اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت03-03-2010

 باضمیر یورپین کو بے ضمیروں کا سلیوٹ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

عا؛می استعماریت کے دیو استبداد نے نائن الیون کے فراڈ میں افغانستان پر شب خون مارنے کے لئے اتحادیوں کو خوش گمانیوں کے باغ دکھا کر اپنے ساتھ ملایا کہ افغانستان انکے لئے ترنولہ ثابت ہوگا اور نیٹو سالوں مہینوں کی بجائے دنوں میں مفتوح پر راج کرے گی کہ ایک طرف جنوبی ایشیا کو کنٹرول اور چائنا پر نظر رکھنے کے لئے بہترین جغرافیائی حثیت کی مالک دھرتی افغان انکے قدموں تلے ہوگی تو دوسری طرف مغرب کے لئے سنٹرل ایشیا کے عظیم الشان تیل و گیس کے زخیروں پر دروازے کھل جائیں گے مگر سچ تو یہ ہے کہ طالبان جسے ترنولہ سمجھا گیا تھا وہ اج بھی لوہے کا چنا اور بادشاہتوں کا قبرستان بن گئے جو امریکہ اور ناٹو کے گلے میں پھانس کی طرح اٹک چکے ہیں کہ نہ تو پیٹ کی طرف جانے کا نام لیتے ہیں اور نہ ہی اگلے جاتے ہیں۔ناٹو کے گورے فوجی افغان جنگ کی لاحاصل مشق میں ریوڑیوں کے بھاو جانیں ضائع کررہے ہیں تو دوسری طرف اہل مغرب نے امریکہ کے جنگی جنون میں حصہ دار بننے والے حکمرانوں کے پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ۔ چند روز پہلے ہالینڈ میں ہونے والے قومی الیکشن میں مخلوط حکومتی اتحاد جو سوشل ڈیموکریٹک ڈچ پارٹی ، کرسچن ڈیموکریٹ اور کرسچن یونین کے الائنس کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا۔۔عوام نے امریکی نفرت کے مدوجزر میں اتحاد کو ڈبودیا۔امریکن نیوز ایجنسیapk نے نامہ نگار ارتھر میکس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں سولہ گھنٹے ایک نقطے پر بحث ہوتی رہی کہ کیا ڈچ افواج کے لشکر کو کابل کی دلدل سے نکالا جانا چاہیے کہ نہیں؟بحث کی وجہ یہ تھی کہ ڈچ وزیراعظم جان پیٹر بالکینن ڈی اپنی قوم سے وعدہ کرچکے تھے کہ وہ جلد ہی افغان صوبے اورزگان میں موجود1500 فوجیوں کو اسی سال واپس بلالیں گے مگر امریکہ اور ناٹو کے سیکریٹری نے تمام ممبران ممالک سے اپیل کی کہ وہ نہ صرف افغانستان میں تازہ دم فوجی بجھوائیں بلکہ وہاںپہلے سے موجود فوجی لشکر کی تعداد بڑھائی جائے۔امریکی درخواست پر بحث ہی ڈچ حکومت کے خاتمے کی نوید بن گئی۔افغانستان میں اب تک دو درجن سے زائد ڈچ فوجی جنگ کی بھٹی میں راکھ ہوچکے۔ڈچ شہری فوج کی عقیدت کا ہمیشہ دم بھرتے ارہے ہیں۔یوں عوام نے فوجی دستے کی جلد از جلد واپسی کا مطالبہ کردیا۔ کابل میں فوجیوں سمیت ڈچ سویلین افراد کی کل تعداد2000 ہے۔حکومتی الائنس میں شاملsocial democrate ڈچ پارٹی نے ایک طرف امریکی حمایت سے انکار کردیا تو دوسری طرف وہ اتحاد سے علحیدہ ہوگئے۔یوں مخلوط الائنس کی اکثریت بکھر گئی جس سے اتحاد کی حاکمیت کا سورج غروب ہوگیا۔۔ لیبر پارٹی کا موقف ہے کہ افغانستان میں ڈچ فوجیوں کی موجودگی سے عوام کی نظروں میں انکا اعتبار و وقار ختم ہورہا ہے۔پچھلے الیکشن میں لیبر پارٹی کی امریکن نواز پالیسیوں اور افغان جنگ میں شمولیت سے پارٹی اپنے ہزاروںنظریاتی ووٹرز کی تائید سے محروم ہوگئی تھی۔لیبر پارٹی کے سربراہ واوٹر بوس جو مخلوط بندوبست میں نائب وزیراعظم کے عہدے پر موجود تھے نے کہا کہ افغانستان میں فوجی مداخلت ڈچ افواج کے لئے بوجھ ثابت ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دو سال قبل ہماری جماعت نے جنگ کی حمایت کا اعلان کیا تھا تو ہم نے قوم کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ایسا اخری بار ہورہا ہے۔