اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت26-02-2010

 ملابرادر کی گرفتاری اور طالبان کا مستقبل

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

ملا عمر کے نائب اور افغان طالبان کے اپریشنل انچارج ملا برادر کی کراچی سے ہونیوالی گرفتاری پر امریکہ میں جشن منایا جارہا ہے۔ماٹو کے ترجمان نے فوجی نقطہ نظر سے ملابرادر کی گرفتاری کو افغان جنگ اور ہلمند کے اپریشن مشترک کی کامیابی کے لئے اہم فیکٹر کا نام دیا جارہا ہے۔ملاعمر کی گرفتاری کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے کہ ہلمند کے محاز پر گرفتاری کے تناظر میں عسکری تجزیہ نگاروں نے رائے دی ہے کہ طالبان کا حوصلہ ٹوٹنے والا ہے اور اتحادی فوجیں عنقریب ملاعمر کو گرفتار کرلیں گی۔ملا برادر کی گرفتاری پر کئی اہم سوالات زہن کے صفحہ قرطاس پر ابھرتے ہیں۔کیا افغان طالبان پاکستان کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات کا شکار نہ ہونگے؟ کیا ہندوستان جو علاقے پر باز کی نظریں جمائے بیٹھا ہے صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے گا؟ کیا پاکستان مقامی طالبان کے علاوہ افغان طالبان کی دشمنی مول لینے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا امریکہ ہم پر شک کرنا بند کردے گا؟ کیا کسی افتاد میں امریکہ ہماری مدد کرے گا؟ ملاعمر برادر کی گرفتاری کو کئی دن صیغہ راز میں رکھا گیا تاکہ ہلمند کا محاز گرم ہو اور پھر ملابرادر کی گرفتاری کی خبر پھیلا کر امریکہ کو مدد فراہم کی جاسکے۔پاکستان پوری دلجمعی سے امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ملابرادر کی گرفتاری روز روشن مثال ہے۔یوں ارباب اختیار کو یہ نعرہ زیب نہیں دیتا کہ پاکستانی فوج اپنی جنگ لڑرہی ہے نہیں ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ جنگ امریکی مفادات کے تحفظ کی جنگ ہے۔ہم نے امریکہ کے تابع فرمان رہنے کا جو انداز اپنا رکھا ہے وہ کسی بھی صورت میں ہماری خود مختیاری اور سلامتی کا طرہ امتیاز نہیں۔ جہاں تک ملابرادر کی گرفتاری کو طالبان کی شکست سے موسوم کیا جارہا ہے یہ احمقانہ سوچ ہے۔لندن کانفرنس میں مغرب کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے شوشے چھوڑے گئے مگر لندن کانفرنس کے اعلامیے کی سیاہی ابھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ہلمند میں خونخوار اپریشن شروع کردیا گیا۔یوں یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی دراصل کابل سے نکلنے کی بجائے یہاں لمبے عرصے تک قابض رہنے کا دوسرا نام ہے۔پالیسی کی رو سے اتحادی ریشہ دوانیاں بن رہے ہیں کہ طالبان میں پھوٹ ڈالو او انہیں مختلف دھڑوں میں تقسیم کرو کہ وہ کمزور سے کمزور تر ہوجائیں اور بعد میں ان پر اخری وار کیا جائے۔ہلمند اپریشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اپریشن مشترک کے نام سے شروع کیا جانیوالے ہلمند اپریشن خون ریزی کا بہانہ ہے جو طالبان کا وجود ےو مٹانے کا ملکہ نہیں رکھتا تاہم سفاک غنیم اپنی مشق ستم سے بے گناہوں کا خون بہا کر خود کو سرخ رو کررہا ہے۔ہلمند طالبان فورسز کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جس میں اتحادیوں کے15 ہزار فوجی حصہ لے رہے ہیں30ہزار تازہ دم فوجی افغانستان پہنچ رہے ہیں جو فرعونی معرکوں میں حصہ لیں گے۔اتحادی افغانستان میں اپنی کل نفری کا نصف مشترک اپریشن میں جھونکنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔امریکی و افغانی جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔برطانوی انجینرز کا لشکر بھی ساتھ ہے جو طالبان کی طرف سے بچھائی جانیوالی بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کی مہم میں مبتلا ہیں۔تاہم یہ سطور قلم بند کرنے تک برطانوی کوشش از بسیار کےباوجود شہری علاقوں میں کوئی سرنگ تلاش نہ کرسکے۔افغان چیف اف ارمی سٹاف جنرل بسم اللہ نے تسلیم کیا ہے کہ طالبان امریکی فیکٹریوں کے تیار کردہ جدید بموں کے مقابلے میں جو گرنیڈ استعمال کرتے ہیں وہ کارکردگی میں امریکہ کے ہم پلہ ہیں۔طالبان کے پاس روئے ارض کے دو ہتھیار ایسے ہیں جنکا مقابلہ کرنا اتحادیوں کے لئے ممکن نہیں1 خود کش حملہ اور2۔افغانی شہری اور عورتیں۔اتحادیوں نے افغانی قوم کو 8 سال قبل جمہوریت امن و امان تعمیر و ترقی اور انسانی حقوق کے جو سبز باغ دکھائے تھے وہ اجڑ گئے۔امریکی وحشت کے خلاف افغان قوم سربکف ہوچکی اور وہ اسلحہ تھام کر ازادی کی جنگ میں کود چکے ہیں۔امریکی فتنہ گر وں نے اس قضیے سے نپٹنے کے لئے مقامی عمائدین کو ڈالروں میں تولنا شروع کردیا کہ جنگجو عنقریب پسپا ہونے والے ہیں وہ اپنی عاقبت سنوار لیں۔عام لوگوں کا جنگ میں کودنا اتحادیوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔اتحادی لشکر میں پائی جانیوالی تشویش کو افغان کمانڈر جنرل غوری یوں بیان کرتے ہیں جنگجو عورتوں و بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔افغان نیشنل ارمی کے افیسرز نے گھروں کی چھتوں پر دیکھا ہے کہ طالبان عورتوں کی قطار کے عقب سے فائرنگ کررہے تھے۔یعنی یہ کمال کی جنگ ہے عورتوں کو معلوم ہے کہ گورے پھلجھڑیاں چھوڑنے نہیں ائے بلکہ سات سمندر پار سے ائے ہوئے قصاب انہیں اپنی ہوس کی کند چھریوں سے مارنے ائے ہیں مگر وہ استقلال و استقامت سے طالبان کی حمایت پر کمر بستہ ہیں۔دنیا میں گوریلہ جنگوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں عورتیں بچے مرد جارح افواج کے خلاف سینہ تان کر ڈٹ جائیں وہاں کوئی سپرپاور ایسی قوموں کو شکست نہیں دے سکتی۔اتحادیوں کے مقابلے میں طالبان نے بھی نئی حکمت عملی مرتب کی ہے۔وہ جنوب کے ساتھ ساتھ مغرب اور شمال میں اپنا اثر رسوخ بڑھا رہے ہیں اور اب انہوں نے امریکیوں کے خلاف جنگ کا دائرہ کار وسیع کرلیا ہے۔ ملابرادر کی گرفتاری طالبان کے لئے دھچکہ ضرور ہے ۔تاہم ایک فرد کو فتح سے منسلک کرنا خوش فہمی ہے کیونکہ گوریلہ جنگوں میں ایک فرد اتنی اہمیت نہیں رکھتا کہ اسکی گرفتاری صد فیصد جیت کو شکست میں بدل دے۔اوبامہ اور پینٹاگون کے ڈریکولائیوں کو سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چوف کے مضمون دیکھو ہمیں جو دیدہ عبرت نگاہ ہو سے سبق حاصل کرتے ہوئے کابل کو خالی کردینا چاہیے ورنہ انجام سوویت یونین کی طرح الم نشرح ہے۔گورباچوف لکھتے ہیں ہم جو چاہتے تھے نتائج اسکے برعکس نکلے ایک ایسی جنگ ہمارے گلے پڑ گئی جس میں ایک طرف لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے تو دوسری جانب ہماری پالیسی ہمارے لئے وبال جان و مہلک بن گئی جس نے ہماری یونین کا شیرازہ بکھیر دیا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team