اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت24-03-2010

 ۔1915 کا مقدمہ2010 میں کیوں؟

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ترکی امت مسلمہ کا وہ واحد خطہ تھا جس نے استعماری اقاوں کی خوشی کے لئے روشن خیالی کو ترقی و ترویج دینے مغربی تہذیب کی ترجمانی اور یورپی افکار کی تبلیغ کے لئے اسلامی روایات کو خوب نقصان پہنچایا۔ترکی نے یورپی یونین کی چھتر چھاوں تلے پناہ گزین ہونے کے لئے کئی پاپڑ بیلے۔انقرہ جو کبھی صلیبیت و یہودیت کا پرزور مخالف تھا نے 50 کی دہائی میں ا سرائیل کے فاسق وجود کو تسلیم کرلیا۔ترکی امریکہ کا ناٹو ساتھی ہے۔خطے میں انقرہ واحد ملک تھا جو کبھی امریکی مفادات کا بڑا دربان تھا مگر سچ ےو یہ ہے کہ مغرب نے تمام معیارات پر پورا اترنے کے باوجود انقرہ کو مسلمان ملک کی پاداش میںیورپی یونین کا ممبر نہ بنایا۔یوں ترک قوم کو یقین ہوگیا کہ مغرب کسی صورت میں انکا خیرخواہ نہیں۔درویش کا قول ہے کہ تاریخ کا دھاراہر صدی کے بعد اپنا رخ تبدیل کرتا ہے۔ترک قوم نے طیب اردگان کے وزیراعظم بنتے ہی سلطنت عثمانیہ کی گم شدہ اسلامی میراث کو دوبارہ تلاش کرنے کی ٹھان لی۔ فطرت نے اہل ترک کو جسٹس پارٹی کے عبداللہ گل اور طیب اردگان کی شکل میں مسیحا ودیعت کئے۔ عبداللہ گل ترکی کے صدر اور طیب اردگان وزیراعظم ہیں جنہیں اسلام پسند سمجھا جاتا ہے۔دونوں کی انتخابی فتح اس امر کی دلالت کرتی ہے کہ ترک قوم دین محمدی کے ساتھ رابطہ جوڑنے کا تہیہ کرچکی ہے۔ ترک قائدین نے مغرب سے دامن چھڑوا کر مسلم بلاک کے اتحاد و اتفاق کے لئے مخلصانہ کاوشیں شروع کر رکھی ہیں۔امت مسلمہ میں ترکی کے قائدانہ کردار کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے تاہم یہود و ہنود کے لئے انقرہ کی پرو مسلم پالیسیاں قابل نفریں ہیں۔امریکہ اور ترکی کے مابین رنجشیں اور دوریاں بڑھتی جارہی ہیں جسکا چشم کشا ثبوت یہ ہے کہ ترکی نے واشنگٹن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ۔ امریکن کانگرس نے 4مارچ کو پہلی جنگ عظیم کے بعد ارمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے الزام میں انقرہ کے خلاف مذمتی قرار داد پاس کی ہے۔ صدر اوبامہ نے اپیل کی ہے کہ ترک سفیر کو واپس بھیجا جائے مگر ترکی نے شرط عائد کردی ہے کہ جب تک قرارداد کو ایوان میں جانے سے نہیں روکا جاتا تب تک ترک سفیر برائے امریکہ ندارد۔ مسلم دنیا میں ایک جانب ترکی کا قد کاٹھ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف مسلم ممالک ترک قائدین کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ سعودی عرب کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ ہے جو ان مسلم رہنماوں کو دیا جاتا ہے جس نے کسی نہ کسی حوالے سے دین رسول کی خدمت کی ہو۔ شاہ عبداللہ نے حال ہی میں طیب اردگان کو تاریخ ساز و پروقار تقریب میں شاہ فیصل ایوارڈ دیا۔ ترکی واحد ملک ہے جو نہ مغرب میں گہرے اثرات کا مالک ہے بلکہ انقرہ اور تہران کے مابین تعلقات کافی خوشگوار بن چکے ہیں۔ عالمی تجزیہ نگاروں نے پیشین گوئی کی ہے کہ ترکی ایسی پوزیشن پر فائز ہوچکا ہے کہ وہ مسلم دنیا کی یکجہتی کے لئے کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ انقرہ پر1915 میں ارمینیائی باشندوں کی نسل کشی کا گند پھینکنے کی سیاہ کاریاں امریکہ کے تعصب کی دلالت کرتی ہیں۔امریکی کانگرس نے 22کے مقابلے میں23 ووٹوں سے مذمتی قرار داد پاس کی ہے۔ طیب اردگان نے قرار داد کو پیروڈی کہہ کر مسترد کردیا۔ترک وزیراعظم نے ٹی وی چینل پر تبصرہ کیا کہ خارجہ امور کی کمیٹی نے قرار داد منظور کرکے غلط بیانی کا پرچار کیا ہے۔طیب اردگان نے اپنے عزم کو دہرایا کہ ایسی لغویات بھری قراردادوں کے زریعے ہمیں جھکانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ ترکی اس کامیڈی کے زریعے اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور نہیں ہوسکتا۔دوسری جانب کانگرس مینوں نے اوبامہ سے درخواست کی کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی نسل کشی کے حوالے سے زیادہ تفہیم کی وضاحت کرتی ہو۔ ترکی نے النرک نام کا اڈہ امریکی فورسز کو دے رکھا ہے۔ امریکہ نے معاندانہ منافقت نہ چھوڑی تو ایک طرف ترک فورسز افغانستان چھوڑ دیں گی تو دوسری طرف ترکی امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات پر نظر ثانی کرے گا اور امریکہ سے ہوائی اڈہ واپس لیا جائے گا۔ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس پارٹی کے رہنماsaut knlk نے کھری کھری سناتے ہوئے وارننگ دی کہ اگر قرارداد دوسرے ایوان میں پیش کی گئی تو نہایت رنجیدہ و رنجوڑنتائج برامد ہونگے۔امریکہ اور ترکی کے مابین تعلقات نچلی سطح پر جاسکتے ہیں۔ساوت کنلک نے کہا کہ امریکہ کو نہ صرف ترکی میں نقصان اٹھانا پڑے گا بلکہ مصر پاکستان فلسطین اور عرب خطے میں اسکے مفادات کو زک پہنچے گی۔ ترکی کا نسل کشی کے متعلق موقف سیدھا سادھا ہے امریکہ کی صہیونی لابی ترک قوم کو بدنام کرنے کے لئے ایسی سازشیں بن رہی ہیں۔ترک وزیرخارجہ احمت دانگلو کا نقطہ نظر ہے کہ ارمینیائی باشندے ترک افواج کی بجائے کسی مہلک مرض کا نشانہ بنے تھے۔ امریکہ کے بعد سویڈن دوسرا ملک ہے جسکی پارلیمنٹ نے 15لاکھ ارمینیائی باشندوں کی نسل کشی پر تہران کے خلاف مذمتی قرار داد130 اور132 کے تناسب سے منظور کرلی۔ 88 ممبران غیر حاظر تھے۔یعنی ایوان کی بڑی تعداد نے حکومتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ طیب اردگان نے سویڈن سے بھی ترک سفیر کو واپس بلالیا۔سویڈن میں ترک ایمبیسڈر زرگون نے قرارداد پر اہ و فغاں کرتے ہوئے کہا کہ ترک سویڈش تعلقات مجروح ہوسکتے ہیں۔امریکہ کے بعد سویڈن نے مردے اکھاڑے۔سوال تو یہ ہے کہ مغرب کو ایک صدی قبل ہلاک کئے جانیوالے ارمینیائی باشندوں کی یاد کیوں اور کس لئے تڑپا رہی ہے؟ واشنگٹن کے بعد سویڈش کا طرز عمل پس چلمن امریکی عزائم کو طشت ازبام کرتا ہے۔ صہیونیت کے عالمی جہاں پناہ اور صلبیت کے ثمراٹ اور اسرائیل ایک مخصوص نقطہ نظر سے ترکی کے خلاف کمر بستہ ہوچکے ہیں تاکہ وہ امت مسلمہ کی قیادت نہ کرسکے۔ طیب اردگان نے کردار و گفتار سے ترک قوم کی سائیکی ہی بدل دی۔طیب اردگان نے یہود و ہنود کی غلامی کی بجائے حق کی راہ چن لی ہے۔ترکی جو کبھی اسرائیل نواز تھا نے بیانگ دہل کہا یہودی اسرائیل میں تمام مقامات مقدسہ پر جابرانہ غلبہ ختم کریں یہ مسلمانوں کے ورثے ہیں جن پر یہودیوں کا قبضہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔امریکہ کی فارن افیرز کمیٹی میں ترکی کے خلاف پاس ہونے والی بھونڈی قرارداد دراصل ترکی کے دوٹوک موقف کا رد عمل ہے۔طیب اردگان واشگاف اواز میں کہہ چکے ہیں کہ ہم دنیا کے ہر فورم پر فلسطینی کاز کی حمایت کریں گے۔ ترکی کے خلاف مغرب کے ہتھکنڈے نہ تو حادثاتی واقعات ہیں اور نہ ہی اتفاقی بلکہ نئی اسلام پسند ترک قیادت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ ہی صہیونیوں نے انکی راہ روکنے کا دھندہ شروع کیا تھا۔ قطر میں طیب اردگان اور ہیلری کلنٹن کی ملاقات ہورہی تھی کہ امریکہ اور ترک سفیر گتھم گتھا ہوگئے ۔ امریکی سفیر نے رعونت بھرے انداز میں ترکی کی تکذیب کی تھی۔ امت مسلمہ کو وقت ضائع کئے بغیر ترک حکومت کے خلاف مغرب کی ناشائستہ حرکتوں اور امریکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے طیب اردگان کی اخلاقی و سفارتی حمایت کرے۔ ترکی اپنی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے گریٹر اسرائیل کی راہ روکنے اور ازادی فلسطین کے لئے گوہر مقصود کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔اگر عالم اسلام نیک نیتی سے ترکی کا دستٍ بازو بن جائے تو کوئی امریکی یا یہودی کسی کابل و بغداد پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ارمینیائی باشندوں کے سوگ میں ماتمی قراردادیں پاس کرنے والے مغربی حکمران اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ ہیروشیما و ناگاساکی پر ایٹم بموں کی قیامت صغری میں بے گورونام مرجانے والے30 لاکھ جاپانیوں کی یاد میں کوئی ٹسوے کیوں نہیں بہاتا؟ عراق و کابل میں ناٹو کے بھیڑیوں نے بیس لاکھ معصوم انسانوں کو بارود میں بھسم کردیا۔کیا کوئی امریکی یا سویڈش رکن پارلیمنٹ ایوان میں کوئی قرارداد پیش کرسکتا ہے جو مظلوم عراقیوں و افغانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا طرہ امتیاز بن جائے؟
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team