اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت18-02-2010

سرمایہ دارانہ نظام فساد کی جڑ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

تحریرروف عامر پپا بریار عنوان۔
امریکہ کے مالیاتی بحران نے مغرب کو پچھلے دو سالوں میں کئی ایسے جھٹکے دئیے کہ وہ معاشی انڈسٹری کو دوبارہ انقلابی بنیادوں پر استور نہ کرسکے ۔عالمی مالیاتی بحران سے نکلنے اور دگرگوں معیشت پیروں پر کھڑا کرنے کے لئے ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملک کبھی ورلڈ اکنامک فورم اور کبھی گروپ7 گروپ8 اورG.20 کے پلیٹ فارم پر کوششیں کرتے رہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں ڈیوس میں ایسے بحرانوں سے بچنے اور بنکاری و مالیاتی اداروں میں تبدیلوں پر غور و خوض کے لئے ورلڈ اکنامک فورم کا 5 روزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں دنیا بھر کے نامور صنعتی گروپوں کے سربراہوں، سیاست دانوں مشہور عالم بنکوں کے صدور نے شرکت کی۔اجلاس کے ایجنڈے میں ایک قابل بحث ایشو تو یہ بھی تھا کہ کساد بازاری اور بیل آوٹ پیکج کے بوجھ تلے دبے ہوئے ملکوں کے معاشی حالات کس طرح بہتر کئے جاسکتے ہیں؟فرانس کے صدر نکولس سرکوزی نے فورم میں سرمایہ دارانہ نظام کو ہدف تنقید بنا ڈالا۔سرکوزی نے مطالبہ کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تبدیلیاں لائے بغیر کسی قسم کی اصلاح اور بہتری کی توقع کرنا چٹان پر پھول اگانے کے مترادف ہوگا۔ اقوام عالم کو درپیش معاشی گھمبیرتا میں غیر ملکی قرضوں کا بڑا ہاتھ ہے۔یورپ کی کئی ریاستوں مثال کے طور پر پرتگال، سپین اور یونان کو غیر ملکی قرضوں نے شدید مالیاتی خطرات نے گھیر رکھا ہے۔یونان400 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور اسی رقم نے یونان کی مستحکم معیشت کو لرزا کر رکھ دیا ۔ماہرین نے یونان کو اگاہ کردیا ہے کہ وہ دیوالیگی کی ریڈ لائن کراس کرنے والا ہے۔IMF کے سرتاجDOMANIC OSTRAS نے فورم کے شرکا کو بتایا کہ عالمی اقتصادی پوزیشن کچھ نہ کچھ بہتر ہوئی ہے مگر اسے اب بھی نازک صورتحال کا سامنا ہے۔عالمی اقتصادات کو قرضوں نے اپ سیٹ کردیا ہے۔ ائی ایم ایف کے گرو نے بتایاسرکاری قرضوں کی واپسی میں تاخیر مشکلات کا پہاڑ پیدا کر دے گی۔فورم میں چار دن بنکوں میں نئے قوانین وضح کرنے پر بحث کا بازار گرم ہوتا رہا۔سرکوزی نکولس نے اوبامہ کے بینکاری سسٹم میں تبدیلیوں کے پلان کی حمایت کی مگر فورم میں موجود بینکاری سے منسلک ماہرین اپنی موجودہ پالیسیوں کی حمایت میں غل غپاڑہ کرتے رہے۔ وہ زیادہ بونس اور مراعات کے ساتھ ساتھ زیربحث لائی گئی تبدیلیوں کی مخالفت کرتے رہے۔چوٹی کے دو بنکوں ڈائچے اور برکلے کے صدور نے تجویز د ی کہ عالمی انشورنس فنڈ قائم کیا جائے جو مستقبل میں دیوالیہ بن جانے والے بنکوں کے بیل اوٹ پیکج کےلئے رقم مہیا کرے گا تاکہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔چین اور بھارت نے اپنی شرح ترقی پر اظہار اطمینان کیا جو9 اور 7 فیصد سالانہ ہے۔فرانس کے فنانس منسٹر نے تجویز دی کہ تین اپشن پر غور کیا جائے جن میں ریکوری، عوامی قرضوں کی بحالی اور اصلاحات شامل ہیں۔حاظرین نے چین پر تنقید کے نشتر چلائے کہ بیچنگ منصوبہ بندی سے اپنی کرنسی یوان کو ڈالر کے مقابلے میں کمزور رکھتا ہے تاکہ عالمی مارکیٹ میں چینی مصنوعات دوسرے ملکوں کا مقابلہ کر سکیں۔چینی بنکار نے جوابی وار میں یقین دہانی کروائی کہ اگر سارے حاظرین بحران سے نکلنے کے کسی پروگرام پر اتفاق رائے کرلیں تو چین اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کے موضوع پر باے چیت کرنے کے لئے تیار ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ امریکہ دنیا میں سرمایاداریت کا نگہبان ہے جو اپنی440 ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مدد سے سرمایہ دارانہ نظام کی برتری کے لئے کوشاں ہے۔امریکہ ہمیشہ ترقی پزیر ملکوں پر دباو ڈالتا ہے کہ وہ اپنی منڈیوں کے دروازے ازاد معیشت اور امریکی کمپنیوں کے لئے کھول د یں۔یہی امریکہ اج خود اپنے بنکاری و مالیاتی نظاموں میں تبدیلی لانے کے لئے بیقرار ہے۔امریکی صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ وہ بنکوں کے ساتھ لڑائی کرنے تک تیار ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ بینکوں کے مالیاتی قوانین کی سرپرست لابی انہیں انڈر پریشر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔وہ کہتے ہیں اگر بینکنگ سسٹم میں تبدیلیاں لاکر سخت قوانین وضح نہ ہوئے تو بینک دوبارہ لوٹ مار میں جت جائیں گے۔اوبامہ نے واضح کیا کہ انکا پلان امریکی شہریوں کو مالیاتی تحفظ فراہم کرے گا۔عالمی مالیاتی افلاطون اوبامہ پلان کو دانشمند حکمت عملی کا نام دے رہے ہیں۔2008 میں انے والے معاشی بحران پر ماہرین کی اکثریت متفق ہے کہ لمبی و بڑی تنخواہوں اور مراعات اور غلط پالیسیوں نے مالیاتی جھٹکا دیا۔تنخواہیں اور مغلیہ طرز کے بونس کھاتے داروں کی رقم سے ادا کئے جاتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ مالیاتی ادارے دیوالیہ ہوکر بھی نقصان سے بچ جاتے ہیں کیونکہ ایک طرف انہوں نے اربوں ڈالر کا منافع حاصل کیا ہوتا ہے اور دوسری طرف حکومتیں بیل اوٹ پیکج کی مد میں نقصان کے برابر امداد مہیا کردیتی ہیں۔ورلڈ اکنامک فورم کا اجلاس حوصلہ افزا کامیابی کا زریعہ نہ بن سکا کیونکہ نہ تو بنکاری نظام اور نہ ہی مالیاتی اداروں میں کی جانے والی تبدیلیوں پر کوئی ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی گئی ۔یوں یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ اجلاس فلاپ ہوگیا۔یہ چائے پینے گپ شپ لگانے اور بڑھکوں کی ہاہاکار مچانے کا سرکس شو تھا۔ماہرین نے ناکامی کو طاقتور ممالک کی عدم دلچسپی سے تشبیہ دی۔کئی ممالک کے صدور نے عین موقع پر اپنا دورہ منسوخ کردیا۔روس چین برازیل اور بھارت نے بحران کے صدموں سے شفایابی حاصل کر لی ہے مگر امریکہ سمیت کئی یورپی ملک بحرانی کیفیت کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکے۔سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا میں مالیاتی بریک ڈاون ا، معاشی ناہمواریوں اور دہشت گردی کی روز افزوں کاروائیوں کا زمہ دار ہے۔ مکارٹن کنگ لوتھڑ نے کہا تھا کہ سرمایہ دارانہ بندوبست ہی فساد کی اصل جڑ ہے۔امریکہ نے صہیونی سرمایہ داروں کی شہہ پر نائن الیون کا ڈرامہ ترتیب دیا تاکہ کابل و بغداد پر قبضے کے لئے جنگی جواز تراشا جائے تاکہ ایک طرف عراق کے تیل پر ہاتھ صاف کیا جائے۔ تودوسری طرف سنٹرل ایشیا کے قدرتی زخائر تک رسائی کے لئے افغانستان کو تسلط میں لایا جائے۔امریکی مفکر نوم چومسکی نے عراق و افغان جنگ کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کا ڈرامہ کہا تھا۔اس نظام سے گھن اتی ہے کیونکہ اسکی لرزتی بنیادوں کو بیس لاکھ انسانوں کے خون اور گوشت سے سہارا دیا گیا۔امریکہ کی سرمایہ دار لابی جنگوں میں ایک تیر سے دوشکار کررہی ہے۔ایک طرف تیل و گیس کی ڈکیٹی کی جارہی ہے تو دوسری طرف صہیونیوں کی فیکٹریوں میں تیار کیا جانیوالہ جنگی سازوسامان دھڑا دھڑ فروخت ہورہا ہے۔مالیاتی شارٹ فال سے اقتصادی کومے میں پڑے ہوئے ملک چاہے ایشیائی ہوں یا یورپی وہ لاطینی امریکہ میں ہوں یا خطہ عرب میں وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پزیر ساروں کو سرمایہ دارانہ مالیاتی ڈکٹیٹرشپ سے جان چھڑوانے کے لئے کسی لائحہ عمل پر متفق ہونا چاہیے ورنہ امریکہ اور حواری سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لئے دنیا بھر میں جنگوں فسادوں اور فتنوں کا بازار سجائے رکھیں گے۔انسانیت مرتی رہے گی خون بہتا رہے گا اور صہیونی سورما کابل و بغداد کی طرح معصوم انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارتی رہے گی۔

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team