اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت03-04-2010

 ویل ڈن زرداری

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

ppp

 نے ہزار ہا غلطیوں کے باوجود ملک و قوم کی سلامتی جمہوریت کے استحکام اور ائین کی کارفرمائی کے لئے ہمیشہ درخشندہ قربانیاں دیں۔ دنیا میں یہ اعزاز بھٹوز کے مقدر کا سکندر بن چکا ہے کہ1400 سو سال بعد ایک طرف قائد عوام دختر مشرق ، مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو نے مادر وطن کی خاطر اپنی زندگیاں جان افریں کے سپرد کردیں تو دوسری طرف بھٹو فیملی نے حریت پسندی، استقامت اور ناقابل لغزش جنون کی بدولت واقعہ کربلا کی یاد تازہ کردی ۔ قائد عوام کے عظیم الشان کارناموں میں 1973 کے ائین کی متفقہ تشکیل یادگار سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے مگر ہماری بدقسمتی تو یہ ہے کہ فوجی امریت کے ہر دور میں امروںنے اقتدار کی لالچ میں ائین کی دھجیاں بکھیر دیں۔ ضیا الحق نے5 جولائی1977 جبکہ مشرف نے12 اکتوبر1999 میں اٹھویں اور سترہویں ترامیم کی پیوند کاری سے ائین کی مقدسیت و شفافیت پر امریت کے اندھیرے مسلط کرکے تمام ریاستی اختیارات کو اپنی زات میں مرتکز کردیا۔ جرنیلوں کی ائینی ترامیم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب چکنا چور کردیا ۔ امروں کے مسخ کردہ ائین کے حسن کو دوبارہ بحال کرنے کا کریڈٹ حال ہی میںپی پی کے حصے میں ایا۔ یکم اپریل2010 ہماری روشن تاریخ کے انمٹ باب کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گاا کیونکہ اسی مبارک دن کے موقع پر ائینی کمیٹی کے سربراہ رضا ربانی نے ائینی اصلاحات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کیا۔18 ویں ترمیم کا بل اتفاق رائے سے منظور ہونے جارہا ہے۔پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران ائینی کمیٹی کا حصہ تھے۔ یوں ملک کی ساری سیاسی قیادت مبارکباد کی مستحق ہے کیونکہ انہوں نے نظریاتی تفاوت کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر ملکی مفاد کو سیاسی مخاصمت پر فوقیت دی۔ائین کو بارہ اکتوبر 1999 سے پہلے والی پوزیشن پر فروکش کیا گیا ہے۔ ائینی کمیٹی کی تیار کردہ سفارشات کی رو سے شق 6میں ائین کی معطلی کو غداری، تیسری مرتبہ وزیراعلی اور وزیراعظم بننے پر مشرفی پابندی کا خاتمہ، صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ، سینٹ میں اقلیتوں کے لئے چار نئی نشستیں، ارٹیکل48 میں صدر کو وزیراعظم کے ساتھ مشاورت کا پابند بنانا اور58 ٹو بی کے ظالمانہ اختیار کو ختم کرنا شامل ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس پچھلے جمعے سپیکر فہمیدہ مرزا کی صدارت میں منعقد ہوا جہاں گیلانی صاحب نے18 ویں ترمیم کی منظوری پر تبصرہ کیا کہ اج ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ اگر چہ ہم نے غلطیاں بھی کی ہیں مگر ا ہم نے ہی غلطیوں کی اصلاح کی ہے۔ ائینی پیکج ترتیب دینے والی کمیٹی میں13 سیاسی پارٹیوں کے26 پارلیمانی افلاطون شامل تھے۔فہمیدہ مرزا نے21 جون2009 کو ائینی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کے77 اجلاس منعقد ہوئے۔اراکین نے9 ماہ اور 10 دن تک اپنی ساری فراست ائینی اصطلاحات کی تراش و خراش پر صرف کردی۔ مجموعی طور پر95 ترامیم پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔ صوبہ سرحد کے نام کے حوالے سے ق لیگ، ن لیگ اور شیرپاو نے اختلافی نوٹ تحریر کئے۔دو روز پہلے ججز کی تعیناتی اور تبدیلی نام پر خطرناک ائینی بحران پیدا ہوگیا تھاجب ن لیگ نے عدلیہ اور نام کے ایشو پر اختلاف کا ڈنکا بجا دیا۔یار لوگوں نے ائینی پیکج کو تار تار کرنے کی کئی مکرکرنیاں دکھائیں تاکہ پارلیمان بالادست نہ ہوپائے مگر پیکج کے منصفین نے زہنی بلوغت کا ثبوت دیکر اختلافی معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرلیا۔ ائینی پیکج کی کامیابی اور17 نمبری مشرفی ایجاد کو دفنانے کا سہرا بلاشبہ اصف زرداری کے حصے میں اتا ہے۔مخالفین اور اپوزیشن نے زرداری پر 17 ویں ترمیم کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ کررکھی تھی۔زرداری کو مشرف کے تسلسل کا نام دیا گیا۔صدر پر وعدہ خلافی اور امریت کے دشنام پھینکے گئے۔دل جلوں نے تو یہاں تک ٹرٹراہٹ کی کہ زرداری کی رگوں میں مشرف کی روح حلول کرچکی ہے۔ ائینی پیکج کی منظوری پر ایسے جمہور مخالف گویوں کا راگ سنائی کیوں نہیں دیتا؟ زرداری نے اپنے سارے اختیارات پارلیمان کو ٹرانسفر کرکے قائد عوام کی بے چین روح کو شانتی مہیا کردی۔ کیا ماضی میں ایوان صدر کے کسی ڈان نے اپنی پاور کسی اور کو منتقل کی ہے؟ ائینی پیکج کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو مایوسی دلوں کو دہلا دیتی ہے۔عوام کی غالب اکثریت ترامیم کے نام سے اشنا نہیں ہے ۔ ماضی میں ائین کے دشمنوں اور جرنیلوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جس نے عو امی مسائل و مصائب کی شدت کو سنگین تر بنا ڈالا۔ ائین کی بار بار بے حرمتی نے مثالی حکومت کے احیا کو ازکار رفتہ بنادیا۔مہنگائی، کرپشن لوٹ مار استحصال بے روزگاری اور دہشت گردی نے پاکستانیوں کی حیات اجیرن بنادی ہے۔ حکومتی احباب کو ائینی اختیارات سونپے جارہے ہیں۔اب سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا18 ویں ترمیم گرانی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ مہنگائی زخیرہ اندوزی غربت و پسماندگی اور کرپشن کو ختم کرنے کا اکسیر نسخہ بن سکتی ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ائینی پیکج نے عوامی مسائل کےلئے کونسے فن و کمالات دکھائے۔اگر ائین کی بحالی سے جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے والے کروڑوں ا پاکستانیوں کو دووقت کی روٹی نہیں مل پاتی اگر ظالموں کو قانونی شکنجوں میں نہیں جکڑا جاتا اگر قومی وسائل کی تقسیم میں مساوات کا عنصر نظر نہیں اتاتو پھر یاد رہے کہ اس تاریخ ساز ائینی پیکج کا کوئی فائدہ نہیں۔ ائینی پیکج کی تیاری اور منظوری کے عرصہ میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مابین باہمی اتحاد ، صبر و تحمل اور برداشت کے کئی روح پرور مناظر دیکھنے کو ملے۔ اگر ساری سیاسی قیادت ائینی کمیٹی کے اجلاسوں میں نظر انے والی یکجہتی تدبر بصیرت باہمی اعتماد کو تمام شعبوں تک پھیلا سکتی ہے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان میں افراتفری تفریط اور سیاسی و گروہی انتشار کی بجائے سیاسی استحکام امن و امان عدل و انصاف اور محب وطنی کا دور دورہ نہ ہو۔ پاکستان میں پارلیمان نے صرف دو ائین بنائے۔1956 کا ائین9 سالوں کی بحث و تمحیص بحرانوں اور انتظامی تبدیلیوں کے بعد منظور ہوا مگر یہ ائین دو سال کے بعد متروک ہوگیا۔بھٹو نے سقوط کے بعد پونے دو سال کی محنت شاقہ سے1973 کا ائین بنایا۔ صوبائی خود مختیاری کا مسئلہ تاخیر کا سبب بن گیا۔ ایک طرف قوم پرست جماعتیں تھیں جو زیادہ سے زیادہ خود مختیاری کا مطالبہ کررہی تھیں تو دوسری طرف ایٹیبلشمنٹ کسی صورت میں حد سے زیادہ خود مختیاری دینے کے حق میں نہ تھی۔ بھٹو صاحب نے دونوں کو مطمئن کرنے کے لئے کنکر نٹ لسٹ کا اجرا کیا مگر یہ ائین پانچویں سالگرہ منانے سے پہلے پانچ جولائی1977 کو فوجی بوٹوں تلے روندا گیا۔ ضیا نے 8 ویںترمیم غیر جماعتی پارلیمان سے دھونس کے بل پر منظور کروائی۔17 ویں ترمیم کی منظوری کے لئے مشرف نے وردی اتارنے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں وہ منحرف ہوگئے۔ 18ویں ترمیم کو جب ماضی کی ہنگامہ خیزیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسودے کی منظوری کسی معجزے سے کم نہیں۔ پاکستان کو طویل عرصے بعد اٹھارویں ترمیم کے نام پر ایک ایسا یوٹرن نصیب ہوا ہے جو ہمیں دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ فطرت یذداں زوال پزیر قوموں کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے کئی مواقع عطا کرتی ہے۔ رب نے پاکستان کو گولڈن چانس مہیا کیا ہے جس سے فائدہ اٹھانا ناگزیر ہے۔ ماوزے تنگ نے کہا تھا کہ گاڑی کو نشت نہ ملنے پر مس مت کرو ہوسکتا ہے یہی ٹرین تمھیں اپنی منزل کے اسٹیشن تک پہنچادے۔کیا ہمیں ماوزے تنگ کے جملے کی پیروی کرنی چاہیے۔ ایٹمی قوت کے بانی اور ائین پاکستان کے مصنف بھٹو کے ساتھ عدالتی قتل کا لاحقہ ہمیشہ کے لئے نتھی ہوچکا ہے جو عہد حاظر کی طاقتور ترین عدلیہ سپریم کورٹ کے تروتازہ چہرے پر بدنما داغ کی شکل میں موجود ہے۔سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو وسیع القلبی اور انصاف پروری کا لبادہ پہن کر بھٹو کو نہ صرف قتل کے بھونڈے مقدمے سے بری کرنے کا اعلان کرنا چاہیے بلکہ بھٹو کو قومی ہیرو کا لقب دینا ہوگا ورنہ یہ احسان فراموشی کی بدترین مثال ہوگی۔ بحرف اخر18 ویں ترمیم کی منظوری پر سیا سی نظریات سے بالا تر ہو کر پوری قوم زرداری کی شان میں عقیدت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ ویل ڈن زرداری
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team