اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت21-01-2009

 آخر کب تک ہم مرتے رہیں گے؟

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

اجکل مغربی دنیا میں یمن دہشت گردی اور القاعدہ کا ایشو ہاٹ لائن بنا ہوا ہے ۔عسکری و جغرافیائی امور پر اتھارٹی سمجھے جانیوالے دانشوروں و تجزیہ نگار تو یہ کہتے ہیں کہ یمن کے اوپر جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ عراق و افغانستان کے بعد یمن کو تیسرے محاز جنگ کے لئے منتخب کرچکا ہے۔امریکی ایک پس ماندہ و اجڑے ہوئے مگر تیل کی دولت سے سرفرازعرب ملک پر کیوں حملہ کرنا چاہتا ہے اور وہ کون سے اسباب ہیں جو امریکہ کو یمن پر شب خون مارنے کے لئے اکساتے ہیں۔ےمن سعودی عرب کا ہمسایہ ہے اور دونوں کی سرحدیں متصل ہیں۔عرب ممالک اور سعودی عرب کا تیل یمن سے گزر کر مغرب تک پہنچتا ہے کیونکہ یہاں دنیا کی اہم ترین عالمی گزرگاہ واقع ہے۔ یمن میں عدن کی بندرگاہ عالمی تجارتی نقطہ نظر سے دنیا میں وقار رکھتی ہے۔بحیرہ عرب یمن کے جنوب میں واقع ہے ۔صومالیہ بحیرہ ارب کے ساتھ موجود ہے جہاں سمندروں کی تہہ میں سیال سونے کے وسیع العریض خزانے موجود ہیں۔سوڈان بھی اٍسی خطے میں واقع ہے جہاں قدرتی وسائل کے ہوشربا سمندر بہہ رہے ہیں۔یمن کے روس اور چین کے ساتھ کئی دفاعی اور تجارتی روابط قائم ہیں۔ عالمی صہیونی مالیاتی وار لارڈز نے خطے کے تیل پر نظریں جما رکھی ہیں۔ائل لابی سی ائی اے اور موساد اپنے تراشیدہ مشرق وسطی پلان کی کامیابی کے لئے ابتدا میںیمن کو زیرنگین کرنے کا مکروہ منصوبہ بنا چکی ہے۔یمن پر شب خون مارنے کے لئے مغرب کو نائن الیون ایسے فریب کی اشد ضرورت تھی جو وہاں القاعدہ کی نئی پناہ گاہوں کی شکل میں سامنے اچکی ہے۔صہیونی میڈیا میں نصب جھوٹ کی مشینوں نے یمن کو عراق و افغانستان سے زیادہ خطرناک ملک کا واویلہ کررکھا ہے۔ مغربی و یہودی ایجنسیوں نے حال ہی میں شکار ہونے والے نائجیریا کے عمر فاروق المطلب سے یہ بیان منسوب کرڈالا کہ اس نے دہشت گردی کی تربیت یمن میں حاصل کی تاکہ امریکہ کو پیشگی حملے کا جواز مل سکے۔ امریکہ دسمبر2009 میں یمن پر کروز میزائل داغ کر دو سو یمنی باشندوں کا لہو بہا چکا ہے۔امریکی کروز حملے میں جب یمنی اگ و خون کے دوزخ میں جل رہے تھے تو عین اسی روز نوبل امن کمیٹی نے اوبامہ کو نوبل پرائز سے نواز جارہا تھا۔واہ انصاف واہ۔نیویارک ٹائمز نے پچھلے سال اپنے ادارئیے میں لکھا تھا کہ مستقبل میں وہی قوت عالمی سربراہی کا بیڑہ اٹھائے گی جو انرجی کے نہ ختم ہونے والے وسائل کا مالک ہوگا۔یوں امریکہ روس اور چین کے مابین افریقہ سے لیکر خلیج تک اور عراق سے لیکر وسطی ایشیا تک تیل و گیس والے علاقوں پر دسترس کا مقابلہ شروع ہوچکا ہے۔یمن کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات امریکہ کو زچ کئے ہوئے ہیں۔یمن کے صدر نے پچھلے برس چین کا دورہ کیا جہاں چینی صدر ہوجن تاو نے انکی بڑی او بھگت کی۔یمن اور چین کے درمیان یمن کی ائل انڈسٹری سے متعلقہ تنصیبات کی سیکیورٹی عالمی گزر گاہ کا تحفظ اور چینی اشیا کی تجارت کے لئے کئی معاہدے ہوئے۔مشرقی یمن سے تیل کے نئے کنووں کی کھدائی و تلاش کے لئے چائنا کی سب سے بڑی ائل کمپنی سنوپیک اور یمن کے درمیان72 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اغاز کئی سال پہلے سے ہی جاری ہے۔ یمن روزانہ چار لاکھ بیرل تیل پیدا کررہا ہے۔تیل کی پیداوار میں اضافے کے لئے چین کی مدد سے پرانے کنووں کی مرمت اور مائع گیس کی چین کو فروخت کا ایگریمنٹ بھی فائنل ہوچکا ہے۔چین یمن میں120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سیمنٹ کے شعبے میں کررہا ہے۔چین کے علاوہ یمنی صدر نے پچھلے سال ماسکو کا دورہ کیا تھا جہاں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور دفاعی سودوں کے ایگریمنٹ ہوئے۔