اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت29-03-2010

عرب لیگ اور او ائی سی فریب کا سرکس

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

عالم عرب کی سلامتی اور عرب خطے کی خوشحالی و ہریالی اور عالمی مسائل پرمتفقہ پالیسیوں کی تشکیل اور باہمی اختلافات کی سلجھن کے لئے قائم کی جانیوالی عرب لیگ کا22 واں اجلاس لیبیا میں منعقد ہوا۔ یہ اجلاس دو دن جاری رہا اور ممبر ممالک کے وفود کے سربراہوں نے سیر حاصل گفتگو کی۔ اجلاس کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا وہ ان نکات کو مترشح کرتا ہے۔ہم مشرق وسطی کو ایٹمی اسلحے سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔اسرائیل کے ایٹمی زخائر کو بین الاقوامی نگرانی میں دیا جائے۔اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کا قبضہ چھوڑ دے۔فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو فوری طور پر روک دیا جائے۔ہم وائٹ ہاوس کی اسرائیل نواز پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔امت مسلمہ کے ڈیڈھ ارب زخم خوردہ مسلمان ہر سال عرب لیگ اور oICکے ٹھاٹھ باٹھ سے منعقد ہونے والے اجلاسوں کی طرف للچائی اور ملتجانیہ نظروں سے دیکھتے ہیں کہ شائد اس دفعہ مسلم حکمرانوں شہنشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے مردہ ضمیروں میں خود حمیتی اور خود داری کی بجلیاں دوڑ جائیں اور امت مسلمہ یک جان دو قالب میں ڈھل کر سامراجی قوتوں کو پاش پاش کردے مگر سچ ےو یہ ہے کہ مسلم امہ کی نمائندگی کی دعویدار تنظیموں میں چاہے عرب لیگ ہو یا OICکے حکمران امہ کی یکجہتی و اتفاق کے سبز باغ دکھانے کے لئے گلے پھاڑ پھاڑ کر خوشنما دعووں کا لنڈا بازار سجاتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کے مسلمانوں پر روا رکھے جانیوالے نار وا سلوک کی زور شور سے مذمت کرتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ جونہی اجلاس ختم ہوتا ہے سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔OIC اورعرب لیگ کی کانفرنسوں کے سامنے اگر گفتند شنیتند اور برخاستند لکھ دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ عرب لیگ کے حالیہ جلسے کی روداد پر تبصرہ کرنے سے پہلے عرب لیگ کے ماضی کا مشاہدہ کرنا موضوع کو سمجھنے میں ممدون ثابت ہوگا۔ عرب لیگ22 مارچ1945 میں معرض وجود میں ائی۔ عرب لیگ مڈل ایسٹ اور افریقن مسلم ریاستوں جنکی مجموعی تعداد 22 ہے کا ملغوبہ ہے۔ عرب لیگ کی تاریخ پیدائش پر صرف چھ ملکوں نے اکٹھے ہوکر خوشیاں منائی تھیں جن میں مصر، سعودی عرب ، شام، لبنان عراق شامل ہیں۔عرب لیگ کی پیدائش قاہرہ میں ہوئی تھی۔ عرب لیگ کا منشور ممبران کے درمیان خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا احیا ، باہمی اختلافات کو گفت و شنید سے طے کرنا اور ممبر ریاستوں پر انے والے صدموں کا ملکر مقابلہ کرنا ۔ عرب لیگ کی چھتر چھاوں تلے پناہ گزین ریاستوں کے کلچر۔ سیاست، اکنامکس اور تہذیب و تمدن کو پروموٹ کرنا بھی منشور کی اہم شق تھی تاکہ عرب اور افریقن خطے کے مسلمان ایک دوسرے کے قریب اسکیں۔ عرب لیگ کے تخلیق کاروں نے ایک فورم بھی ترتیب دیا تاکہ ایک طرف ممبر ملکوں کے مسائل کو باہمی مشاورت سے حل کیا جائے ۔ اور دوسری طرف عالمی سطح پر رونما ہونے والے اہم ترین و سنگین واقعات و حاثات پر متفقہ پالیسی ترتیب دی جاسکے۔