اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔31-03-2011

سیاست کے سلطان راہی
تحریر: نجیم شاہ

پنجابی فلموں کے نامور اداکار سلطان محمد المعروف سلطان راہی کو ہم سے بچھڑے پندرہ سال بیت گئے۔ 1956ءسے اپنے فلمی سفر کا آغاز کرنے والے سلطان راہی نے سات سو سے زائد فلموں میں کام کیا۔ویسے تو سلطان راہی کی کامیاب فلموں کی ایک طویل فہرست ہے لیکن فلم ”مولاجٹ“ اور ”بشیرا“ نے سلطان راہی کو خاص شہرت بخشی۔ ڈیڑھ سو سے زائد فلمی ایوارڈ حاصل کرنیوالے سلطان راہی 1996ءمیں پہلوانوں کے شہر گوجرانوالہ کے قریب فائرنگ سے قتل ہو گئے تھے۔ سلطان راہی پنجابی فلموں کا ایک ایسا نام ہے جو گینز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی مل جائیگا۔جس وقت سلطان راہی کا قتل ہوا اُس وقت بھی اُن کی پچاس سے زائد فلمیں زیر تکمیل تھیں جو ادھوری رہ گئیں۔
سلطان راہی کے قتل کے بعد اہل پنجاب بھی آہستہ آہستہ اُن کی یاد سے غافل ہوتے گئے۔ اُن کے بعد کوئی ایسا اداکار بھی پیدا نہ ہو سکا جو اُن جیسی ایکٹنگ کر سکتا البتہ ہمارے سیاست دانوں نے کئی مرتبہ زبردست ایکٹنگ کرکے اہلِ پنجاب کو سلطان راہی کی یاد دلائی ہے۔ ماضی میں ذوالفقار مرزا، شیخ رشید احمد اور بابر اعوان اپنی ایکٹنگ کے ذریعے سلطان راہی کی یاد دلاتے رہے ہیں جبکہ اب الطاف حسین بھی میدان میں کود پڑے ہیں۔ اُنہوں نے کئی مرتبہ سلطان راہی کی طرح زبردست ایکٹنگ کرکے جس شان سے جاگیرداروں کو للکارا ہے اس سے سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ اداکار بھی حیران رہ گئے۔ الطاف حسین کی للکار سے یوں لگا جیسے سلطان راہی میں ایک بار پھر روح پھونک آئی ہو۔
ایک طرف ہمارے کئی سیاست دان سلطان راہی اور مصطفی قریشی جیسی ایکٹنگ پر فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ اگر یہی ایکٹنگ مخالف پارٹی سے کوئی کرے تو اُسے یہ کہہ کر خاموش کرایا جاتا ہے کہ سلطان راہی جیسی بڑھکیں نہ ماریں۔ ماضی میں سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا سلطان راہی کے انداز میں ایم کیو ایم کو تڑیاں لگا چکے ہیں جس کے جواب میں ایم کیو ایم نے اُن کی تڑیوں کو سلطان راہی کی بڑھکوں سے تعبیر کیا۔ سیاست دانوں کو شاید معلوم نہیں کہ سلطان راہی ذاتی زندگی میں انتہائی نیک اور شریف انسان تھے اور لوگ آج بھی اُنہیں اچھے الفاظ کے ساتھ ہی یاد کرتے ہیں جبکہ مصطفی قریشی کے کردار سے بھی اِک جہاں آشنا ہے۔ سیاست دانوں کی اپنی بڑھکوں کو ایسی شخصیات کے ساتھ ملانازیادتی کی بات ہے۔
ایم کیو ایم آہستہ آہستہ پنجاب میں داخل ہورہی ہے اور یہ ایک اچھا شگون ہے کیونکہ قومی جماعت کہلانے والی کسی بھی جماعت کو ایک علاقہ تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔ ایم کیو ایم جب مہاجر قومی موومنٹ تھی اور صرف کراچی، حیدر تک محدود تھی تو اعتراض تھا کہ یہ ایک لسانی یا علاقائی جماعت ہے۔ اب جب یہ متحدہ قومی موومنٹ بنی ہے اور پورے ملک میں سیاست کرنا چاہتی ہے تو اب بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی سندھ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں ہونی چاہئیں بلکہ سبھی سیاسی جماعتوں کو عوامی روابط کے یکساں حقوق ہی جمہوریت کی اصل اساس ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ ایم کیو ایم پنجاب میں آئے اور یہ اُن کا جمہوری اور آئینی حق بھی ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کا علاقائی یا لسانی جماعت کا تاثر بھی ختم ہو سکتا ہے اور ہو سکتا ہے یہ پنجاب کی سیاست میں عوام کی اُمید بن کر اُبھرے۔
