اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت12-03-2010

مذاکرات ایک ناٹک

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


پاکستان اور بھارت کے درمیان پچھلے ماہ خارجہ سیکریٹریوں کے مابین ہونے والی مذاکراتی بیٹھک نے سابق برصغیر پاک و ہند کے ان کروڑوں امن پسند مسلمانوں اورہندووں کی امن پسندانہ و برادرانہ خواہشات کا قتل کردیا کیونکہ مذاکرات کا قصہ ہی تمام ہوگیا۔ بداعتمادی، کیچڑ اچھالنا اور ناکامی کا فضلہ ایک دوسرے پر پھینکنا طرفین کے مابین 62سالہ مذاکراتی ہسٹری کا نچوڑ ہیں۔ پاک بھارت حکومتیں دہشت گردی ،تخریب کاری اورانارکی کو ایک دوسرے کا کارنامہ کہہ دیتی ہیں۔ایک اگر مکھی مارتا ہے تو دوسرا مکھی پر مکھی مارنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ایک مصرعہ بولتا ہے تو دوسرا شعر و غزل پڑھنے لگتا ہے۔پہلا فریق دو غزلہ پڑھ دے تو فریق دوم سہ غزلے کا راگ شروع کردیتا ہے۔کوئی تان اٹھانے کا شوق پورا کرنے لگے تو دوسرے قوالی گانے لگتے ہیں۔کوئی حقائق جاننے اور سچ تراشنے کی زحمت نہیں کرتا۔طویل عرصے کی دشت کی سیاحی کے باوجود طرفین کو ایسا میکنزم نہ مل سکا جو تعلقات کی وسعت کو یقینی بنائے تاکہ باہمی تعاون کی مشترکہ راہیں تلاش کی جاسکیں جن پر چل کر رنجشیں بداعتمادی اور شکوک و شبہات ختم ہوجائیں جوہری جنگ کا خطرہ ٹل جائے اور یہ خطہ دوبارہ سونے کی چڑیا اور صوفیائے کرام اور گاندھی کی عدم تشدد پر مبنی تعلیمات کی روشنی میں امن و سلامتی کا گڑھ بن جائے۔ جب کبھی مذاکرات کا طبلہ بجتا ہے تو یہ خوشگوار احساس امید پیدا کرتا ہے کہ شائد اس دفعہ کا انٹریکشن برف پگھلنے کا کام کردے مگر اس وقت جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں جب یہ قلعی کھلتی ہے کہ مذاکرات کا انعقاد کسی بڑی قوت کے دباو پر کیا جارہا ہے جسکا منبع بھی اسی طاقت کے مفادات کا رہین منت ہے۔اکثر اوقات تو مذاکرات کی شادی میں دولہے اور دلہن دونوں کی رضامندی شامل نہیں ہوتی مگر دونوں کی سادگی کا عالم دیکھیے کہ نتائج سے باخبر ہونے کے باوجود وہ مذاکرات کے چکر میں پھنس جاتے ہیں۔ دونوں کی رضامندی کے بغیر ہونے والی شادی خانہ بربادی بن جاتی ہے نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے یوں مذاکرات کے دامن میں ناکامی کا سندور نوشتہ دیوار بن جاتا کرتاہے۔دونوں وفود کے اجلاس کا ماحول خاصا کشیدہ بن گیا جسکا ثبوت خارجہ سیکریٹریوں کی علحیدہ علحیدہ پریس کانفرنس سے جھلک رہا تھا۔ سفارتی ملاقات کے دوران سلیمان بشیر اور نرپما راو اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم رہے۔سلیمان بشیر نے تلخ شدہ ماحول میں اپنے ہم منصب کو کہا کہ ہم بھارت سے دہشت گردی پر کوئی وعظ سننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ فریقین چونکہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے یوں لگا جیسا کہ ماضی کی تاریخ دہرائی جارہی ہے جب مذاکرات منعقد ہوکر ناکامی پر متنج ہوا کرتے تھے۔ ڈائیلاگ کی ناکامی کا ایک عنصر تو یہ بھی ہے کہ اگلے راونڈ کی تاریخ مقرر نہ ہوسکی۔