1945 میں چھ ملکوں کے اتحاد سے وجود میں انے والی عرب لیگ کے ممبران کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور عہد حاظرہ میں عرب لیگ بائیس کا مجموعہ ہے۔ لیگ کے ممبران کی تاریخ یوں ہے۔یمن5 مئی1945، لیبیا مارچ1953، جنوری1956 میں سوڈان، اکتوبر1958 کو مراکش اورتیونس ،جولائی1961 کویت، اگست1962 میں الجیریا ، جون1972 میںUAE ستمبر1971 میں بحرین اور قطر ستمبر1971 عمان نومبر1973 کو موریطانیہ، فروری1974 میں صومالیہ ستمبر1976 فلسطین۔اریٹریا2003 وینزویلا2006 اور انڈیا کو2007 میں عرب لیگ کے اجلاسوں میں بطور مبصر شامل ہونے کی اجازت دی گئی۔ مصر نے عرب اسرائیل جنگ میں ایک طرف یہودیوں کی پشت بانی کرکے امہ کے دل کو چیر کر رکھ دیا تو دوسری طرف مصری بادشاہوں نے امت مسلمہ کے جذبات میں اسرائیل کو تسلیم کرکے خنجر گھونپا۔اس کارنامے پر1979 میں مصر کی رکنیت منسوخ کردی گئی۔ عرب لیگ کا ہیڈ کوارٹر قاہرہ میں تھا جو1987 میں تیونس میں شفٹ ہوگیا۔ عرب لیگ کے تھانیداروں نے1989 میں مصر کو دوبارہ سینے سے لگا لیا۔یوں ہیڈ کوارٹر دوبارہ مصر میں شفٹ ہوگیا۔ عرب لیگ کے وزیروں کے اجلاس تو گاہے بگاہے منعقد ہوتے رہتے ہیں تاہم اب تک عرب لیگ کے21 سربراہ اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔22 واں اجلاس17 اور 18 ماچ کو لیبیا میں ارگنائز کیا گیا جس میں ہر پلیٹ فارم پریہودیت و صلیبیت کے منہ پر زور دار طمانچے رسید کرنے والے ترک وزیراعظم طیب اردگان اور اٹلی کے وزیراعظم برنسکولی اورunoکے سرخیل بانکی مون نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ قطر کے امیر شیخ احمد بن خلیفہ ثانی نے تجویز دی کہ عرب لیگ کی قیادت کے مابین روابط کو مربوط بنانے کے لئے کمیٹی بنائی جائے۔ لیبیائی نمائندے نے پر عزم لہجے میں اپیل کی کہ یہ باتوں کا وقت نہیں بلکہ عملی اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ بانکی مون نے یہودی بستیوں پر تنقید کرتے ہوئے تل ایب پر زور دیا کہ تعمیر روک دی جائے۔ لیگ کے سیکریٹری عمر موسی نے اعلا میہ جاری کیا کہ اسرائیل بستیوں کی تعمیر کو روک دے۔مڈل ایسٹ کو جوہری تباہ کاریوں سے مامون بنانے کے لئے اسرائیل کے جوہری پروگرام کو عالمی ایجنسی کی تحویل میں دیا جائے۔ عمر موسی نے اسرائیل نواز پالیسیوںپر وائٹ ہاوس کو کھرے کھرے کوسنے سنائے۔ عمر موسی نے دمشق2008 میں اسرائیل کو تنبیہ کی تھی کہ مشرق وسطی میں قیام امن کے لئے ازاد فلسطینی ریاست لازم ہوچکی ہے۔ اسرائیل یہودی اباد کاروں کی شرپسندی سے امن مذاکرات کی تذلیل کررہا ہے۔ عرب لیگ نے ایک قرارداد میں یہ کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے رویہ نہ بدلا تو نتائج گھمبیر ہوسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ استعماری ممالک مڈل ایسٹ میں اسرائیل کی بالادستی چاہتے ہیں۔امریکہ اور یورپی ممالک نہیں چاہتے کہ مسئلہ فلسطین حل ہو۔ مغربی ایجنسیوں کو ٹاسک سونپا گیا ہے کہ امت مسلمہ بالخصوص عرب شہنشاہوں کو متفق نہ ہونے دیا جائے تاکہ انکے مقاصد و مطالب پورے ہوتے رہیں۔ اسرائیل نے فلسطین پر پچھلی چھ دہائیوں سے ظلم و جبر کی خونخواری نافذ کررکھی ہے مگر انسانیت کے نام نہاد نام لیوا خاموش ہیں۔