گیا بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر یہ تاثر پڑا ہے کہ پاکستانی ”بکاﺅ مال “ہیں اور ان کی ایک خاص قیمت ہے۔ امریکا جس طرح اس کیس میں پھنسا ہوا تھا اسے خطرہ تھا کہ کہیں ان کا سارا جاسوسی نیٹ ورک ہی منظرعام پر نہ آ جائے۔ ریمنڈ ڈیوس نے جانا ہی تھا وہ چلا گیا۔۔۔اب صرف چیخا چلی ہو رہی ہے۔۔۔ میڈیا کو کچھ دن تک کیلئے ایک اور بریکنگ نیوز مل گئی۔۔۔ صحافیوں کو ایک آسائنمنٹ مل گئی۔۔۔ ٹاک شوز میں گرما گرمی کا موضوع مل گیا۔۔۔ جذبہ سے عاری نوجوان ٹی وی میں آنے کیلئے توڑ پھوڑ کرینگے۔۔۔ اسلامی تنظیمیں امریکی غلامی کا رونا روئیں گی۔۔۔ پھر سب کچھ بھول جائیں گے۔۔۔ وہ اپنے گھر خوش یہ اپنے گھر خوش۔۔۔ ٹائے ٹائے فش ۔۔۔ رات گئی بات گئی۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved