اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت18-03-2010

جرنیل شاہی اور مقدس گائے

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


150 سال پہلے کارل مارکس نے واس کیپٹل میں کہا تھا اگر قومی سرمائے کی تقسیم منصفانہ نہ ہو تو اجارہ داریاں قائم ہوجاتیں جو انقلاب کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ پاکستان کرپشن کے حوالے سے روئے ارض پر شہرت یافتہ و ریکارڈ ساز حثیت کا مالک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار اقوام عالم کے پہلے 10کرپٹ ترین ملکوں کی فہرست میں دسویں پوزیشن کا نوبل پرائز یافتہ خطہ ہے۔کرپشن کے ناسور نے دیمک کی طرح سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی بنیادوں کو چاٹ کر کھوکھلا کردیا ہے۔دکھ تو یہ ہے کہ حکومتی اداروں سے لیکر سیاسی جماعتوں تک قانون کے رکھوالوں سے لیکر مذہبی ٹھیکداروں تک سارے کرپشن کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔ہمارے ہاں سیاست دانوں پر کرپشن لوٹ مار قرضوں کی معافی اور مالی بے ضابطگیوں کے الزامات اور کیسز کی تعداد بیوروکریسی فوج اور عدلیہ کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ کیا کرشن کے حمام میں ننگوں کا تعلق صرف سیاسی کیمیونٹی سے ہے؟ کیا عسکری شعبہ اس وبا سے تہی داماں ہے؟ کیا عدلیہ کے دامن پر کرپشن کا دھبہ نہیں ہے؟ ابتدائے افرینش سے ہی پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ عدلیہ اور سیکیورٹی فورسز کی کرپشن کو اس طرح بے نقاب نہیں کیا جاتا جسطرح سیاست دانوں اور بیوروکریسی کی بدعنوانیوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔nro تازہ ترین مثال ہے۔این ار او میں نامذد ملزمان کی تعداد8 ہزار ہے اور ساروں کا تعلق پولیٹکل برادری اور بیوروکریٹک قبیلے سے ہے۔ اگر کوئی عدلیہ اور کرپشن کو ایک دوسرے سے منسوب کرنے کی ہمت کرے تو وہ توہین عدالت کا دہشت گرد بنادیا جاتا ہے۔دوسری طرف اگر کوئی ادارہ یا سیاسی حکومت خاکی کرپشن کو عیاں کرنے کی جرات کر لے تو وہ غدار بن جاتے ہیں۔ملکی تاریخ میں فوج اور عدلیہ کو مقدس گائے کا درجہ حاصل ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلی طبقہ بھی قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔جرنیلوں نے چاروں مرتبہ کرپشن کی داستانوں و افسانوں کو بنیاد بنا کر جمہوری حکومتوں کا ستیاناس کیا مگر سچ تو یہ ہے کہ جرنیلی دور میں سب سے زیادہ کرپشن کے ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے رہے۔سابق ایر مارشل اصغر خان نے بہت پہلے سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کرپشن کے مقدمات فائل کئے جن میں فوجی جرنیلوں اور ائی ایس ائی کے فنکاروں کی کارگزاری شامل ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ اصغر خان کی ائینی درخواستوں کو سماعت کے لئے زیر غور نہیں لایا جاتا ہے۔ ´سپریم کورٹ کی موجودہ بلند مرتبت ٹیم اپنے کیپٹن چوہدری افتخار حسین کی قیادت میں کرپشن کے خاتمے کا عہد کئے ہوئے ہے۔عدلیہ کی ساری ٹیم کو اصغر خان سمیت کرپشن کی تمام درخواستوں کی فوری سماعت کرے جس میں جرنیل طبقے کے کئی پردہ نشینوں کے نام شامل ہیں تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ پاکستان کے ایک معروف جریدے نے چند ایسے واقعات کو شائع کیا ہے جو عدلیہ کو خاکی کرپشن کے حوالے سے کافی مواد فراہم کرسکتے ہیں۔ سرائیکی وسیب یا لوئر پنجاب میں جرنیلوں اور فوجی افیسرز کو کوڑیوں کے بھاو ہزاروں ایکڑ سرکاری زمین اور پلاٹ الاٹ کئے جاچکے ہیں۔پلاٹوں اور زرعی زمین کی قیمت47 روپے اور50 پیسے فی کینال مقرر کی گئی حالانکہ مارکیٹ ویلیو کی قیمت پندرہ سے بیس ہزار روپے ہے۔رحیم یار خان اور بہاولپور میں چھ ریٹائرڈ فوجی رجال کاروں نے35 ہزار کینال زمین اپنے نام کروالی۔اسی علاقے میں فوجیوں کے ایک دوسرے گروپ نے چار سو کینال پر اپنی حاکمیت قائم کرلی ہے۔DHA لاہور نے سابق روشن خیال صدر اور نیب کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ امجد کو دو دو کروڑ کا ایک ایک پلاٹ8 لاکھ میں گفٹ کیا۔ اس پر طرہ یہ کہ رقم کی ادائیگی کے لئے 20 سالوںکی سہولت دی گئی۔ڈیفینس سروسز کی رپورٹ کے مطابق ایسی شاہانہ و فیاضانہ ڈیلوں میں 5 ارب کا نقصان ہوا۔پاک فضائیہ کے دو شاہینی سربراہوں عباس خٹک اور فیروز خان پر بل ترتیب40 معراج و40 ایف سیون طیاروں کی رقوم180 ملین ڈالر اور271 ملین ڈالر میں5 فیصد کمیشن لینے کا اروب ہے۔ نیب نے فوجی جیپوں کی خرید میں لمبی مار دھاڑ کی تفتیش کی تو پتہ چلا کہ سینئر افسران نے ملکر ایک جیپ21 ہزار ڈالر میں خرید ڈالی حالانکہ مارکیٹ پرائس13 ہزار ڈالر تھی۔نیب کی تحقیقات کے مطابق اسی سودے میں521 ملین زاتی جیبوں میں ڈالے گئے۔کرپشن اور کک بیکس کے ایک اور شاندار کیس کا تذکرہ کچھ یوں ہے۔فوجی افسیرز نے پاک فوج کے لئے ایک ہزار ہینو ٹرک40 ہزار ڈالر فی ٹرک خریدے حالانکہ پاکستان میں ہینو برانچ نے یہی ٹرک25 ہزار ڈالر میں دینے کی پیشکش کی تھی۔1995 میں ایک اور مشکوک کیس سامنے ایا۔فوج نے 3 ہزار لینڈ روز جیپیں خریدیں ۔سودے میں ارباب اختیار کو دوارب کی خیرات کمیشن کے نام پر بچ گئی۔ جنرل علی قلی خان اور انکے والد حبیب اللہ نے اثر و رسوخ کے زور پر کوہاٹ ٹیکسٹائل مل کے نام پر1.8 ملین اور1.6 ملین کے قرضوں کو معافی کے نام پر ہڑپ کیا۔ اسکے بعد قرضوں کی معافی کے طوفانی کاروبار نے زور پکڑا جس میں چند یہ ہیں۔ سابق جرنیلوں اور فوجی افیسرزکے ایم اظہر نے16 ملین وقار عظیم نے15 ملین گوہر ایوب اور قلی خان کے برادر رضا قلی خان نے7.2 ملین ایم ممتاز میجر جرنل ، شوکت کرنل اور میجر تاج الدین نے1.2 ملین کے قرضے معاف کروا کر قومی خذانے کو اربوں کا ٹیکہ لگایا۔ex ایر کموڈور نے95 ملینex ایر وائس چیف مارشل عطاالہی نے40 ملینex کرنل یعقوب نے276 ملینex میجر نسیم فاروقی نے اپنے پارٹنرز کے ہمراہ2.1 ملین کے قرضے معاف کروائے۔ بنک کے قرضوں کو معاف کروانے والے فوجی افیسرز کی فہرست بہت طویل ہے۔فوجی افیسرز کے علاوہ پاک فوج سے منسلک کئی اداروں نے بھی بہتی گنگا میں بغیر ٹکٹ اشنان کیا۔ارمی ویلفیر ٹرسٹ14 ملین کا قرضہ حاصل کیا مگر ساتھ ہی اسے معاف کروانے کا بندوبست کرلیا۔ پاک فوج پوری قوم کی حمیت و جرات کی ترجمان ہے۔عوامٍ پاکستان اپنی فورسز کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے ہیں جسکی ایک مثال تو یہ ہے کہ1965 میں وطن کی حرمت پر قربان ہونے والے جانثاروں راشد منہاس سے لیکر میجر عزیز بھٹی تک سارے شہدا چار دہائیوں کے بعد بھی ہر پاکستانی کے دلوں میں اج تک زندہ و پائندہ ہیں۔ پاک فوج نے ایک طرف جہاں وطن کی سلامتی پر جانیں تک نچھاور کردیں تو وہاں ٹائیگر نیازی ایسے بذدل افیسرز کی عیاشیوں اور غنڈہ گردیوں سے یہ وطن حصوں بخروں میں بٹ گیا۔سیاست دانوں کی پیروی میں فوجیوں کو غیر ائینی مراعات کی لت پڑ گئی ۔اس کلچر کی داغ بیل اس وقت پڑی جب جرنیلوں نے سیاست میں مداخلت کی۔امریت نے سیاست کے ساتھ ساتھ فورسز کے درجنوں افیسرز کو کرپشن کا رسیا بنادیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پاک فوج اور عدلیہ کے سرداروں پرویز کیانی اور چوہدری افتخار نے جمہوریت کے احیا، قانون کی اتھارٹی اور امریت کے خاتمے کے لئے جو کوششیں کیں وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ دونوں کا فرض ہے کہ وہ افواج اور عدلیہ کی صفوں میں محو استحراحت کالی بھیڑوں کی گردن دبوچیں۔ خاکیوں کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے۔ اگر این ار او میں نامزد صدر مملکت کے خلاف کرپشن کا کیس چلایا جا رہا ہے تو پھر ہوس گیر کرپٹ فوجیوں کا احتساب کیوں نہیں کیا جاتا؟ سابق فوجی افیسرز کے معدوں میں ہضم ہوجانیوالے کھربوں کی وصولی کی جائے۔سرائیکی وسیب کی لاکھوں ایکڑ اراضی فوجیوں کے تسلط سے چھڑوا کر بے زمین پاکستانیوں کو الاٹ کردی جائے اگر یہ عمل مکمل نہ ہوا تو عدلیہ کا وقار مجروح ہوسکتا ہے؟ قومی وسائل پر جاگیرداروں جرنیلوں اور بیوروکریسی نے اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں جبکہ عوام بھوکوں مررہی ہے۔عدلیہ انتظامیہ اور فوج کے صاحبان بصیرت کو کارل مارکس کے قول کی رو سے طبقہ اشراف کی اجارہ داری اور کرپشن، لوٹ مار کو ختم کیا جائے وگرنہ مارکس کی پشین گوئی کے مطابق افلاس زدہ لوگوں کا لشکر بیدار ہوگا اور سوشلسٹ انقلاب کا ایسا طوفانی جھکڑ چلے گا کہ اشراف کے مضبوط قلعے تنکا تنکا ہوجائیں گے
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team