اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت27-01-2009

  ضیائی امریت اور مشرفی ڈکٹیٹرشپ کی پیروی

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

پاکستان جب سے امریکن جنگ میں فرنٹ لائنر اتحادی کے رشتہ ازواج میں منسلک ہوا ہے تب سے اج تک پاکستان کو معاشی سماجی معاشرتی میدانوں میں ناقابل تلافی صدمات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔پاکستان ایسے گنجان اباد اور پسماندہ ملک کو ایک طرف35 ارب ڈالر کا نقصان سہنا پڑا ہے تو دوسری طرف اغیار کی لڑائی کے جوف جہنم میں ہزاروں فوجی اور معصوم شہری ایندھن کی طرح جل کر راکھ ہوگئے۔ایک طرف امریکی وحشت کے کتھارس میں خود کش حملہ اور ںبمباروں نے جیتے جاگتے ملک کو خونی جنگل میں بدل دیا تو دوسری طرف ہماری اخوت و وحدت پر بھی جنگ کے منفی اثرات نے کاری ضربیں لگائیں۔ امریکی اور اقوام عالم کی امیر ترین قوموں کے دفاعی اتحاد نیٹو کو افغانستان میں جان لیوا اور شکست خوردہ خلجان کا سامنا ہے انکی زلت بھری ہار اب نوشتہ دیوار بن چکی ہے جو اندھے کے ساون کو دکھائی دیتی ہے مگر جابر اقاووں کو کچھ نظر نہیں اتا۔ امریکہ جو کام مغرب کی تمام تر دفاعی طاقت کے ساتھ الحاق کرکے پچھلے نو سالوں میں نہیں کرسکا وہ پاک فورسز نے جنوبی وزیرستان میں صرف دو ماہ میں مکمل کر لیا جس سے پوری دنیا ورطہ حیرت میں ڈوب گئی۔ضیاالحق اور جنرل مشرف نے بالترتیب افغان جہاد اور طالبان حکومت کے خلاف امریکی جنگوں میں ساتھ دیکر بہت سنگین غلطی کی تھی۔دونوں نے زاتی حثیت میں اربوں کے مالی مفادات توحاصل کئے مگر سچ تو یہ ہے کہ دونوں جرنیلوں کے امریکہ کے ساتھ تعاون نے پاکستان کی جڑوں میں پانی بھردیا۔جرنیلوں کی امریکہ پروری نے پاکستانی معاشرت معیشت اور جمہوریت کو ہوشربا نقصانات سے دوچار کیا۔موجودہ ارباب بزرجمہر کو جنرل مشرف اور ضیائی ڈکٹیٹرشپ کی غلامانہ غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ امریکہ خطہ افغان میں پڑنے والی مار کا زمہ پاکستان کے سرتھوپتا ہے۔امریکیوں کی خواہش ہے کہ پاکستان انکی جیت میں کی رول ادا کرے اور اپریشن کے دائرہ کار کو شمالی وزیرستان تک بڑھادے۔افغان معاملات پر پاکستان کو نت نئی ڈکٹیشن دینے کے لئے امریکی اہلکار گاہے بگاہے پاکستان کی یاترا کرتے رہتے ہیں۔وہ اسلام اباد میں ایک طرف دہشت گردوں کے خلاف پاک فوجءکی کامیابیوں پر مبارکبادیں پیش کرتے ہیں مگر دوسری طرف وہ القاعدہ کے بھوت کو جو انکے اعصاب پر دہشت طاری کئے ہوئے ہے کے خلاف مذید معرکہ ارائیوں کا سندیسہ یا حکم دیتے ہیں۔ چند روز پہلے امریکن وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے پہلے بھارت اور پھر پاکستان کا دورہ کیا۔رابرٹ گیٹس کے ساتھ125 افراد کا لشکر بھی تھا جن میں امریکی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے سمگلرشامل تھے۔اخباری زرائع کے مطابق بھارت اور امریکہ کے درمیان62 بلین ڈالر کا دفاعی معاہدہ ہوا۔بھارتی جرنیل دیپک کپور نے پاکستان اور بھارت دونوں کو اپنا دشمن نمبر ون کہہ کر جنگی جنون کا اعادہ کیا۔تاہم وہ مارچ میں ریٹائر ہورہے ہیں یوں انکی سوچ پر فکر کے گھوڑے دوڑانا غلط ہوگا۔رابرٹ گیٹس نے بھارت میں انڈین سرکار کو رام کرنے کے لئے پاک مخالف بیانات کی بھرمار کرکے خوب داد سمیٹی۔ رابرٹ گیٹس کے بیانات کو پڑھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ امریکہ کی بجائے پڑوسی کے وزیردفاع ہیں۔ وہ بھارت میں بیس جنوری کو میڈیا میں کانفرنس کررہے تھے۔وہ گویا ہوئے کہ اگر بھارت میں بمبئی ایسا سانحہ رونما ہوا تو ہندوستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوسکتا ہے۔چند منٹو ں کے وقفے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ امریکہ پاک بھارت تعلقات کو خوشگوار بنانے پر امریکہ کو خوشی ہوگی۔ رابرٹ کا تیسرا جملہ تھا i think it clear that both sides prefere to deal with this bilateraly and others not be involved۔رابرٹ کی دورخی پالیسی کو کیا نام دیا جائے کہ وہ اپنے ہی بیان کی چند منٹوں کے بعد ہی نفی کررہے تھے۔