یمن پوسٹ کی خبر کے مطابق یمن نے روس سے ایک بلین ڈالر کا دفاعی سازو سامان خریدنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں مگ طیارے ٹینک توپیں اور موصلات کا جدید سائنسی سامان شامل ہے۔روس یمن میں سوویت یونین دور والا اثر رسوخ بڑھارہا ہے جسکے لئے ماسکو کی بڑی تیل لابیاں وہاں سرمایہ کاری پر امادہ ہوچکی ہیں۔روس یمن میں7 ملین ٹن گیس روزانہ پیدا کرنے والا پلانٹ نصب کررہا ہے۔اندازوں کی رو سے یمن میں17 ملین کیوبک فٹ گیس کے انبار موجود ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے روس اور چین یمن کے ساتھ معاہدات کرچکے ہیں۔یمن کی گیس کو روسی و چینی کمپنیاں مادے کی شکل دیں گی جو پائپ لائنوں کی بجائے بحری جہازوں کے زریعے دوسرے ملکوں میں لے جائیگی۔امریکہ اور صہیونی ائل لابی روس و چین کے یمن کے ساتھ درجنوں معاہدوں پر صدموں سے دوچار ہے۔اٍسی لئے مغربی میڈیا القاعدہ کے ڈیڈ ایشو کو دوبارہ زندہ کرچکا ہے۔اوبامہ نے پچھلے سال یمن پر داغے جانیوالے کروز میزائلوں کو القاعدہ کے کیمپوں پر حملے سے تعبیر کیا تھا حالانکہ کروز میزائل نے جس علاقے میں موت کی ہولی کھیلی وہ تو شیعہ قبائل کا گڑھ ہے۔القاعدہ و شیعوں کے افکار و نظریات میں گہرا تضاد ہے۔دونوں کا ایک ہونا ممکن ہی نہیں۔موساد اور سی ائی اے ملکر سعودی عرب و یمن کے سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل کو انگیخت دی تھی کہ وہ سعودی عرب داخل ہو کر فتنہ پھیلائیں کیونکہ صہیونی و انتہاپسند عیسائی سعودی عرب کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔اس پر طرہ یہ کہ ماضی میں یہود و ہنود نے سعودی عرب پر حملے کی ریشہ دوانیاں بھی ترتیب دیں۔نکسن دور میں سعودی عرب پر جارہیت کی مہم جوئی کا پلان بنایا گیا تھا جسکاپردہ برطانوی ایجنسیوں نے2003 میں فاش کردیا تھا۔1975 میں سنڈے ٹائمز نے پینٹاگون کا دوسرا گھناوئنا منصوبہ بے نقاب کردیا جو سعودی عرب کے خلاف امریکی عسکری مہم جوئی پر مبنی تھا۔روسی ایوان بالا کے سپیکر مینوروف نے سال قبل اپنے دورہ یمن میں کہا تھا کہ عدن کی بندرگاہ روسی بحریہ کے سنٹرل بیس کے لئے ائیڈیل ہے۔یمن سے گزرنے والے بحری راستوں پر صومالی قزاقوں نے لوٹ مار کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری رکھا کررکھا ہے جن سے چھٹکارے کے لئے یمن نے روس سے مدد طلب کی۔امریکہ برطانیہ اور اسرائیل خلیج کے تیل پر ہاتھ صاف کرنے اور گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے یمن کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں جبکہ مشرق وسطی کے نیو صہیونی پلان کے لئے صہیونی فسادی یک طرف پاکستان کو غیر مستحکم کررہے ہیں تو دوسری طرف سعودی عرب بھی انکی انکھ کا کانٹا بنا ہوا ہے۔ظلم تو یہ ہے کہ امریکی کے شیطانی کھیل میں اردن و مصر امریکہ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔اگر امریکہ یا اسرائیل یمن کو دبوچ لیتے ہیں تو پھر پورے عرب خطے پر صہیونیوں کے راج کا امکان خارج از امکان نہیں۔امت مسلمہ پہلے ہی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے۔اوائی سی اور عرب لیگ ایسے بے جان گھوڑوں کو ہنگامی طور پر ایسے اقدامات کرنے ہونگے جو مغرب کو یمن و ایران کے خلاف فوجی کاروائی سے روک سکیں۔امہ کی ڈیڈھ ارب ابادی اور مسلم حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر کب تک مسلمان عراقیوں و افغانوں کی طرح امریکی میزائلوں کو خون کا خراج دیتے رہیں گے؟ آخر کب تک دہشت گردی کے نام پر امریکی ہماری زمینوں کو میدان جنگ میں بدلتے رہیں گے؟ اخر کب تک ہمیں صہیونیوں کی معاشی صنعتی دفاعی غلامی کی بیڑیاں پہننا پڑیں گے اور کب تک ہم امریکی جنگ کو اپنی جنگوں کا نام دیکر اپنی زمینوں کو اپنے بھائیوں کے خون سے شاداب بناتے رہیں گے؟ اخر کب تک اسرائیل کے خونخوار سفید گدھ معصوم فلسطینی بچوں کا گوشت نوچتے رہیں؟
 

 
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team