اگر دفاع میں فلسطینی ایک یہودی سورما کو ہلاک کردیں تو سارا مغرب چیخ اٹھتا ہے اور اسرائیلی گدھ معصوم فلسطینیوں پر قہر کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں۔مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ہر علاقے میں یہود و ہنود نے شورش برپا کررکھی ہے۔ بغداد کابل کوسوو بوسنیا میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں عراق میں اجتماعی قبر دریافت ہوئی جہاں چودہ تشدد شدہ عراقی دفنائے گئے تھے۔ افغان علاقے دشت لیلی میں ہزاروں قبروں میں ہزاروں تشدد شدہ لاشیں عالمی ضمیر پر طمانچہ رسید کررہی ہیں۔ یہ فیصلہ کون کریگا کہ دہشت گرد مسلمان ہیں یا اجتماعی قبروں کے معمار گورے فوجی؟ تاریخ ظالموں اور مجبوروں کی درجہ بندی انصاف کے تقاضوں کی روشنی میں کرتی ہے۔فتح مکہ اور صلاح الدین ایوبی کی معیت میں بیت المقدس کی ازادی کے وقت مسلمان فاتحین نے عورتوں بچوں بوڑھوں کو نہ صرف معاف کردیا بلکہ مسلم عقابوں نے غیر مسلموں صہیونیوں کو انصاف مہیا کیا۔ اسکے برعکس1492 میں سپین میں اسلامی سلطنت کا سقوط ہوا تو تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا۔ان میں سے تیس ہزار کو سزائے موت اور بارہ ہزار کو زندہ جلادیا گیا۔دیگر کو زبردستی عیسائیت قبول کرنے کا حکم دیا۔ عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عمر موسی یا عرب شہنشاہ چاہیے اسرائیل کو جتنی تنبیہ کرتے رہیں مسلم حکمران سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کے لئے چاہیے امریکی عزائم پر تنقید کے چابک برساتے رہیں کچھ تبدیل نہیں ہوسکتا۔امت مسلمہ کے تمام حکمران جب تک اپنے دنیاوی دیوتا امریکہ کی غلامی سے باز نہیں اتے جب تک پوری امت مسلمہ مسلم یونین کے پلیٹ فارم پر یکسو نہیں ہوتی۔ جب تک ستاون مسلم ریاستوں کی ساری افواج نیٹو کی طرح مسلم جوئنٹ فورس کا روپ دھار کر افکار اسلام کی رو سے یہود و ہنود کے خلاف جہاد خدا کا نعرہ بلند نہیں کرتی اور جب تک امہ نفاق نسلی و گروہی دہشت گردی کو خدا حافظ نہیں کہتی جب تک مسلم حکمران جہادی تنظیموں پر امریکہ کی خوشی کے لئے شدت پسندوں کا لیبل چپکانے اور پھر انہی مجاہدین کے خلاف عسکری کاروائیوں کا سلسلہ ختم نہیں کرتے جب تک عرب لیگ اور او ائی سی خوش کن اعلانات کی بجائے عملی اقدامات کے لئے ٹھوس اقدامات کی منصوبہ بندی نہیں کرتیں تو تب تک سامراجی بھیڑئیے بے گناہ مسلمانوں کی بوٹیاں بھنبھوڑتے رہیں گے۔عراق میں کھوپڑیوں کے مینار تعمیر ہوتے رہیں گے اور دشت لیلی سے لیکر خیبر تک اور فلسطین سے لبنان تک مسلمانوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہوتی رہیں گی۔ امت مسلمہ کو اب یا کبھی نہیں کے فارمولے اور شہدا کربلا حضرت امام حسین کے مقولے کی روشنی میں سامراجیوں کے سامنے سینہ سپر نہیں بنتی تب تک کسی بہتری کی توقع کرنا عبث ہوگا۔امام نے کہا تھا ظالم کی ظلمت حد سے بڑھ گئی۔برائی ہر سو پھیل چکی۔یذیذیت کا دور دورہ ہے انصاف سچ و حق کی جیت کے لئے ہر مسلمان کو باہر انا چاہیے کیونکہ ظالموں کے خلاف لڑنے کا درست وقت اچکا ہے۔۔ویسے روئے ارض کے تمام مسلمان عرب لیگ اور اوائی سی کے بانجھ پن کو سلام پیش کرتے ہیں۔اگر مستقبل میں ہمارے مسیحا ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر لیگ اور اوائی سی کے اجلاسوں میں رونق افروز ہوں تو ہمارے دلوں کو ٹھنڈک کا تحفہ مل سکتا ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team