اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت25-03-2010

 اسٹریٹجک ڈائیلاگ اور ہیلری کی مسکان

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

امریکہ افغانستان کی دلدل میں گردن تک دھنسا ہوا ہے۔پاکستان ہی وہ ملک ہے جو امریکہ کو ایسی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ پاکستان نے امریکن جنگ میں فرنٹ لائنر کا کردار ادا کیا۔فرنٹ لائنر اتحادی کی قربانیوں کا اب تک یہ ثمر نکلا ہے کہ ایک طرف ہمیں انارکی دہشت گردی اور خود کش بمباری کا سامنا ہے تو دوسری طرف مغربی ملک اور امریکہ پاکستانی کاوشوں کو اعتماد کی انکھ سے نہیں دیکھتے۔ تاہم پاکستانی وفد کے حالیہ دورے میں اوبامہ سے لیکر ہیلری کلنٹن تک اور جنرل پیٹریاس سے لیکر رچرڈ ہالبروک تک نے تعلقات کی بہتری کے کئی دلنشین نغمے سنائے۔ امریکہ افغانستان میں اپنے فائنل ہدف کے لئے پاکستان کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔اسی پس منظر میں پاکستان اور امریکہ کے مابین سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا پہلا مرحلہ واشنگٹن میں شروع ہوچکا ہے۔اغاز ہوچکا ہے۔ ان مذاکرات کو اگر افغانستان سے امریکی انخلا کی خواہش کے تناظر میں دیکھا جائے تو تجزیہ نگاروں نے کسی بریک تھرو کی توقع کررہے ہیں جو خطے میں قیام امن کے لئے نادر نسخہ بن سکتا ہے ۔ ڈائیلاگ سے بریک تھرو کی توقعات وابستہ کرنے والوں کو اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کانٹوں کے کھیت میں گلاب و چنبیلی کی اس لگانا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔ تاہم امید پر دنیا قائم ہے۔ڈائیلاگ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ امریکی پاکستان کی تزویراتی تصویر اور امریکیوں کے لئے دی جانیوالی قربانیوں کے پیش نظر مثبت رویوں کا اظہار کر یں۔پاکستان ارمی چیف پرویز کیانی بھی پاکستانی وفد میں شامل ہیں۔وہ امریکی جرنیلوں کو دہشت گردی کو روکنے افواج پاکستان کی کارکردگی خطے کی موجودہ عسکری صورتحال اور مستقبل میں انکے اثرات کے حوالے سے بریفنگ دیں گے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ہیلری کلنٹن کے مابین اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے ایک طرف مسئلہ کشمیر کے منصفانہ تصفئیے کے لئے امریکی حمایت پر زور دیا تو دوسری طرف مخدوم نے اشاروں کنایوں میں توانائی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہر کسی کو توانائی تک رسائی ملنی چاہیے۔ مخدوم کا اشارہ بھارت امریکہ جوہری پاٹنرشپ کی طرف تھا۔ ہیلری نے اسٹریجک ڈائیلاگ کو پاک امریکہ تعلقات کے لئے نیا دن قرار دیا۔بی بی سی کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریجک مذاکرات کا اغاز ہوگیا ہے جس میں فریقین بداعتمادی کا خاتمہ اور تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دے رہے ہیں۔ ہیلری نے کہا کہ امریکہ ان مذاکرات کے انعقاد کا خواہاں تھا۔بات چیت تو پہلے ہی ہوتی رہتی ہے تاہم وزرائے خارجہ کا ڈائیلاگ پہلی مرتبہ ہورہا ہے۔ مذاکرات کا اگلا دور اسلام اباد میں ہوگا۔ ہیلری نے مذاکراتی عمل کے طویل ہونے کا بھاشن دیا۔شاہ محمود قریشی نے جہاں اپنی خدمات کا پھریرہ لہرا کر تعلیم و صحت کے لئے وسائل مہیا کرنے پر زور دیا تو وہاں انہوں نے ہیلری کی توجہ پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کی جانب مبذول کروانے کے لئے اپنی فطانت و زہانت کا بے دریغ استعمال کیا۔ امریکہ میں ایک طرف ہیلری اور مخدوم کے مابین مذاکرات کا پہلا راونڈ شروع ہوچکا ہے تو دوسری طرف پرویز کیا نی اور جنرل پیٹر یاس بھی پینٹاگون میں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹ رہے ہیں۔وائس اف امریکہ کے مطابق دونوں جرنیلوں کے درمیان جوہری معاملات اور سیکیورٹی کے ایشو پر اختلاف پائے گئے۔ رائٹرز کی خبر ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کی تقریب میں شاہ محمود نے کہا کہ ہم مذاکرات کو جلد نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں مگر ہیلری کے جوابی وار سے امریکیوں کے زہنی خلجان کا پتہ چلتا ہے۔ہیلری نے کہا کہ تعلقات کو فروغ ملنا چاہیے تاہم جادو کے ڈنڈے کی توقع نہ کی جائے جو راتوں رات سب کچھ بدل دے اور برسوں پرانی بداعتمادی دور ہوجائے۔ مذاکرات سے قبل پاکستان نے چھپن صفحات پر مشتعمل دستاویز تیار کی تھی جس میں ممکنہ امداد اور تعاون کے لئے شعبوں کی نشان دہی کی تھی۔ رچرڈ ہالبروک نے میڈیا کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ڈائیلاگ کے توسط سے امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔البروک نے کہا کہ ان مذاکرات کا نہ تو بھارت اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔ جنرل پیٹر یاس کے بیان کہ پاکستان کے لئے امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلی ہوچکی ہے ۔امریکہ پاکستان کے ساتھ انکی خواہشات کے مطابق ڈیل کرنا چاہتا ہے۔ پیٹریاس نے کہا کہ وہ انخلا کے بعد کسی صورت میں نہیں چاہیں گے کہ کابل کو دوبارہ طالبان کے چرنوں میں ڈال دیا جائے۔ پاکستان بھارت سے زیادہ افغانستان میں امریکہ کے لئے موزوں ہے۔کابل کی ساری معیشت کا انحصار پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں16لاکھ مہاجرین پناہ گزین ہیں جبکہ4 لاکھ سے زائد پاکستان کے مختلف شہروں میں ضم ہوچکے ہیں۔پاکستان مہاجرین پر سالانہ دو ارب ڈالر خرچ کرتا ہے۔پاکستانی زرائع کے مطابق بھارت اسٹریٹیجک مذاکرات پر راضی نہیں شائد اسی لئے بھارتی بیان باز اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ پاکستان کو بدنام کررہے ہیں۔ نیوز ویک بھارتی پروپگنڈے کا اہم ہتھیار ہے جسکے ایڈیٹر فرید زکریا بھارتی صحافی ہیں۔اس نے نیوز ویک میں کئی ایسے کالم شائع کروائے جو اسٹریٹجک ڈائیلاگ کو ناکام بنانے کا ہتھکنڈہ تھا۔ ہیلری کلنٹن کی دلنشین مسکان کے ساتھ شروع ہونے والے پاک امریکہ ڈائیلاگ میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مراعات کا پیکج دیا جائے گا۔ہماری کشگول میں ڈالرز کی خیرات امداد کے نام پر دی جائیگی۔ پاکستان کے ہر مطالبے پر ہمدردانہ غور کرنے کی خوش گمانیاں دکھائی جائیں گی مگر کچھ نہیں ہوگا۔امریکہ کابل میں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے پاکستان کو سیڑھی بنانا چاہتا ہے۔سامراجی ویسے بھی مشکل اوقات میں لنگور تک کو اپنا دیوتا بنالیتے ہیں۔پاکستان کو سنہری چانس سے فائدہ اٹھا کر امریکہ سے ایک طرف غیر ملکی قرضوں سے گلو خلاصی کروانے کا مطالبہ کرے تو دوسری طرف امریکہ پاکستانی فورسز کوڈرون جہاز دے۔ امریکہ اگر پاکستان کو اپنا دوست سمجھتا ہے تو فاٹا میں پاک فوج کے ساتھ برسرپیکار شدت پسندوں cia اور موساد کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور ڈالرز پر پابندی عائد کرے۔بھارت کی طرح پاکستان اور امریکہ کے درمیان جوہری پارٹنرشپ کا رشتہ قائم کیا جائے۔امریکہ نے ہر دور کے فوجی جرنیل کو سیاسی حکومت پر شب خون مارنے کی اجازت دیتا رہا ہے۔اب امریکہ کو پابند بنایا جائے کہ وہ مستقبل کیں کسی فوجی امر کے ہاتھ مضبوط نہیں کرےگا۔اگر ارباب اختیار نے امریکہ سے یہ مطالبات منظور نہ کروائے تو شاہ محمود اور پاکستان کے حصے میں ہیلری کی مسکان ہی اسکے گی۔ پاکستانی وفد امریکہ پر زور ڈالے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار نبھائے۔امریکہ کو بتا دیا جائے کہ اگر مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاتا تب تک نہ تو جنوبی ایشیا میں امن کا خواب رقص کرسکتا ہے اور نہ ہی کابل میں نیو اوبامہ پالیسی کا ایک فیصد کامیاب ہوگا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team