اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت29-03-2010

فرعونیت کے چہرے پر ازادی و جمہوریت کا نقاب

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

 
امریکہ اپنی جنونیت پر مبنی استعماری اور جنگی پالیسوں اور فرعونیت کی وجہ سے روز بروز ہر شعبہ زندگی میں لاغر ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف نئی سپرپاور چین دنیا و مافیا سے بے نیاز ہوکر عظیم قوم بننے کی راہ پر عمل پیرا ہے۔ وائٹ ہاوس کئی دہائیوں سے چین کی معاشی صنتی اور دفاعی ترقی کے طوفانی جھکڑ کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا ارہا ہے۔ امریکہ کو جان ایف کینڈی کے دور میں پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ چین ہی امریکہ کی سپرپاور کو چیلنج کرسکتا ہے یوں چین کے گرد کھیرا تنگ کرنے کی ریشہ دوانیاں شروع کی گئیں۔ صدر جان ایف کینڈی1960 میں قتل ہوئے تو نائب صدر جانسن وائٹ ہاوس کے تخت نشین ٹھرے۔ جانسن نے چین کو ٹریپ کرنے کے لئے جنوبی اور شمالی ایشیا کے کئی ملکوں کو کھربوں ڈالر دیکر فوجی اڈے قائم کئے۔ مغرب کے معروف تامحقق اور دانشور سٹیفن لینڈ مین نے دی انٹیلی جنس ڈیلی میں شائع ہونے والے مکالمے > غیر قانونی جنگیں< میں لکھا ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی ابادی او ر برق رفتار ترقی سے امریکہ خائف ہوگیا ہے۔ چین کو زچ کرنے کے لئے امریکہ نے خطے کی تمام سامراج مخالف تحریکوں، ازاد روش حکومتوں اور قوم پرست جماعتوں کو کچلنے کی پالیسی بنائی۔1980 کی دہائی میں چین اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ ciaنے جنگ کے شعلے دہکائے۔چین نے میدان مار لیا انڈیا کو حزیمت اٹھانا پڑی۔وائٹ ہاوس نے جنگ کا دائرہ لاوس کمبوڈیا تک پھیلادیا۔جانسن اور نکسن ادوار تاریخ میں بھیانک ترین ادوار کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ اس خونخواری میں30 تا45 لاکھ جنگ کے تپتے تندور میں جل مرگئے۔ زخمیوں کے اعداد و شمار کا ہندسہ مرنے والوں سے کہیں زیادہ تھا۔ خود امریکی دانشوروں نے اسے تاریخ کے بدترین المیے سے تشبیہ دی۔ سٹیفن اسی موضوع پر واشنگٹن کا دوغلا چہرہ بے نقاب کرتے ہیںکہ امریکہ نے1973 میں جنگ بندی کا معاہدہ تو کرلیا تاہم جنگ کے شعلے ا بھڑکتے رہے جب تک دونوں ملکوں نے1975 میں امریکن دیوتاوں کے سامنے سربسجود ہوکر شکست تسلیم نہ کی۔ ریگن کی تخت افروزی سے پہلے ویت نام میں شکست اور کولڈ وار کی شدت میں کمی کے باعث دفاعی بجٹ کم ہوگیا جس پر فوج نواز حلقے سٹپٹا گئے کیونکہ امریکہ کی وار انڈسٹری کی تجارت کا دارو مدار جنگوں دنگوں اور فسادوں میں پنہاںہے۔ وار انڈسٹری اور پینٹاگون کے کمیشن خور جرنیلوں نے cia کے ساتھ ملکر قوم میں جنگی جنون پیدا کرنے کی مہم چلائی۔چند ملکوں پر امریکی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کرنے کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔امریکی قوم کو میڈیا کی شرانگیزیوں نے خوف کا لبادہ پہنا دیا۔یوں جونہی ریگن وائٹ ہاوس میں پہنچے تو دفاعی بجٹ میں کی جانیوالی کٹوتیوں کو ختم اور دفاعی اخراجات میں اضافہ کردیا تاکہ سوویت یونین کا مقابلہ کیا جاسکے۔صہیونی میڈیا اور وائٹ ہاوس کے مکینوں نے سوویت یونین کے خلاف پیر پھیلانے کا طومار باندھا ۔امریکہ نے برزنیف سے لیکر اینڈو پوف تک اور چرننکو سے لیکر گوربا چوف پرحدود دربعے کی وسعت میں اضافے کا الزام لگایا۔ دیوار برلن منہدم ہوئی تو جنگ مخالف امریکی تجزیہ کاروں نے دفاعی بجٹ میں کمی کی اپیلیں کیں جو رائیگاں بن گئیں۔1980 میں جوائنٹ چیف کولن پاول ڈک چینی ہنری کسنجر، سیموئل وینگٹن اور البرٹ ہولس نے سازش تیار کی اور شوشہ چھوڑا کہ بحر روم اور مڈل ایسٹ میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہیں۔ ڈک چینی نے یہ سازش تیار کی ۔ چینی بش دور میں نائب صدر تھے۔اسٹیفن ڈک چینی کے متعلق لکھتا ہے کہ ڈک چینی سرکش اور بااختیار نائب صدر تھا جو بش کو اطلاع کئے بغیر ہی صدارتی احکامات جاری کیا کرتا تھا۔بش کو کانوں کان خبر نہ دی جاتی۔یہ وہ دور تھا جب دفاعی بجٹ میں کٹوتی کی تجاویز زیر غور تھیں۔سابق وزیر دفاعmaknamara نے 50 فیصد کٹوتی کی تجویز دی تھی۔ بل کلنٹن8 سال صدر رہے۔کلنٹن دور میں ایجنسیوں نے امریکہ مخالف ریاستوں پر اقتصادی پابندیوں کو ہوا دی تو دوسری طرف کئی ریاستوں میں باغیانہ تحریکوں کو ڈالروں کے ایندھن سے سلگادیا۔ امریکی وحشت ملاحظہ ہو کہ اس دور میں امریکہ کے مختلف خطوں و ملکوں میں130 فوجی اپریشن جاری تھے۔ کلنٹن دور میں سب سے مہلک ترین بمباری یوگوسلواکیہ پر کی گئی جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ناٹو کا اتحاد جو شمالی اوقیانوس معاہدے کے تحت عمل میں ایا تھا وہ بھی امریکہ کی پشت بانی کررہی تھی۔ امریکن و ناٹو کے عسکری لشکر کی بربریت پر باضمیر امریکی دانشور کانپ اٹھے اور انہوں نے ایسی خونخوار کاروائیوں کو انسانیت کے قتل کا نام دیا۔بش جونیر کا سارا دور جنگوں کی نذر ہوگیا۔بش کو امریکی تاریخ کے ناکام فاسق و فاجر صدر کے اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ نائن الیون سے پہلے مڈل ایسٹ میں جنگ شروع کرنے کا پلان فائنل ہوچکا تھا۔فرضی واقعات کا سہارا لیکر کئی دہشتگردوں کا شوشہ چھوڑا گیا۔تہذیبوں کے تصادم کی تھیوری پیش کی گئی۔ مسلمانوں اور اسلام کے متعلق دہشت گردی کا ہوا دکھا کر امریکیوں کو خوف زدہ کیا جاتا رہا تاکہ انہیں کچلا جاسکے۔ فلسطینیوں کی تحریک حریت کو دہشت گردی سے منسوب کردیا۔امریکہ نے ایک طرف عراق کی سرپرستی کرکے ایران و عراق جنگ شروع کروائی تو دوسری طرف سابق وزیرخارجہ میڈم البرائیٹ نے صدام حسین کو ہلہ شیری دی کہ وہ کویت پر قبضہ کرلے۔صدام وائٹ ہاوس کے جال میں جکڑا گیا ۔ امریکہ نے کویت کو ازاد کروانے کا جھانسہ دیا اور امریکی فورسز اپنے لاو لشکر سمیت کویت میں وارد ہوئیں۔یوں امریکہ کو خطے میں پناہ گزین ہونے کا چانس مل گیا۔ امریکہ نے پہلی خلیجی جنگ شروع کی ۔ سٹیفن لکھتا ہے کہ القاعدہ کے نام پر امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور جنگی اخراجات کے لئے عراق کے تیل کو باپ کی جاگیر سمجھ کر لوٹا گیا۔ارمز ر یسورس سنٹر کے ماہر کہتے ہیں کہ جنگی اخراجات میں اضافے کے لئے جنگ کے خطرے اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی اڑ لی جاتی ہے۔ نو دوگیارہ کی شکل میں امریکہ کو جنگوں کے لئے ٹھوس وجہ مل گئی۔یوں امریکی تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی بجٹ مختص کیا گیا۔ عراق و افغانستان کی بہیمانہ جنگوں کے دوران دفاعی بجٹ کی گنگا میں وار انڈسٹری اور جنگ باز دیوانوں اور جرنیلوںنے جی بھر اشنان کیا۔ سیکنڈ ورلڈ وار کے بعد امریکہ نے دنیا کے جس ملک پر جارہیت کی وہ امریکہ کے خلاف جنگ تو دور کی بات ہے ایسی سوچ سوچنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے تھے۔ ان جنگوں میں امریکی فورسز پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات عائد ہوئے ۔امریکی مورخedward hurman کہتے ہیں کہ امریکہ اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی کررہا ہے اور امریکہ جارہیت کے بزنس میں ملوث ہوچکا ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ امریکہ قتل انسانیت، جارہیت کو ازادی اور جمہوریت کی بقا کا نام دیتا ہے۔امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کا منشور لے کر صدر منتخب ہونے والے سیاہ فام صدر اوبامہ بھی بش کی راہ پر گامزن ہیں۔ اڈورڈ ہرمین نے درست کہا ہے کہ امریکہ جارہیت اور جنگی جنون کا دھندہ کررہا ہے۔امریکہ خلیج اور سنٹرل ایشیا کی ائل انڈسٹری تک رسائی اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو سوئیکار کرنے کے لئے خون مسلم بہارہا ہے۔ کمزوروں کو کچلنا، دوسروں کے وسائل کو لوٹنا شرف انسانیت کی دھجیاں بکھیرنا، وار انڈسٹری کی خوشحالی کے لئے روئے ارض کے ہرکونے پر شب خون مارنا اور سامراجیت و استعماریت کو فروغ دینا امریکیوں کی نس نس میں شامل ہے۔دنیا بھر کے اربوں کروڑوں امن پسند شہری جب تک عالمی سامراج کو ٹھکانے لگانے کے لئے اتفاق و یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرتے تب تک امریکی چالبازیاں اقوام عالم کو جنگوں اور دنگوں کے خون ریز تحائف دیتی رہیں گی۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team