پاکستان کی طرف سے یہ تجویز دی گئی کہ ایسے روڈ میپ تیار کئے جائیں جنکی روشنی میں بھوٹان کے سارک اجلاس کے موقع پر دونوں وزرائے اعظم جامع مذاکرات کی ابتدا اور اغازکا اعلان کرسکیں جسکا اٹھ نکاتی ایجنڈہ کامیابی کی طرف پیش قدمی کے قابل بن سکے تاہم بھارتی وفد کا اصرار تھا کہ ابھی قیام امن پر بات چیت کا درست وقت نہیں ایا یوںاس پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔ بھارتی حکومت نے یہ تجویز پیش کی خارجہ سیکریٹریوں کے مابین مرحلہ وار ڈائیلاگ کا پہیہ چلتا رہے مگر اسکی چال صرف دہشت گردی کے اطراف تک محدود ہو۔ بھارت کی جانب سے یہ شرط بھی عائد کی گئی کہ جامع مذاکرات کی تجدید اور بحالی کا سلسلہ اس وقت شروع ہوسکتا ہے جب دہشت گردی میں کمی کے اثار نمایاں ہوں یا اس مسئلے پر کوئی پش رفت دکھائی دے۔فریقین کے متصادم نظریات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ سفارتی تعطل برقرار ہے۔بھارت کی سوئی دہشت گردی پر اٹکی رہی ۔یوں ابھی سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ مستقبل میں جب کبھی ڈائیلاگ کی میز جمے گی تو بھارت کشمیر کے تنازعے کو فوقیت دینے کی بجائے دہشت گردی پر گفت و شنید کو اولیت دے گا۔بھارت نے سلیمان بشیر کو تین دستاویزات مہیا کیں جو مطلوبہ افراد کی حوالگی کے متعلق تھیں۔بھارت نے الزام لگایا کہ مطلوبہ افراد پاکستان میں روپوش ہیں مگر سلیمان بشیر نے دستاویزات کو حقیقت کی بجائے افسانے کا نام دیا۔پاکستان کا کلیدی فوکس تنازعہ کشمیر اور پانی کے مسائل پر تھا۔ بھارت کو کھری کھری سنا دی گئی کہ اسلام اباد دونوں ملکوں کے مابین مساوات احترام خود مختیاری اور باہمی عزت سے لبریز دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے تاہم میزبان مذاکرات کار اپنی قیادت کی پالیسی سے ایک انچ بھی اگے بڑھنے پر امادہ نہ تھے جس نے کئی اہم سوالات کو جنم دے ڈالا۔اگر بھارت مذاکرات کی کامیابی کا خواہاں نہیں ہے اور وہ بامقصد ڈائیلاگ میں دلچسپی نہیں رکھتا تب ایسی بیکار مشقوں کا کیا فائدہ ہے؟ بھارتی عوام کے لئے مذاکرات کی اہمیت کتنی ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو یہ عالمی دباو کی غمازی کرتا ہے۔امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بحالی کا خواہشمند ہے تاکہ اسکی افغان پالیسی پر کوئی حرف نہ ائے۔ بھارت امریکی خوشنودی اور عالمی دباو کو ریلیز کرنے کے لئے چند مقرر کردہ حدود میں گفت و شنید پر امادہ ہے۔بھارتی افلاطون مذاکرات کے سرکس سے واشنگٹن کو رام کرنا چاہتے ہیں یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بھارت اختلاف کے خاتمے کی بجائے پاکستان پر اپنے دباو میں اضافہ کرنا چاہتا ہو۔ کوئی بات چیت کسی ایجنڈے یا منشور سے ہٹ کرکی جائے تو وہ دباو میں اضافے کی وجہ بن جاتی ہے۔بھارتی مبصرین کے ایک گروہ کی رائے ہے کہ موجودہ مذاکرات دہلی کو ایسے ہتھیار فراہم کرسکتے ہیں جنکی فائرنگ سے دہشت گردی کے حوالے سے وہ پاکستان کو پریشر رائز کرسکتا ہے مگر سرے سے کوئی مذاکراتی کھیل نہ کھیلنے سے بھارت کو یہ موقع نہیں مل سکتا۔پاکستان نے مذاکرات برائے مذاکرات کی بھارتی چال کو مسترد کردیا۔بھارتی سرکار کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اب بے مقصد مذاکرات کا ناٹک مستقبل میں کارامد نہیں ہوسکتا۔ جنوبی ایشیا کی دونوں ایٹمی طاقتوں نے ہمیشہ عالمی توجہ حاصل کی۔ امریکہ اور برطانیہ کی پاک بھارت مصالحت کروانے کی تاریخ بڑی طویل ہے۔بھارت 1948 میں کشمیر کا مسئلہ یو این او میں لے گیا تب سے دونوں سامراجی قوتوں نے پس پردہ پیچیدہ تعلقات کی عقدہ ثانی کے لئے وسائل اور ٹائم کی کافی مقدار استعمال کی مگر شملہ معاہدے کے بعد امریکہ و برطانیہ کا مصالحتی کردار بند ہوگیا۔امریکہ خطے کو خطرناک ایٹمی فلیش پوائنٹ تصور کرتا ہے۔امریکی جانتے ہیں کہ کشمیر وہ رستا ہوا ناسور ہے جو جوہری جنگ شروع کرواسکتا ہے۔ یہ صورتحال کم از کم کلنٹن دور تک قائم رہی مگر امریکی منڈیوں تک بڑھتے ہوئے بھارتی نفوز اور اسرائیل کے ساتھ دوستی کی وجہ سے بش دور میں بھارت کو خاصہ اہمیت دی گئی۔بھارت امریکہ جوہری معاہدہ مثال ہے جس نے توازن بگاڑ دیا۔اوبامہ دور میں بھی پاکستانی اندمال کی کوئی سکہ بند تشفی نہیں ہوئی بلکہ اسی دور میں پاکستان کو اتنا مجبور کردیا گیا کہ وہ اس امر کو تسلیم کرلے کہ انڈیا خطے میں مقرر ہونے والے امریکی نمائندے کے ایجنڈے سے کشمیر کا نام نکلوانے کی اہلیت رکھتا ہے۔قرائن سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ بھارتی قیادت مذاکراتی عمل کی کامیابی میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی مگر بھارتی فلاسفروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی حمایت کے بغیر وہ جنوبی ایشیا کی طاقتور معاشی و دفاعی قوت کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتی۔ بھارت نے پاکستان کو ہمیشہ نیچا دکھانے کی سازشیں کیں۔حالیہ مذاکرات کے دوران بھی بھارتیوں کا رویہ مثبت نہ تھا۔پاکستانی وفد کے ساتھ بھارت جانیوالے جرنلسٹ نے واپسی پر لکھا کہ جونہی پندرہ رکنی پاکستانی وفد بھارتی سرزمین پر اترا تو بھارتی حکام کے چہروں پر اضطراب اور ناگواری و بے چینی ہویدا تھی۔یہ بیان پڑھتے ہی ہمیں سابق وزیر سرتاج عزیز کی کتاب BETWEEN DREAMMISLAND REALITIES یاد اگئی جس میں انہوں نے بھارتی دورے کا مشاہدہ رقم کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ بھارتی وزیر جسونت سنگھ سے ملنے دہلی پہنچے تو انکا رویہ غیر دوستانہ اور سفارتی اداب کے منافی تھا۔جسونت سنگھ نے سرتاج عزیز کے ساتھ مصا فحہ تو کیا مگر خیر سگالی کے دو لفظ تک نہ بولے۔اس مرتبہ بھی یہی تاریخ دہرائی گئی۔ بھارت کشمیر ایشو پر بات نہیں کرنا چاہتا حالانکہ تنازعہ کشمیر تمام مسائل کی جڑ اورفوری حل طلب مسئلہ ہے جسے سلجھائے بغیر جنوبی ایشیا میں نہ تو ا من قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی خطے سے ایٹمی جنگ کے خدشات اور وسوسوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اب گیند بھارتی کورٹ میں ہے وہ چاہے تو کشمیر کا معاملہ طے کرکے دہشت گردی کے جن کو ہمیشہ کے لئے بوتل میں بند کرد ے یا پھر سابق برصغیر کے کروڑوں لوگوں کو جوہری جنگ کے جوف جہنم کا ایندھن بنانے کی بنیاد رکھ دے۔پاکستان اور بھارت کے لوگوں کو بھی حالات پر گہری نظر رکھنی ہوگی تاکہ وہ حکمرانوں کو امن و خوشحالی کی راہ دکھانے اور نتیجہ خیز مذاکرات کے انعقاد پر مجبور کرسکیں۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team