دراصل افغانستان کی صورتحال نے امریکہ کو صدموں سے دوچار کردیا ہے وہ اپنی جان چھڑوانے کے چکر میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان مشرقی سرحدوں سے مذید فوج ہٹالے۔ رابرٹ نے طالبان کے سربراہ ملا عمر اور ساتھیوں کے حوالے سے کہا کہ وہ تعاون کریں۔کرزئی تو طالبان کو وزارتیں دینا چاہتے ہیں مگر ملاعمر دوٹوک لہجے میں کہہ چکے ہیں کہ تمام غیر ملکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں تو پھر بات ہوسکتی ہے۔طالبان نے سیکیورٹی زون میں صدارتی محل اور وزارتوں پر تابڑ توڑ حملے کرکے اپنی فوقیت برقرار رکھی۔ اوبامہ نے الیکشن میں مسئلہ کشمیر کا ایشو کھڑا کیا تھا تاہم انکی صدارت کا ہنی مون پریڈ ایک سال گزارچکا ہے مگر کشمیری معاملے پر امریکہ کو سانپ سونگھ چکا ہے۔اوبامہ بھی بش کی ظالمانہ و غیر منصفانہ پالیسیوں کی جی حضوری سے پیروی کررہے ہیں۔جہاں تک پاکستان اور بھارت کے موازنے کا مسئلہ ہے تو سقوط ڈھاکہ کی طرح امریکہ اپنا سارا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دے گا کیونکہ بھارت وائٹ ہاوس کا اہم ترین اتحادی ہے۔ امریکی بھارت کو چین کی سپرپاوری کی راہ میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔جنرل دیپک کپور کے اشتعال انگیز بیانات، کرکٹ سٹارز کی تذلیل، بمبئی حملوں کے ضمن میں پاکستان پر دباو ڈلوانا اور ڈالنا، پاکستانی دریاوں کا پانی روک لینا ،دہشت گردی کی حمایت اور سرحدوں پر فائرنگ کے تبادے ہمارے لئے مضطرب اور تشویش ناک ہیں۔رابرٹ گیٹس نے عجیب بات کہی ہے کہ پاک بھارت دیگر امور کی بجائے دہشت گردی پر فوکس کریں۔رابرٹ گیٹس نے بار بار القاعدہ کے خلاف ملٹری اپریشن کی استعداد بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا حالانکہ دہشتگردی اہستہ اہستہ تھم رہی ہے۔القاعدہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔پاک ارمی نے دہشت گردی کے عفریت کو روکنے کے لئے کافی محنت کی ہے جو قابل داد ہے۔رابرٹ گیٹس نے وہی گھسی پٹی باتیں کیں جو ہر امریکی کارندہ یہاں وارد ہوکر بولتا ہے۔ رابرٹ گیٹس نے پاکستان کو ڈرون ٹیکنالوجی دینے کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستانی سرکار کو ایک طرف بھارتی ارمی چیف کی جنگی دھمکی ، سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور بھارت کے ساتھ تمام متنازعہ امور پر صبر و تحمل سے نمٹانے چاہیں تو دوسری طرف ہمیں امریکہ کے نئے گیم پلان کی ساخت و پرداخت کو پرکھ کر ہنگامی پالیسی ترتیب دینی ہوگی۔دہشت گردی کے الزامات سے جان چھڑوانے کے لئے پاکستان کو افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانی چاہیے جیسا کہ بھارت نے ایل او سی پر تعمیر کررکھی ہے۔پاکستان میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں نے پوری قوم کے اعصاب شل کردئیے ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتیں امریکی نفرت کا رد عمل ہے۔صدر زرداری ،جمہوری حکومت کے قائدین اور پاک فوج کے سرخیل یکسو ہوکر فرنٹ لائن اتحادی کا رول ختم کردیں اور پاکستان کو امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون سے دست کش ہوجانا چاہیے۔اگر اج بھی حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر ہمیںarab and camel سٹوری ایسی صورتحال سے دوچار ہونا پڑے گا۔ارباب اختیار سے درخواست ہے کہ وہ ٹیگور کے اس جملے کی رو سے مشرفی اور ضیائی ادوار کی غلطیوں سے سبق حاصل کریں۔ٹیگور نے کہا تھا کہ غلطی کو غلطی سمجھ کر بھی اصلاح کی طرف مائل نہ ہونے والے دراصل بڑی غلطی کررہے ہوتے ہیں اور یہی غلطی بعض اوقات قوموں کی سلامتی کے منہ میں چھچھوندر کی طرح اٹک جاتے ہیں جو نہ تو اگلا جاتا ہے اور نہ نگلا جاتا ہے۔اوبامہ نے تیس ہزار فوجیوں کی منظوری دیکر اپنی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔اوبامہ ٹیگور کی وضع کردہ غلطی سے تائب ہوکر یا تو تاریخ میں امر ہوجائیں یا پھر اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹ کر ٹیگور کی نشان دہی والے انجام سے دوچار ہونے کے لئے تیار ہوجائیں۔
 

 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team