اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت23-03-2010

ڈرون حملوں کے مکروہ عزائم

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں ڈرون طیاروں کے وحشتناک حملوں سے کئی مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ناٹو کی افغانستان میں طویل عرصے تک موجود رہنے کی منصوبہ بندی میں ڈرون ٹیکنالوجی کو مرکزی حثیت شامل ہے۔ پینٹاگون نے2004 فاٹامیں ڈرون شب خون کا اغاز کیا تو اسی وقت یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ امریکی حکمت عملی میں جاسوس طیاروں کا اہم ترین کردار ہوگا۔ امریکہ جانی نقصان کے بغیر جنگ کو طوالت دے سکتا ہے جو کئی حوالوں سے امریکہ کی ضرورت ہے۔ ابتدا سے ہی یہ اندازے و قیافے موجود تھے کہ اگر کسی موقع پر ناٹو کو کابل سے بے نیل و مرام نکلنا پڑے تب بھی ڈرون یلغار کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ امریکی نقطہ نظر سے ایک طرف ڈرون کو مقامی ابادی کو مشتعل کرنے اور پھر انتقامی سوچ کے تحت انہیں عسکریت پسندی کی طرف راغب کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی تاکہ جہادی لشکر اپنی کاروائیاں جاری رکھیں اور امریکہ کو وہاں رہنے کا جواز میسر اسکے۔ بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد ورثا کو مشتعل کرنا اور انتقام پر اکسانے کی پالیسی امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس کی زہنی اختراح ہے جو کچھ عرصہ پہلے انکے بیانات سے اموختہ ہوئی۔دفاعی تجزیہ نگار بار بار اس نقطے پر زور دیتے رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے یوں لازم ہے کہ دہشت گردی کے نام پر چلنے والے ڈرامے کی اقساط کو طویل کردیا جائے اور اسکے ڈراپ سین کو اگے لے جایا جائے اور اس دوران امریکی افواج کو انگیج رکھنے اور اقوام عالم کو دھوکہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ عسکری تنظیموں کے وجود کو برقرار رکھا جائے۔ امریکی ایجنسیاں ایک طرف مغرب مخالف عسکری طاقتوں کو برسرپیکار رکھے ہوئے ہیں اور اس نوٹنکی کے لئے امریکہ کو وار لارڈز اور بھارت کی حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف اکساہٹ اور اشتعال کو ہوا دی جارہی ہے تاکہ جنگجووں کی نئی کھیپ بھی اسانی کے ساتھ جنم لیتی رہے۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینکnew american foundation نےyear of drone نام سے منسوب ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں2009 کو ڈرون کا سال کہا گیا ۔2009 فاٹا میں151 ڈرون حملے کئے گئے مگر بش ایسے خونخوار ادم خور بھیڑئیے اور عالمی قاتل کے8 سالہ عہد میں حملوں کی تعداد46 ہے۔ اوبامہ کو انٹرنیشنل نوبل کمیٹی نے امن کا نوبل ایوارڈ بخشیش میں دیا ہے۔اوبامہ کی امن پسندی کا جیتا جاگتا ثبوت یہ ہے کہ اوبامہ کی صدارت کے پہلے سال فاٹا پر قیامت صغری کی طرح داغے جانیوالے حملوں کی تعداد بش کے 8سالوں کے مقابلے میں2 گنا بلکہ زائد ہے۔2009کے پہلے دو مہینوں کے حملے اسکے علاوہ ہیں۔جنوری اور فروری میں145 افراد جاں بحق ہوئے ۔ تھنک ٹینک کی اسی رپورٹ میں2004 سے لیکر2010 تک ڈرون میزائلوں کی کارگزاری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مغربی پریس کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد موجودہ اعداد و شمار سے زیادہ ہے۔ شمالی حصے میں ڈرون کے114 حملے کئے گئے جو1216 افراد کی موت کا سبب بنے۔رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں500 تا850 عسکریت پسند مارے گئے ۔ ہلاک ہونے والے انتہاپسندوں کی تعداد مجموعی ہلاک شدگان کا دوتہائی ہے جبکہ معصوم بچوں جوانوں اور شہریوں کی تعداد32 فیصد ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں عسکریت پسندوں کی شناخت کا پیمانہ امریکیوں کا خود ساختہ ہے یعنی امریکہ نے جس لاش پر جنگجو ہونے کی مہر لگائی ساری دنیا نے اسے حقیقت سمجھ لیا۔فروری اور جنوری میں18 افراد مار ے گئے۔رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ پچھلے 6 سالوں میں ہر3 افراد میں سے1 سویلین سیاہ بخت تھا۔ مغربی پریس نے تھنک ٹینک کی جارہ کردہ رپورٹ کوunmaned death squade کا نام دیا گیا یعنی اسکی حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دوغلی اصطلاحیں1 غیر مقبول فعل 2۔ ناگزیر برائی استعمال کی گئی ہیںرپورٹ میں ایک طرف ڈرون حملوں کو غیر مقبول عمل سے تشبیہ دی گئی ہے تو دوسری طرف اسے ناگزیر برائی کا لبادہ پہنایا گیا ہے۔ناگزیر برائی کا اہم پہلو یہ ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی سے امریکہ مطلوب افراد کو ٹارگٹ نہ کرسکا مثال کے طور پر اسامہ بن لادن وغیرہ۔ہوسکتا ہے کہ حکیم محسود ٹارگٹ رہا ہو مگر بیت اللہ امریکی ہٹ لسٹ میں شامل نہ تھا کیونکہ اسکی پیٹھ پر cia موجود تھی۔ رپورٹ میں ڈرون کی ناکامی کا رونا بھی رویا جارہا ہے کہ امریکہ ڈرون سے القاعدہ کے ٹرینگ کیمپوں کو تباہ کرنے کا ہدف حاصل نہ کرسکا۔رپورٹ میں ڈرون حکمت عملی کو حکمت عملی کا نام دینے سے اجتناب کیا گیا۔ڈرون ایک چال ہے جو چلنے والوں کو ہدف بناتی ہے۔امریکی پروفیسر میتھیو کا کہنا ہے کہ ملٹری تناسب کا اصول یہ کہتا ہے کہ حملوں میں سویلین کی ہلاکتیں نہ ہوں کیونکہ سویلین کی ہلاکتیں فوائد سے زیادہ نقصانات پر متنج ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں ڈرون کو ناگزیر کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں تک رسائی کا کوئی اور زریعہ نہیں ہے۔پاکستان امریکی فوجوں کی زمینی کاروائیوں کی اجازت نہیں دیتا۔ بلوچستان کے متعلق سردست امریکہ کا یہ موقف ہے کہ وہاں ڈرون حملوں کا کوئی منصوبہ نہیں کیونکہ بلوچستان پاکستانی ریاست کا جزو لانفیک ہے۔ بلوچستان کے متعلق امریکی روئیے میں نرمی خود اس کی مجبوری ہے مگر امریکہ روئے ارض کا واحد خود غرض طوطا چشم اور احسان فراموش ملک ہے جو اپنے مفادات کے لئے کسی وقت بھی کسی اتحادی کی مرضی کے بغیر ناروا قسم کی پالیسی بنانے اور پھر تحریف کرنے کے فن میں یکتائے روز گار ہے۔ناٹو بلوچستان کے عقب میں واقع مہمند صوبے میں اپریشن کررہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ وہ جنگجووں کو گرفتار کرنے کے بہانے دائرہ کار بلوچستان تک وسیع کرسکتا ہے۔ ڈرون حملے عالمی قوانین کے برعکس ہیں۔دو فریقوں کے مابین حالت جنگ کا تعین کرنے کے لئے کم سے کم جو اپشنز لازمی ہوتے ہیں انکے تناظر اور ڈرون حملوں کی روشنی میں امریکہ و پاکستان کا تجزیہ کیا جائے تو سچ مترشح ہوتا ہے کہ امریکہ و پاکستان حالت جنگ میں نہ ہیں۔ امریکیوں کا موقف ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے کئے جارہے ہیں مگر حکومتی اصرار یہ ہے کہ حملے انکی اجازت کے بغیر کئے جاتے ہیں۔امریکہ تو یہ شیخی بگھار چکاہے کہ ڈرون پاکستان کی سرزمین سے اڑتے ہیں۔ اگر امریکہ دھونس رعونت سے کسی اجازت کے بغیر ڈرون کی قیامت ڈھا رہا ہے تو یہ پاکستان کے خلاف جارہیت ہے جسکا جواب دینا پاکستان کا ائینی اسلامی اور تہذیبی فرض ہے۔ اگر پاکستان جواب دینے سے اغماض برت رہا ہے تو پھر یہ معاملہuno میں لے جایا جائے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اگر ایسا کوئی وعدہ و معاہدہ نہیں تو حکمرانوں کو اپنی سچائی کےلئے دو میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ہمیں ڈرون تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے سربکف ہونا پڑے گا یا پھر امریکی چاکری کرنے والے حکمران ہوں یا افواج پاکستان کے بڑے ہوں ساروں کو پیا گھر سدھار جانا چاہیے کہ وہ اپنی عوام کوغیر ملکی جارہیت سے کو بچانے میں ناکام ہوگئے۔ ارباب بزرجمہرز کو دونوں اپشنز میں سے ایک کا انتخاب کرنا چاہیے۔ایک راہ زلت غلامی، بے ضمیری اور بے حمیتی کی تاریک راہوں میں گم ہوجاتی ہے، دوسری راہ ہماری خود مختیاری اور ازادی کا ایک ایسا روشن مینار ہے جسکی روشنی میں قوم مایوسی بے یقینی بذدلی اور اغیار کی غلامی کی شب دیجور کو پر نور ہالوں میں بدل سکتی ہے۔ حکمران کونسی راہ اپناتے ہیں؟ قوم بڑی حیرت سے نتائج کا انتظار کررہی ہے
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team