اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت04-03-2010

ائینی اصطلاحات اور سرائیکی صوبہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

ایوان بالا میں قائد ایوان رضا ربانی ائین پاکستان میں ریاست کے موجودہ انتظامی ڈھانچے میں تبدیلیاں لانے سیاسی و جمہوری نظام کے استحکام کے لئے ائینی اصطلاحات تجویز کرنے کا کام پوری جانفشانی سے کررہی ہے۔ ائینی کمیٹی کے ممبران اور سرخیل رضا ربانی کی فہم و فراست اور شعور و اگہی تمام قسم کے خدشات سے بالاتر ہے انکی دانش قابل دید ہے ائینی موشگافیوں پر تو ہم کوئی رائے دینے کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتے مگر چند لازمی ضروری ائینی تجاویز تو ایسی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ریاستی سلامتی کے لئے زہر قاتل بن سکتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ وفاق پاکستان غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ ہے کیونکہ وفاق کی ساری اکائیاں نہ تو وحدت کی تصویر دکھائی دیتی ہیں اور نہ ہی انکو انتظامی یونٹ کا نام دیا جاسکتا ہے۔مضبوط وفاق ملکی وحدت اور یکجہتی کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وفاق میں موجود تمام قومی وحدتوں کو نہ صرف بااختیار یونٹ کا درجہ دیا جائے بلکہ اسکے وسائل بھی متعلقہ یونٹس میں خرچ کئے جائیں۔ مضبوط وفاق اور نئی قومی وحدتوں یعنی نئے صوبوں پر خامہ فرسائی سے قبل ہمیں تاریخ کے قبرستان کی سیر کرنی ہوگی جو ہماری ائینی کمیٹی کے لئے اگر خوشبودار نہیں تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے۔17 ویں صدی میں روئے ارض پر کئی نمناک و خوشگوار واقعات و تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے دنیا کا جغرافیائی نقشہ بدل کر رکھ دیا اور تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔4 جولائی1776 میں امریکیوں نے اپنے قائد جارج واشنگٹن کی زیرقیادت اعلان ازادی کردیا اور پھر ایک طرف امریکیوں نے نوابادی افواج کے خلاف تحریک ازادی شروع کردی تو دوسری طرف فرانس میں سیمنٹ پیسنے والی مشینوں نے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے گھیوں و گھن کو پیس کر رکھ دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جنگ پلاسی کا معرکہ غداروں کی چالبازیوں سے سر کرلیا اور بعد میں وہ میسور میں داخل ہوئے۔ٹیپو سلطان اور افرنگیوں کے مابین زور دار جنگ ہورہی تھی۔ امریکہ خود نوابادی تھی۔ جارج واشنگٹن کے جانثاروں نے نوابادیوں کے خلاف فائنل راونڈ شروع کردیا تھا ۔ نومبر 1775 میں سابق امریکی صدر جیفر تھامس نے انمول تقریر کی جس کا یہ جملہ اج بھی چشم کشا اور اصلاح کا سامان مہیا کرتاہے۔جیفرسن نے نوابادیاتی اجتماع میں کہا ۔ برطانیہ میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو میری طرح برطانیہ امریکہ یونین کا پرجوش حامی ہو ا۔ جیفر تھامس کہتے ہیںمیں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ نوابادیاتی شرائط کی رو سے اگر مجھے برطانوی الحاق کی پیشکش کی جائے تو میں زندگی پر موت کو ترجیح دونگا۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں یہ نہ تو کسی فرد واحد کی اختراع ہے اور نہ ہی میرے جذبات۔میں پوری قوم کی نمائندگی کررہا ہوں اور میرے جذبات امریکی قوم کی امنگوں ترنگوں اور اشاووں کا مظہر ہیں۔ ماضی کی سپرپاور برطانیہ نے اپنی نوابادیوں کے لئے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کیا تو امریکی قوم نے اسے مسترد کردیا۔ تجاویز کو مسترد کرنے والواں میں وہ نوابادکار بھی شامل تھے جو یورپ سے یہاں ائے تھے۔ حقوق کے نام پر انسانی ازادی کو سلب کرنے والی سپرپاور نے ان تجاویز کی روشنی میں امریکی ابادکاروں پر چائے ایکٹ سگریٹ ایکٹ امریکہ میں جرم کرنے والوں کے خلاف برطانیہ میں مقدمہ چلانے کا ایکٹ، نیویارک اسمبلی کو معطل کرنے کا امرانہ قانون، بوسٹن کی بندرگاہ کابل اور میسا چیو سٹس اسمبلی کو چلانے کے لئے قواعد و ضوابط کا ایکٹ شامل تھا۔ برطانوی استعماریت کی غاصبانہ تجاویز کے شکم سے تحریک ازادی برامد ہوئی۔امریکہ اور فرانس1789 میں دنیاوی نقشے پر ابھرے۔اپریل1789 میں جارج واشنگٹن کی سرکردگی میں امریکہ کی پہلی حکومت منظر عام پر ائی جبکہ فرانس میں بھی اٍسی سال مئی میں پہلی حکومت بنائی گئی۔جارج واشنگٹن نے فوجی جرنیل کی حثیت سے جنگ ازادی میں جلوہ دکھایا مگر جونہی وہ وائٹ ہاوس کے شہنشاہ بنے وردی اتار دی۔مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک ازادی سے دوسال قبل امریکی ائین کے خدو خال تراش لئے گئے تھے مگر جونہی واشنگٹن کا عہد صدارت شروع ہوا تو کانگرس نے پہلی فرصت میں انسانی حقوق کا بل پاس کیا۔ امریکہ کے لئے حقوق انسانی اور شہری ازادیوں کا بل خوشحالی صنعتی انقلاب اورمعاشی ترقی کا پیش خیمہ اور دنیا کی سپرپاور بننے کا اہم سنگ میل بن گیا۔امریکی ائین کی پہلی ترمیم سیاست یا حکمرانوں کو طاقت دینے کے لئے نہیں تھی بلکہ اسے عوامی بھلائی اور سکھ چین کے لئے ڈرافٹ کیا گیا۔اسی دوحرفی ترمیم نے امریکی قوم کو ریاستی اداروں سے زیادہ طاقتور بنادیا۔یہ ترمیم ایک لائن پر محیط ہے۔ ریاست کسی مذہب کے قیام یا سماج میں لاگو کرنے اورازادی اظہار پر پابندی کا کوئی حق نہیں رکھتی۔ترمیم کا مدعا شہری ازادیوں کے تحفظ کو یقینی بنانا اور امور مملکت میں عوامی ارا کو شامل کرنا اور عوام کو طاقتور بنانے میں پنہاں تھا۔ کانگرس نہ تو کسی دین کو سرکاری مذہب قرار دے سکتی ہے اور نہ ہی ازادی اظہار پر قدغن لگانے کا حق رکھتی ہے۔امریکی ائین کی پہلی ترمیم میں حکومت خود اپنے اختیارات سے محروم ہوگئی۔ دنیا کا کوئی ملک قانون ساز ادار ہ اور پارلیمان بہتری کے لئے ترامیم کر تے رہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی مطلق العنان بادشاہ اپنی مرضی سے ایل ایف او اور پی سی او جاری کرسکتا ہے مگر امریکی کانگرس عوامی حقوق سے متعلق ائین کی پہلی دس ترامیم کو تبدیل کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ یہ ترامیم انسانی حقوق کے ارد گرد گرد گھومتے ہیں جیسا کہ عوام کے پاس اسلحہ کے خلاف کوئی قانون پاس نہ ہوگا۔لوگوں کے گھروں اور دستاویزات کی بلاوجہ پڑتال نہ ہوگی۔کوئی فوجی امن یا حالت جنگ میں کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ وارنٹ کے بغیر کسی کو لاک اپ میں نہیں ڈالا جاتا۔امریکی ائین میں یہ شق بھی ہے کہ عوام کو حاصل شدہ اختیارات ریاست کو منتقل نہیں کئے جاسکتے مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے کیونکہ ائین کچھ کہتا رہے ارباب اختیار کو اس کوئی غرض نہیں۔جنوبی پنجاب صوبے کے تین ڈویژن ڈی جی خان بہاولپور اور ملتان پر مشتعمل ہے جہاں جاگیرداریت اور استحصالی نظام کی استبدادیت میں جکڑے ہوئے پانچ کروڑ سرائیکی نصف صدی سے سرائیکی صوبے کی راہ تک رہے ہیں۔ملتان رنجیت سنگھ کے دور جبکہ بہاولپور پچاس کی دہائی تک خودمختیار صوبوں کا درجہ رکھتے تھے۔جنرل مشرف کے دور میں نئے یونٹس کی خوش گمانیاں سننے کو ملیں تھیں مگر نتیجہ ندارد۔پاکستان کے حکمران وہ چاہے جرنیل تھے یا سیاست دان امریکی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ امریکی خوشنودی کے لئے ہم اپنی سلامتی و خود حمیتی کو پارہ پارہ کرچکے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ پالیسی ساز قانون و ائین کی رو سے امریکی اقدار کی پیروی کیوں نہیں کرتے۔رضا ربانی کی سربراہی میں قائم ائینی کمیٹی اور پارلیمنٹ کو امریکی ائین کی رو سے مضبوط وفاق کے استحکام کے لئے سرائیکی صوبے کے قیام کے لئے قابل عمل کاوشیں کرنی چاہیں ورنہ احساس محرومی کا جو لاوا وسیب کے کروڑوں سرائیکیوں کے تن من میں اگ کی طرح جل رہا ہے وہ جلد یا بدیر سقوط ڈھاکہ کی تباہیوں کا سماں پیدا کرے گا۔ بحرف اخر امریکی خیالات کی ترجمانی مغربی تہذیب کی نقالی اور امریکی احکامات پر سربسجود ہونے والا طبقہ اشراف عوام کو بااختیار بنانے کے لئے امریکی ائین کو شعار کیوں نہیں بناتا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team