ہم مستقبل میں کسی دوسرے کی جنگ میں پارٹنر کا کردار چھوڑ دیں گے۔اگر ہماری جماعت نے افغان جنگ کی حمایت کی تو عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچے گی۔یہ بات باعث حیرت ہے کہ ہالینڈ میں2008 میں اوبامہ شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔امریکی مفسر ہیرس گریلے نے کہا تھا شہرت مقبولیت اور دولت انسان کی دورخی پالیسی اور منفی اقدامات پل بھر میں کجلا دیتے ہیں۔بش کے جنگی دھنون کی پیروی نے اوبامہ کی مقبولیت و شہرت کو نفرت میں تبدیل کرڈالا۔ہالینڈ نے جرمنی کے برعکس افغانستان میں امریکی جنگ میں دو درجن سے زائد فوجیوں کو تاریخ کے قبرستان میں مدفون کیا۔یوں ڈچ شہری افغان جنگ کی بھرپور مخالفت کررہے ہیں۔امریکی اخبار وال سڑیٹ جنرل کے مضمون >افغانستان میں ناٹو کا مستقبل< میں لکھا ہے کہ پچھلے سال اوبامہ کو ہا85 فیصد عوامی چاہت حاصل تھی مگر اب ڈچ لوگوں کا سارا جوش و خروش ماند پڑ گیا ہے۔وہ ملک جو امریکہ کی عراق و افغان جنگ میں امریکی پالیسیوں کا سپورٹرز تھا وہاں کی پرو امریکہ حکومت خاک ہو چکی ہے۔نئی حکومت کی کارفرمائی الیکشن کے بعد ہی ہوگی تاہم وہ جماعت میدان مار لے گی جو کابل سے ڈچ دستے کی جلد از جلد واپسی کا عملی وعدہ کرے گی۔ہالینڈ کے اخبارNRCH ANDELSBLADE نے تازہ ترین سروے کی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق38 فیصد ڈچ شہری اوبامہ کی افغان پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔وال سٹریٹ جنرل کی چشم کشا رپورٹ میں رقم ہے کہ سوشلسٹ پارٹی کے مہاراج داونربوس کا شمار اوبامہ کے پرستاروں میں ہوتا ہے مگر یہی امریکی دیوانے کہتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسی معقول وجہ نظر نہیں اتی کہ اوبامہ کی حمایت جاری رکھی جائے اور ہالینڈ کے دوہزار فوجیوں کی افغانستان میں موجودگی کو برقرار رکھا جائے یعنی اوبامہ کوجن پتوں پر تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے۔افغانستان سے اس سال فوجیں واپس نہ بلانے کا اصرار کرکے لیبر پارٹی کی مخالفت لینے اور بعد ازاں اپنی حکومت کے سورج کو بجھا دینے والے وزیراعظم و کرسچن ڈیموکریٹ جان پیٹر نے ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ اگست میں انخلا شروع ہوجائے گا ۔جان پیٹر امریکن نواز سیاسی رہنما ہیں مگر اب شائد انکی دور اندیشی نے عوامی موڈ کو بھانپ لیاہے۔امریکن ہواری ڈچ حکومت کا خاتمہ حق و سچ کی فتح اور باطل کی شکست ہے۔ پاکستان سے سعودی عرب تک اور عراق سے انڈونیشیا تک کے مسلم حکمرانوں کو ہالینڈ کے سابق وزیراعظم جان پیٹر کی طرح اپنی سوچ و فکر میں تبدیلی لاکر امریکی چاکری کا رول چھوڑ دینا چاہیے ورنہ ساروں کا انجام بھی ہالینڈ کے سہ فریقی مخلوط حکومتی اتحاد سے بھی بدتر ہو گا۔ امریکی جنگ کی مخالفت میں پیش پیش تمام یورپی لوگوں نے انسانیت کے رشتوں کو فراموش نہیں کیا۔جو کام امہ کے اربوں محبان دین اور مسلم رہنماوں کو کرنا چاہیے تھا مغرب کے لاجواب شہریوں نے کردکھایا۔ہم بے حس پتھر دل اور بے ضمیرے مسلمان کچھ کرنے سے تو رہے تاہم ہم نیک نیتی سے با ضمیر یورپین کو سیلیوٹ کرتے ہیں
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team