اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت24-03-2010

  ائینی پیکج میں بددیانتی کی شق

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

پاکستان کی62 سالہ ائینی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارے خون کے منجمد لوتھڑوں کی طرح بے حس ہوجانیوالے ضمیر میًٰں ندامت کا تلاطم موجیں مارنے لگتا ہے۔ جرنیلوں نے ہر دور میں اپنی کرسی کو محفوظ و مامون بنانے کے لئے کبھی خود ساختہ ائین گھڑ لئے اور کبھی ترامیم کے نام پر ائینی مسودے میں امرانہ پیوند کاریاں کیں کہ ائین پاکستان کی شکل بیوہ کی اجڑی ہوئی کلائی کی طرح اجڑ گئی۔ روشن خیالی کے خذاں رسیدہ دور میںمشرف نے بھی سابقہ ڈکٹیٹرز کی روایات کو چوم کر ائین کا حلیہ بگاڑ دیا۔مشرفی گماشتوں نے 17 ترمیم کی اڑ میں ساری پاور مشرف کو سونپ دی۔ہر دور کے جرنیلوں شاہوں، سمراٹوں اور عالم پناہوں نے ائین کو جب دیکھا خشک گھاس کی طرح دیکھا اور جب چاہا اسے روند دیا۔ ائین کے تقدس کو جس نے پامال کیا وہ رسوا ہوا۔ویسے جرنیلوں کو گھاس کے میدانوں میں اختیارات کے گھوڑے دوڑا نے سے فرصت نہیں ملتی کہ وہ عبرت کی تاریخ پر غور کرسکیں۔کہ موجودہ حکومت کو ترامیم شدہ ائین ورثے میں ملا اور صدر مملکت نے کہا تھا کہ وہ ائین کے دامن پر بدنما داغ کی طرح موجود17 ترمیم کی سیاہی کے دھبوں کو دھو ڈالیں گے۔1973 کے ائین کی پیوندکاریوں کو ختم کرنے اور حقیقی روپ کی ساخت و پرداخت کے لئے ائینی کمیٹی بنائی گئیَ۔ سنیٹر رضا ربانی کی شہسواری میں کام کرنے والی ائینی کمیٹی نے ائینی ترامیم کا متن تیار کرلیا ہے جو مارچ میں قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اس ارٹیکل کی اشاعت سے قبل ائینی پیکج شرف قبولیت حاصل کرچکا ہو۔ اندیشہ تھا کہ کمیٹی بروقت کام مکمل نہیں کرے گی تاہم ایسا ہوچکا ہے ۔ سیاسی اور ائینی ماہرین کا کسی نقطے پر متفق ہونا خال خال ہی دکھائی دیا کرتا ہے مگر کمیٹی کے تمام ممبران کی جانفشانی سے یہ الجھن بھی سلجھا دی گئی۔پوری قوم ائینی کمیٹی کے تمام خوشہ چینوں کو مبارکباد پیش کرتی ہے۔ کمیٹی نے تمام متنازعہ امور خوش اسلوبی سے طے کئے ہیں۔ خاکی سمراٹوں نے 1973کے ائین کا جو حلیہ بگاڑا تھا کمیٹی نے اسکی سرجری کرکے اسکے گم کردہ حسن کوبحال کردیا ہے۔ حکومتی حلیفANP کئی دہائیوں سے سرحد کا نام پختون خواہ رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی ارہی ہے۔ائینی کمیٹی صوبہ سرحد کے نئے نام پر متفق نہ ہوسکی۔ پیکج کا مسودہ پہلے وزارت قانون کے افلاطونوں کو مشاہدے کے لئے بھیجا جائے گا جہاں اسکی تراش و خراش کے بعد یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی نے اپنے اپکو صرف 17 ویںترمیم کے خول میں بند نہیں رکھا بلکہ انہوں نے سیاسی و جمہوری پائیداری کے لئے 50 کے قریب ترامیم کی تجاویز تیار کی ہیں۔