اب چونکہ یہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ کہلاتی ہے چناں چہ اسے قومی دھارے میں ضرور آنا چاہئے۔ اس کا آغاز سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہوا ہے۔ اس صوبے میں پہلے بھی الطاف حسین اجتماعات سے ٹیلیفونک خطاب کر چکے ہیں جبکہ پنجاب کے تین بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں ایم کیو ایم عوامی اجتماعات بھی منعقد کر چکی ہے۔ ان اجتماعات میں عوام کی حاضری کتنی تھی اس کی کوئی اہمیت بھی نہیںالبتہ مجھے ایم کیو ایم سے ہمیشہ ایک اعتراض رہا ہے وہ یہ کہ اس جماعت کے جلسے جلوسوں میں کبھی پاکستان، قائداعظم اور پاکستانی پرچم نظر نہیں آتا۔ اگر ایم کیو ایم علاقائی سے قومی جماعت کہلوانا چاہتی ہے تو اسے اپنے طور طریقے بھی بدلنا پڑینگے اور پاکستان کی نظریاتی اساس کی ترجمانی کرنا ہوگی۔
ایم کیو ایم کی خواہش ہے کہ وہ مینارِ پاکستان میں جلسہ کرکے اہلِ پاکستان کو یہ پیغام دے کہ ہم پنجاب میں آ چکے ہیں اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کو اس جگہ جلسے کی اجازت نہیں مل سکی اور پنجاب حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں جماعتوں میں الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ قلندروں اور ملنگوں کے انقلاب کو روکا گیا تو پنجاب میں سلطان راہی جیسا کردار ادا کرینگے ۔ اس کے جواب میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ کہتے ہیں ایم کیو ایم سلطان راہی کے انجام کو بھی ذہن میں رکھے جب اُن کی لاش ایک دن سڑے کے کنارے بے یارومددگار ملی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک اداکار کیلئے ایسی زبان جو خود ”مرحوم“ ہے۔ اس سے ہمارے سیاست دانوں کی اخلاقی بدحالی ظاہر ہوتی ہے۔
ایم کیو ایم پنجاب میں داخل ہونے کے بعد یقینا اگلے مرحلے میں خیبر پختونخواہ کا رُخ کریگی۔ الطاف حسین پنجاب کنونشن کے موقع پر سلطان راہی کے انداز میں ایکٹنگ کرکے جاگیرداروں کو للکار چکے ہیں۔ صرف الطاف حسین ہی نہیں بلکہ ہمارے کئی دیگر سیاستدانوں میں بھی سلطان راہی بننے کے جراثیم کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بھی سُننے میں آ رہا ہے کہ الطاف حسین نے باقاعدہ پنجابی اور سرائیکی زبانیں بھی سیکھنا شروع کر دی ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد کو اگلے مرحلے میں نہ صرف پشتو زبان پر دسترس ہونی چاہئے بلکہ پشتو فلموں کے سلطان راہی ”بدرمنیر“ کی ایکٹنگ بھی ابھی سے شروع کر دیں۔ ہمارے بہت سارے سیاست دان سلطان راہی بننے کے چکروں میں ہیں لیکن ابھی تک کوئی ”انجمن“ میدان میں نہیں آئی۔ جس طرح پنجابی فلموں میں سلطان راہی کی انجمن کے ساتھ جوڑی ہٹ رہی یہی مقام پشتومیں بدرمنیر اور مسرت شاہین کو حاصل ہے۔اب جب ہمارے سیاست دانوں نے سلطان راہی کی ایکٹنگ شروع کر ہی دی ہے کسی انجمن اور مسرت شاہین کو بھی میدان میں آ جانا چاہئے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved