اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت02-03-2010

پاکستان کے ساتھ معاندانہ جوہری رویہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


ایٹمی ہتھیاروں کو امریکہ نے ہمیشہ مہلک گیم کے طور پر استعمال کیا۔ عراق پر حملہ مہلک گیم کا حصہ تھا جو ماس ڈسٹرکشن کی تلاش کے دو نمبری کام اور بہانے پر کیا گیا۔ اتحادی فوجیں کابل و بغداد میں اپنا ہولڈ قائم کرنے میں ناکام ہوئیں تو پھر ایران کو اگلے شکار کا نمبر دیا گیا گیا۔مغرب بلخصوص امریکہ اسرائیل اور بھارت نے پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف درج زیل ایشوز کو بنیاد بناکر ہمیشہ واہیات میڈیا وار شروع کی جو پچھلی تین دہائیوں سے جاری ہے جسکا اولین ہدف جوہری پروگرام کو روئے ارض کے امن و امان کے لئے سنگین خطرات کا سبب بناکر نیست و نابود کیا جاوے۔پراپگنڈہ بازی دو طرح سے کی جارہی ہے۔پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی سیکیورٹی اور ڈاکٹر قدیر خان نیٹ ورک ۔ کہا جاتا ہے کہ جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں جو مغرب کے خلاف استعمال ہونگے۔ واہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ جوہری ہتھیاروں کے خلاف شوشہ ارائی اس وقت تیز ہوئی جب سوات کے علاقے شانگلہ ہل پر مولانا فضل اللہ کے طالبانی غنڈوں نے قبضہ کرلیا۔امریکہ و مغرب میں صف ماتم بچھ گیا کہ شدت پسند سو کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔ چند گھنٹوں میں طالبان و ظالمان اسلام اباد پر سفید پرچم لہرانے والے ہیں۔ اسرائیل کو درپیش خود ساختہ خدشات کی غوغہ ارائی بھی ہوتی رہی۔سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت میں دہشت گرد جو بال ٹھاکرے کے دسترخوانی قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں یا انڈین شاہی مسجد کے پیروکار انکا تعلق اسام ٹائیگرز سے ہو یا مجاہدین کشمیر ی ہوں بھارتی نیوکلیر پلانٹس کے قریب ترین پناہ گزین نہ ہونگے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اگر عسکریت پسندوں نے بغاوت کررکھی ہے تو یاد رہے کہ بھارت کے ایک107 اضلاع ایسے ہیں جہاں علحیدگی پسندوں اور دہشت گردوں نے اودہم مچا رکھا ہے۔ جوہری دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے امریکی سینٹ نے5 جنوری2010 کو نیوکلیر فورسینک ایکٹ پاس کیا جو ایک طرف ہوم لینڈ سیکیورٹی کو مذید زود اثر بنائے گا اور دوسری طرف یہ جانچ کی جائیگی کہ جوہری مواد کے زرائع کہاں ہیں؟ کانگرس کیا چاہتی ہے اور اسکا نقطہ نظر کیا ہے؟ امریکی مفادات کے خلاف دہشت گردوں کا نیوکلیائی حملہ امریکہ کے اندر ہو یا باہر یہ ہر دو صورتوں میں امریکی سلامتی کے لئے زہر قاتل ہوگا اور جو گروپ و ملک یہ حملہ کرے گا وہ امریکہ کے لئے ارتکاز وجہ کا باعث ہوگا یعنی زمہ دار ملک کی سلامتی کے تار و پود کو راکھ کردیا جائے گا چونکہ جوہری تباہی کے مقام پرfournizic کا ملنا مشکل ہوگا ماسوائے تابکاری موادمگر تاہمadvanced nuclear fournizic ٹیک نکس کے زریعے یہ پتہ چلا نا ممکن ہوگا کہ یہ جوہری مواد کہاں سے اور کن راستوں کے زریعے ایا ؟اور پھر ان راستوں کوintercept کیا جائے گا۔ جوہری مواد کہاں سے ایا اسکا اندازہ تو فورنزک سے چلایا جانا ممکن ہے مگر ایٹمی مادوں کے استعمال سے پہلے جوہری مواد تک پہنچنا مشکل ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی تک ترقی پزیر ہے۔ تاہم ماہرین کی رائے ہے کہ اس قسم کی جوہری سمگلنگ کو استعمال سے پہلے پکڑا جاسکتا ہے۔ نیوکلیر فورنزک شعبہ ابھی تک یکتا نہیں ہوا کہ استعمال سے پہلے نشان دہی ہوسکے۔نیوکلیر مواد کی افزودگی اور سمگلنگ کی روک تھام کے لئے مستند و ہشاش بشاس صلاحیت کا ہونا لازم ہے۔نیوکلیائی حملوں کی رپورٹوں سے پہلے ایٹمی تنصیبات اور نیوکلیر مواد کی سیکیورٹی ناقابل عبور بنادیجائے تاکہ مواد کی چوری و نقل و حمل کو روکا جاسکے۔بھارت نے1997 میں دھماکے کئے تو جوابی وار کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی چوائس نہ تھی۔ پاکستان کے ان سمگلرز اور اداروں سے قریبی تعلقات ہیں جو بھارت اور اسرائیل کو بلیک مارکیٹ سے جوہری سازو سامان مہیا کرتے رہے ہیں ۔ بانی جوہری بم ڈاکٹر قدیر نے ان اداروں سے کبھی رابط نہیں کیا۔بھارت دو مرتبہ جوہری دھماکے کرچکا ہے۔scienctis bleeteen atomic کے نومبر اور دسمبر2009کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے پاس 70 سے زائد ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں۔اسرائیل نے گو کہ کوئی دھماکہ نہیں کیا تاہم مستند زرائع کے مطابق تل ابیب کے پاس 200 نیوکلیر ڈیوائسز موجود ہیں۔پاکستان نے بھارت کے جواب میں مساوی دھماکے کئے تاہم پاکستان بھارت سے زیادہ ایٹمی ڈیوائسز رکھتا ہے جنکی تعداد95 کے لگ بھگ ہے۔پاکستان بھارت اور اسرائیلnpt کے ممبر نہیں ہیں۔تینوں کی شمولیت کے بغیر این پی ٹی بانجھ پلیٹ فارم کے علاوہ کچھ نہیں۔اگرnpt نامکمل ہے تو تبbtb کی کیا ویلیو رہ جاتی ہے اگر پاک بھارت و اسرائیل اس کے ممبر نہ بنیں؟یہ امکان ہے کہ مئی2010 میں ہونے والی کانفرنس میں کوئی یک نکاتی ایجنڈا پورا نہیں ہوسکتا۔اگر این پی ٹی کی پوزیشن یہی رہی تو ctbt کانفرنس کا کیا حشر ہوگا؟پاک بھارت اور اسرائیل کو مساویانہ سلوک سے npt کاممبر بنایا جائے۔بھارت کو نیوکلیر فیول کی ضرورت ہے۔اسے انٹرنیشنل سپلائرز گروپ سے پرامن مقاصد کے لئے نیوکلیر فیول خریدنے کی اجازت یواین او کی سیکیورٹی کونسل کی قرار داد نمبر451 کے تحت دی گئی ہے تاہم بھارتIEAE کو یہ معلومات مہیا کرنے کا پابند ہو کہ وہ فیول اپنے کن کن ایٹمی کارخانوں میں استعمال کرے گا اور بھارت یہ بھی بتائے کہ اس کے کتنے اور کون کونسی جوہری تنصیبات IEAE کے دائرہ اختیار میں اتے ہیں اور کتنے IAEA کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔بھارت کے پاس قلیل یورینیم ہے جس سے وہ اپنی جوہری وین کو چلا رہا ہے۔عنقریب بھارت کے تمام پلانٹسIAEA کی زیر نگرانی اجائینگے۔ ویسے بھارت و اسرائیل امریکی شفقت سے ایک دوسرے کے ایٹمی بھائی بہن بن چکے ہیں۔ پاکستان دونوں کے درمیان مختلف حثیت رکھتا ہے۔پاکستان نے تینوں سویلین ریکٹرزKANUPP.CHASHNUPP 1 اورkanup chashnupp 2 کے معائنے کی اجازت دے دی ہے۔پاکستان نے اپنے سویلین نیوکلیر پروگرام اور نیوکلیر ویپن پروگرام کے درمیان حد فاضل کھینچ ر کھی ہے اور پاکستان نے ملٹری نیوکلیر پروگرام کوIEAE کی رینج سے باہر رکھا ہوا ہے۔پاکستان کے پاس بھار ت کے مقابلے میں یورینیم کی مقدار زیادہ ہے۔پاکستان کو عالمی سطح پر ایٹمی کلب کا رکن نہیں مانا جاتا۔ پاکستان کو جب تک انٹرنیشنل جوہری کلب کی رکنیت کا تاج نہیں پہنایا جاتا تب تک جوہری مواد کی نقل و حرکت کو ختم کرنا ناممکن ہوگا۔پاکستان نے چین سے 300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تینchashnupp ریکٹرز حاصل کئے ہیں جو2012تک فنگشنل ہوجائیں گے۔ پاکستان کے جوہری پلانٹس کی سیکیورٹی کا ایسا فول پروف انصرام و انتظام ہے کہ وہاں چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔پاکستان کو توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لئے بڑے ایٹمی ریکٹرز کی ضرورت ہے۔پاکستان نے رضاکارانہ طور پر جوہری تنصیبات کے دروازے توانائی کمیشن کے معائنے کے لئے کھول دئیے ہیں مگر اسکے باوجود اسے نیوکلیر میٹریل تک جائز رسائی کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟ پاکستان کو کیوں بلیک مارکیٹ کا راستہ دکھایا جارہا ہے؟nuclear forsenics امریکی بل جوہری مواد کی نقل و حرکت اور نشان دہی کے لئے ممدون ثابت ہوگا۔یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ مستقبل میں پاکستان کے خلاف یہ الزامات نہ لگیں کہ دہشت گرد جوہری مواد کی تلاش یا یورینیم افزودگی کے لئے سرزمین پاکستان استعمال کررہے ہیں اور پھر کیوں نہ شک دور کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ بھی وہی ڈیل کی جائے جو امریکہ نے بھارت کے ساتھ کررکھی ہے۔ تاہم پاکستان چونکہ مسلمان ملک ہے اسی لئے قرائن سے نظر اتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنا کر اسے نیوکلیر کولڈ سے دور رکھا جارہا ہے۔ بڑی طاقتوں نے ہزاروں کی تعداد میں وار ہیڈز بنارکھے ہیں جو کائنات کو تین مرتبہ اگ و خون میں مسمار کرسکتے ہیں اور یہی وہ ملک ہیں جو دنیا کو جوہری اسلحے سے پاک کرنے کی طومار باندھتے ہیں۔امریکہ اسرائیل و بھارت کی انکھوں میں پاکستان کا جوہری اثاثہ کھٹکتا ہے اور وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔امریکہ کو چاہیے کہ خطے میں قیام امن کے لئے پاکستان کو بھی جوہری پارٹنر شپ میں سانجھے دار بنائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر جنوبی ایشیا پر جوہری خطرات کے بادل ہمیشہ گرجتے رہیں گے۔پاکستان اور بھارت کی ایٹمی طاقتوں نے خطے کو جوہری تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔دونوں کے درمیان پچھلے دنوں مذاکرات کی میز سجی مگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ اسکا حالانکہ جب تک دونوں ملکوں کی قیادت اخلاص کے ساتھ ڈائیلاگ نہیں کرتی تب تک قیام امن کی خوشبو کا مہکنا ناممکن ہے۔ پاک بھارت پالیسی سازوں کو مذاکرات کے اگلے راونڈ سے پہلے اسٹیفن ار کوئی امریکن دانشورseven habits of highly effective people نامی کتاب کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ مذاکرات کی کامیابی یقینی بن سکے۔ وہ لکھتے ہیں کامیابی کے لئے زندگی کا تناظر ویژن اور مقصد قائم کرنا اظہرمن التمش ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں خوشحالی و ہریالی امن سکون شانتی سکھ چین اور غربت بھوک و ننگ کے خاتمے کے لئے خلوص و نیک نیتی کے ساتھ مثبت مذاکرات ہونا وقت کی ناگزیر ضرورت ہیں جس روز دونوں ملکوں نے خطے میں اسلحے کی ہائی سپیڈ دوڑ سے تائب ہونے کا بندوبست کرلیا اسی روز یہ خطہ دوبارہ سونے کی چڑیا بن جائے گا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team