ائینی کمیٹی نے ائین میں درج وزیراعظم کے اختیارات ایوان صدر سے پرائم منسٹر کو منتقل کرنے کی سفارش کی ہے۔mqm نے مطالبہ کیا تھا کہ مشترکہ مفادات کو نسل کو مذید فعال بنایا جائے اور اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔کمیٹی کے تمام رکن و رکین نے متحدہ کے مطالبے کو سوئیکار کرلیا۔ ممبران نے متفقہ طور پر صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختیاری اور انتظامی و مالی اختیارات دینے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے ایک طرف تینوں سروسز چیفس کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کے سپرد کرنے کی تجاویز کو شرف قبولیت بخشا تو دوسری جانب پارلیمنٹ پر برطرفی 58 ٹو بی کی لٹکنے والی تلوار کو ہمیشہ کے لئے ماضی کے قبرستان میں دفن کرنے کی تجویز تیار کر لی ہے۔ نئی تجاویز کی رو سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم کو دیا جارہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت تین تا پانچ سال ہوگی۔ ضمنی الیکشن میں صدر اور گورنرز کے اختیارات پر غور و خوض کیا گیا اور یہ تجویز ڈھونڈی گئی کہ صدر کو پابند بنایا جائے کہ وہ نگران حکومت کی تشکیل کے وقت اپوزیشن لیڈر اور وزیراعظم سے مشاورت کریں۔ صدر کی طرح صوبوں کے گورنرز بھی اپوزیشن اور وزرائے اعلی کے ساتھ باہمی مشاورت کرنے کا پابند ہوگا۔ ائینی کمیٹی کی مرتب کردہ تمام تجاویز و شفارشات کو اٹھارویں ترامیمی بل2010 کی شکل میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ اصل ائین کی موجودگی میں صدر اور گورنرز قومی و صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل نہیں کرسکتے۔یہ اس وقت ممکن ہے جب وزیراعظم صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دیگا۔ تب صدر اسمبلی توڑنے کا مجاز ہوگا۔ کمیٹی نے الیکشن کمشنر کے تقرر کے لئے ائین کے ارٹیکل 218 اور214 کا دور بینی و دوراندیشی سے جائزہ لیا اور پھر نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے مابین 2006 میں ہونے والے معاہدے میثاق جمہوریت میں طے کردہ ضوابط کی بنیادوں پر الیکشن کمشنر کی پو سٹنگ کی جائیگی۔ کمیٹی کے نمائندگان نے ارٹیکل240 کا باریک بینی سے جائزہ لیکر سفارش کی ہے کہ صوبوں کو انکے کوٹے کے مطابق ملازمتیں دی جائیں۔ ملک و قوم کی بہتری کے لئے تمام اراکین نے اپنی اپنی بساط کے مطابق تجاویز دیں جو منظوری کے بعد خوشنما خوشبو کی طرح مہکتی رہیں گی۔ یہی وہ مسودہ ہے جس پر ہماری سیاسی جمہوری اور انتظامی عمارت کا ہاوس کھڑا کیا جائے گا۔ امریت زدہ ائین کی بحالی قوم کے نئے سفر کی نوید ہے۔ پوری دنیا کی نظریں ا18ترمیم کی پیدائش پر ٹکی ہوئی ہیں جو ایک طرف ڈکٹیٹرز کا راہ روک دے گی تو دوسری طرف ریاست میں جمہوریت کی نئی کونپلیں کھل اٹھیں گی۔ ائینی پیکج کی صد فیصد کامیابی کی راہ میںپختون خواہ کا نام رکاوٹ بن رہا ہے۔ صوبہ سرحد کے تبدیل شدہ نام پختون خواہ پر مختلف سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کررہی ہیں۔پختون خواہ کے مخالفین کے پیٹ میں ا مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔سندھ بلوچستان جو سندھیوں اور بلوچوں کی شناخت کے ائینہ دار ہیں انکے ناموں پر تو کبھی اودھم نہیں منایا جاتا؟پختون خواہ پشتونوں کی صدیوں پرانی دل افریں تہذیب و تمدن کا کا عکاس ہے۔ جمہور دشمن عناصر کی کتربیونت سے پختون خواہ کے نام پر ائینی ڈیڈلاک پیدا ہوچکا ہے۔ہوسکتا ہے کالم کی اشاعت سے پہلے یہ تنازہ سلجھ جائے مگر پشتو ن خواہ کے متصادم و متضاد خیالات رکھنے والے لال بجھکڑوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی بجائے مردے کا ڈھانچہ بن جانیوالے ائین میں جمہوریت کی سانسیں بحال کر کے توانا بنانے کی سعی کرنی چاہیے۔ پاکستان میں نئی تاریخ مرتب ہونے جارہی ہے ۔کمیٹی نے این ایف سی ایوارڈ کو قابل عمل بنانے کے لئے ہر تین ماہ بعد مانیٹرنگ کی تجویز پیش کردی ہے۔ کمیٹی نے ائین میں پہلے سے موجود کئی دفعات کو برقرار رکھا ہے۔صدر وزیراعظم اور حکومتی اصحاب کہف کو فوجداری مقدمات میں جو سہولتیں اور استحقاق میسر ہے وہ قائم و دائم رہے گا۔ پشتون خواہ ملی پارٹی کے سینیٹر رحیم مندوخیل نے ائینی پیکج کی تیاری کے دوران ازاد پختون صوبے کا مطالبہ کیا تھا۔مندو خیل نے بلوچستان میں نئے پشتون صوبے کا مطالبہ کیا تھا۔ لوئر پنجاب جسے سرائیکی وسیب کہا جاتا ہے میں مندوخیل کے مطالبے کو پشتونوں کا ائینی حق سمجھ کر اسکی پذیرائی کی جارہی ہے۔ائینی پیکج کو قوم کے لئے نیک شگون ہے تاہم ائینی کمیٹی نے جنوبی پنجاب کو نئے صوبائی ہیڈ کوارٹر کا درجہ دینے کے اہم ترین نقطے کو نظر انداز کرکے بدیانتی کا ثبوت دیا ہے۔اگر سندھیوں کے لئے سندھ بلوچوں کے لئے بلوچستان پشتونوں کے لئے سرحد اور پنجابیوں کے لئے پنجاب کے صوبائی ہیڈ کوارٹر موجود ہیں ےو پھر 6 کروڑ سرائیکیوں کے لئے سرائیکی صوبے کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے ؟ماضی میں بہاولپور> <1952 تک ازاد ریاست تھی ۔ ملتان رنجیت سنگھ دور میںصو بہ تھا ۔دونوں کو ختم کرکے اہل وسیب کے بنیادی انسانی حقوق سلب کئے گئے۔ پی پی سرائیکی وسیب کی مقبول ترین جماعت ہے۔کروڑوں سرائیکی صدر و وزیراعظم اور ائینی کمیٹی سے دست بستہ عرض کرتے ہیں کہ لوئر پنجاب کو صوبائی ہیڈ کوارٹر بنایا جائے اگر اس معاملے میں اغماض برتا گیا تو پھر رحیم یار خان سے لیکر کوٹ ادو اور راجن پور سے میانوالی تک بسے ہوئے پانچ کروڑ سرائیکی وقت انے پر وہی کریں گے جو بنگالیوں نے1971 میں کیا تھا۔ بحرف اخر یہ اعزاز پی پی پی کو جاتا ہے کہ وہ نہ صرف ائین پاکستان کی موجد ہے بلکہ پی پی ہی مسخ شدہ ائین کو ائینی پیکج سے دوبارہ دل اویز بنانے کا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team