اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت02-04-2010

 اوبامہ کا دورہ کابل بہادری کی داستان شرم

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

امریکی صدر باراک حسین اوبامہ نے پچھلے اتوار کو کابل کا مختصر ترین دورہ کیا جو پانچ گھنٹے پر محیط تھا۔ اوبامہ کا یہ دورہ انتہائی خفیہ تھا۔کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔اوبامہ انتخابی مہم کے دوران یہاں دن کی جھلملاتی روشنیوں میں کشاں کشاں ائے تھے مگر اب سب کچھ الٹ پلٹ تھا۔وہ رات کی تاریکیوں میں بدنام زمانہ بگرام ایر بیس پر وارد ہوئے اور پھر روشنیوں کے پھوٹنے سے پہلے وہ پیا گھر سدھا رگئے۔ بگرام ایربیس حریت پسندوں پر چنگیزی مظالم ڈھانے کی پاداش میں افغانستان کا گوانتانا موبے کہلاتا ہے۔اندھی کی قاتل لہروں کی طرح انے اور طوفانی بگولوں کی رفتار سے واپس جانیوالے اوبامہ نے ایربیس پر امریکی فوجیوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔کچھ کے ساتھ جگت بازی کی۔اوبامہ اور کرزئی کے مابین صرف بیس تا پچیس منٹ ملاقات نوش کی۔ اوبامہ کی امد پربگرام ایر بیس پر ڈھائی ہزار فوجیوں نے سیکیورٹی کے فرائض انجام دئیے۔ اب سوال تو یہ ہے اوبامہ کی امد کا کیا مقصد تھا کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہے؟ کیا امریکی فورسز کا انخلا 2011تک پوارا ہوجائے گا؟ اوبامہ نے حال ہی میں امریکہ میں منعقد ہونے والے پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کے فوری بعد کابل کا دورہ کیا اور یہی وہ نقطہ ہے جو سفارتی تجزیہ نگاروں کے ہاں قابل بحث بنا ہوا ہے؟ صدر کے دورے کو دو موضوعات کے حوالے سے پر کھا جاسکتا ہے۔اول اوبامہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں ایسی اصطلاحات نافذ ہوں کہ افغان نیشنل فورس انخلا کے بعد اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دے۔ شائد اوبامہ نے کرزئی کو جو لیکچر دیا اور جن پندو نصائح کی تبلیغ کی وہ پہلے موضوع کی صداقت کو بیان کرتا ہے۔ اوبامہ کے لیکچر کا نچوڑ یوں بنتا ہے۔کرپشن کے گراف کو کم کیا جائے۔انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔منشیات کی سمگلنگ کو روکا جائے۔ افغان حکومت میں مختلف قبائل اور جغرافیائی خطوں میں بسنے والوں کو نمائندگی دی جائے تاکہ سیاسی استحکام پھل پھول سکے۔دوم عالمی میڈیا کے تبصروں میں دورہ امریکہ اپنے تھکے ماندے فوجیوں کے مورال کو اپ کرنے کی کڑی ہے۔اوبامہ نے فوجیوں کو بتایا کہ پوری قوم انکی خدمات کا اعتراف کرتی ہے۔امریکی فوجی بہت جلد اپنے گھروں میں ہونگے۔ امریکہ نے 2001 میں کابل اور2003 میں بغداد میں لاکھوں بے گناہوں کو انجہانی بنا کر قبضہ کرلیا۔امریکی فورسز کا بغداد سے پانچ ماہ بعد اور کابل سے2011 میں انخلا مکمل ہوگا۔ امریکی فوجیوں کی کابل میں تعداد ستر ہزار ہے۔اوبامہ نے اپنی افغان پالیسی کی روشنی میں51 ہزار کا تازہ دم لشکر کابل بھیجنے کا اعلان کی۸ا تھا۔30 ہزار کا لشکر جرار کابل میں قدم رنجہ کرچکا ہے۔ کیا کرزئی اوبامہ کے نیو اوبامہ افغان اڈر کی رو سے امریکیوں کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے؟ امریکی عوام اور حکومتی زعما کرزئی پر اعتماد کھوچکے ہیں۔انکے خیال میں کرزئی 10سالوں میں طالبان کا نعم البدل نہ بن سکا۔طالبان نے جنگ زدہ تباہ حال ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنادیا۔ملاعمر کے حکم پر پوست کی کاشت شجر ممنوعہ بن گئی۔جرائم کی شرح معمولی تھی مگر طالبان کے جانے کے بعد افغانستان ایک مرتبہ پھر اگ و خون کا دریا بن چکا ہے۔ اب یہاں یہ سوال امریکیوں کے لئے سردرد بن گیا ہے کہ کیا انخلا کے بعد کرزئی طالبان کا مقابلہ کرسکیں گے؟ اگر امریکہ کرزئی کے تمام مطالبات تسلیم کرکے مطلوبہ وسائل مہیا کر دیتا ہے تو کیا حالات میں سدھار واقع ہو سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب اثبات میں دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ اسکی دو وجوہ ہیں۔ امریکی فورسز کا انخلا تو اگلے سال شروع ہوجائے گا مگر قرائن سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ افغانستان کے پر اشوب حالات تین چار سال بعد بھی درست ہوتے نظر نہیں اتے۔یوں یہ صاف ظاہر ہے کہ امریکی فورسز کا انخلا کھٹائی میں پڑسکتا ہے۔یوں اگلے سال انخلا کے سپنے دیکھنے والے خوابوں کی نیند سے جاگ اٹھیں۔ کرزئی شاطر ادمی ہیں۔وہ اپنی چرب زبانی سے حکومتی تخت سے لپٹا رہے گا مگر بیساکھیوں کے بغیر وہ انقلاب لانے کا ایک فیصد ملکہ نہیں ر کھتا۔افغانستان میں سیکیورٹی کی خراب صورتحال اس بات کی غماز ہے کہ جارح اور انکی کٹھ پتلیاں کرزئی وغیرہ ناکام ہوچکے ہیں۔ناٹو کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق2009 میں نیٹو پر7000 حملے کئے گئے جبکہ2008 میں یہ تعداد 4 ہزار175،2007 میں2700 تھی۔2009 میں395 امریکی لقمہ اجل بن گئے۔یہ تعداد پچھلے سالوں کی نسبت سے دو گنا ہے۔ اوبامہ صدر بننے سے پہلے ہشاش بشاش اور بغیر خوف و حزن کابل کے دورے سے لطف اندوز ہوتے رہے مگر اب طالبان کی جانفروشی نے امریکیوں کے دلوں پر ہیبت مسلطا کررکھی ہے۔اوبامہ اپنے دورے میں اسی کنفیوژن کا شکار تھے۔وہ ہیلی کاپٹروں کے نرغے میں صدارتی محل میں وارد ہوئے اور نصف گھنٹے کے بعد سپرپاور کا صدر ہیلی کاپٹروں کے جھتے میں بگرام ایر بیس پہنچا جہاں انہوں نے بلٹ پروف جیکٹ پہن لی۔ امریکی صدر چپکے سے رات کے10 بجے چھ گھنٹے کا دورہ مکمل کرکے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے۔اوبامہ کے دورہ کابل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ امریکہ واپس جانے والا نہیں۔امریکہ اپنی حکمت عملی کے تحت افغانستان میں براہ راست دخیل نہ ہوگا تاہم وہ یہاں ایسے موجود رہیں گے جس طرح امریکی پاکستان میں خیمہ زن ہیں۔اوبامہ جب اپنے25000 فوجیوں کے سامنے ہمکلام تھے تو صدرنے فوجی جیکٹ زیب تن کررکھی تھی۔کہا جارہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں پر یہ راز منکشف کرنا چاہتے تھے کہ وہ ائندہ امریکی فورسز کو امریکہ سے باہر نہیں بھیجیں گے۔کرزئی طالبان سے رابطے کررہے ہیں مگر رابرٹ گیٹس نے مفاہمت کی ساری محنت پر تھوک دیا کہ اب مفاہمت کا نہیں بلکہ لڑائی کا وقت ہے مگر رابرٹ گیٹس اور جنگی جنون کے دیوانے امریکی چاہے وہ عسکری ہوں یا سوویلین سیاست دان پتہ نہیں کس باغ کی مولی ہیں اور وہ کیسے ڈائیلاگ کی بجائے لڑائی کا طبل بجاتے ہیں؟ امیر ترین مغربی ملکوں کی مشترکہ فوجی طاقت نو سالوں میں مٹھی بھر طالبان کو ختم کرنے میں نامراد ہوئی بھلا وہ چند مہینوں میں کونسا انقلاب برپا کر سکتی ہے؟ ناٹو ایک دہائی سے کابل پر قابض ہے ۔امریکہ نے افغانوں کو جمہوریت کا ایسا تحفہ عطا کیا جو امریت کی گھٹیا ترین مثال بن چکی ہے۔ جس سماج میں روئے ارض کی واحد سپرپاور کا صدر خوف و حزن میں ڈوب کر اپنے دورے کو دنوں کی بجائے گھنٹوں تک محدود کردے جہاں امریکی صدر رات کی تاریکی میں سفر کرے اور پھر اپنی ایک لاکھ افواج کی موجودگی کے باوجوپنے مفتوح علاقے میں چند کلومیٹر کا بھل سفر درجنوں جنگی جہازوں کے جلو میں کرے تو تب وہاں دنیا کی کوئی سامراجی طاقت ازادی کے متوالوں کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوا کرتی۔ اوبامہ ناٹو اور امریکی جرنیلوں کو جان لینا چاہیے کہ افغانستان سے طالبان کا خاتمہ ناگزیر ہے اگر دنیا خطے میں امن و امان کی خواہاں ہے تو تخت کابل کی ملکیت انہی شاہینوں کے سپرد کردینی چاہیے جنہوں نے افغانستان کو امن و امان کے گلستان میں بدل دیا تھا جنکے ایک حکم پر پوست کی کاشت کا صفایا ہوگیا تھا۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team