اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت13-04-2010

 جوہری ایندھن اور امریکہ کی نیو جوہری پالیسی

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

امریکہ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان حال ہی میں منعقد ہونے والے ا سٹریٹجک مذاکرات پر ابھی تک زور قلم صرف کیا جارہا ہے تو دوسری طرف امریکہ صدر اوبامہ نے امریکہ کی نیو ایٹمی پالیسی کا اعلان کرکے پوری دنیا کو ورجہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ امریکہ اپنے مخالفین کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔مذاکرات نے ہمیں مناسب وقت پر باور کروایا ہے کہ پاکستان کی کیا پلاننگ ہونی چاہیے۔مذاکرات میں امریکہ بھارت جوہری پارٹنر شپ کی طرح پاکستان کو بھی ایسی سہولت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کا یہ قدم زیادہ ثمر اور ہوسکتا تھا اگر معاہدے کو قانونی طور پر چیلنج کیا جاتا کہ امریکہ اور بھارت کی جوہری رشتہ داری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے بجائے اسکے کہ کسی ایسے معاہدے کی کوشش کی جائے جو عالمی قوانین کے برعکس ہو یا جسکا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ یہ سب عذر تراشی ہے۔ہوسکتا ہے کہ امریکہ نے مذاکرات کاروں کو ایسے کسی معاہدے کا لالی پاپ دیا ہو مگر سچ تو یہ ہے کہ اسکے پروان چڑھنے کا کوئی امکان نہیں۔ نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ ہیلری کلنٹن نے پاک امریکہ جوہری معاہدے کے مطالبے پر جوش خروش کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شگاگو ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق کہ مذاکرات میں قلیل ترین پیش رفت واضح ہوئی۔ امریکہ نے فوجی سازو سامان اور مالی امداد کے پیکج پر غیر مبہم توجہ دی ہے۔reconstruction opportunity zone کے لئے امریکہ نے قانون منظور کرانے کا وعدہ کیا ہے جس سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور تعمیروترقی و سماجی بہبود کے پراجیکٹس شروع ہوسکتے ہیں تاہم ابھی امریکی تھنک ٹینک اس پر غور کررہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے ادارئیے میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان نے ستاون صفحات کا مطالبات نامہ امریکہ کے سپرد کیا تھا جسے دھلائی کے کپڑوں کی طویل فہرست کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ پاکستانی وفد کو ایک صفحے پر مشتعمل مختصر متن جاری کرنا چاہیے تھا جس میں اہم ترین مسائل مشکلات مطالبات اور بنیادی تحفظات کا زکر ہوتا۔ طرفین کے مابین فلسطین اور کشمیر کے ایشوز سے متعلق بات کو نمایاں نہیں کیا گیا۔ امریکی سنٹرل کمان کے ڈیوڈ پیٹریاس نے16 مارچ کو امریکی سینٹ کو اگاہ کیا کہ عرب دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہورہا ہے عرب مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اسرائیلی بربریت کی سرپرستی کرتا ہے۔امریکہ کے اس روئیے سے عرب دنیا میں ایک جانب امریکی کردار محدود جبکہ ایرانی اثر و رسوخ و جاہ و حشمت میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب اعتدال حکومتوں کی حمایت میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ سیاسی انتشار کے باوجود قدرت نے پاکستان کو اہم ترین جغرافیائی پوزیشن عطا کی ہے جس سے پاکستان کو کئی سازگار مواقع میسر اتے ہیں مگر بعض اوقات یہ مواقع سوکھے ہوئے پتوں کی طرح وقت کے کوڑے دان میں گل سڑجاتے ہیں ۔ ہم ان مواقعوں سے بروقت فائدہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہاں ایک سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا میں عمل کا فقدان اور کشمیر کاز پر معمولی حمایت کیوں ہے؟ بھارت نے ہماری نااہلیوں اور کوتاہوں سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مغرب میں سٹریٹیجک ڈائیلاگ کو کارنامہ نہ سمجھا جائے تاہم پاکستان کے وقار میں درخشندہ اضافہ ہوا ہے۔وائٹ ہاوس اور پینٹگان نے امریکی ضرورتوں اور افغان پالیسی اف اوبامہ نے افواج پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کرلیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سویلین پہلووں کو عسکری حلقوں پر فوقیت دی جارہی ہے۔پاکستانی فوج کو ممتاز حثیت حاصل ہوئی ہے۔ پاک فورسز کے پینٹاگون کے ساتھ مراسم میں بہتری ائی ہے۔یہ قدم اہم ہوسکتا ہے کیونکہ امریکہ نے غیر فعال افغان ارمی اور پولیس کی تربیت پر لاکھوں ڈالر پھونک رکھے ہیں۔ انڈین اخبار ٹیلی گراف نے25 مارچ کی اشاعت میں لکھا ہے کہ پاک ارمی چیف کیانی نے واشنگٹن میں تمام دوسری سٹریٹیجک ترجیحات و توضیحات کو ماند کردیا۔امریکہ کے تمام سٹریٹیجک اہلکاروں کی انکھیں کان اور ناک اس محور پر مرکوز ہوچکی ہے جو اوبامہ کے اگلے صدارتی الیکشن2012 پر افغانستان کے زریعے اثر انداز ہوسکتا ہے۔ صہیونی اور صلیبی لابیوں نے زور لگا رکھا ہے کہ پاکستان پر ڈو مور کا پریشر مسلسل جاری رکھا جائے مگر شائد انہیں یہ معلوم نہیں کہ اب حالات بدل چکے ہیں ۔پاکستان پر دباو کے ضمن میں اگر تجاوز کیا گیا تو پھر امریکہ کو افغانستان میں کامیابی کی معمولی ٹمٹمانے والی لو کی بجائے ہر طرف تاریکیاں اداسیاں نظر ائیں گی اور طالبان سے متوقع مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکے گی۔حامد کرزئی کی یہ دھمکی کہ اگر امریکہ نے دباو ڈالنے کی کوشش کی تو وہ طالبان سے رشتہ جوڑ لیں گے ایک روز روشن مثال ہے۔یاد رہے پاکستان پر ڈو مور کا کلیہ اپنانے کے رد عمل میں پاکستان سے بھی کرزئی کی طرح امریکہ مخالف نعروں کا پرزور شور سنائی دے گا۔ جہاں تک امریکہ کے ساتھ جوہری ڈیل کا تعلق ہے تو ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور کنیڈا کے مابین بھی جوہری پارٹنرشپ کا معاہدہ تھا۔بھارت نے1974 میں ایٹمی دھماکے میں استعمال کیا جانے والا پلو ٹونیم استعمال کیا تھا وہ کنیڈا سے حاصل کردہ40 میگا واٹ ری ایکٹر سے حاصل کیا گیا تھا۔ کینیڈا نے یہ ری ایکٹر پر امن مقاصد کے لئے دیا تھا مگر بھارت نے پلوٹونیم کے استعمال سے دھماکہ کردیا جس نے پاکستان میں اضطراب پیدا کردیا۔ بھٹو نے ریاستی سلامتی کے لئے جوہری قوت حاصل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور پھر وہ نامساعد و کٹھن حالات کا سامنا تو کرتے رہے مگر انہوں نے ڈاکٹر خان کی معاونت سے ایٹمی قوت کا خواب پوارا کردکھایا۔بھٹو تختہ دار پر جھول گئے مگر وہ ایسا انتظام کرگئے کہ پاکستان جب چاہے ایٹمی دھماکہ کرسکتا ہے۔ ہمارے جوہری سائنسدانوں نے ثابت کردکھایا کہ زرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔پاکستان اگر ری پروسیسنگ پلانٹ بناسکتا ہے۔غوری میزائل ایسے جدید ترین میزائلوں کو عملی شکل دے سکتا ہے تو پھر ہمیں سول مقاصد کے لئے اغیار کے سامنے جھولی پھیلانے کی کیا ضرورت ہے ۔ ہمارے بلند اہنگ سائنسدان جوہری ایندھن بنانے کی خدا داد صلاحیتوں سے مالا مال ہیں وہ اپنی تکنیکی قابلیت کو بروئے کار لاکر جوہری توانائی کے لئے ری ایکٹر بھی بناسکتے ہیں۔پاکستان اور چین کی مشترکہ مساعی جلیلہ سے چشمہ بیراج پر نصب کئے جانے والے ایٹمی ریکٹر کو اپ گریڈ کرکے جوہری توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔یہ سچ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان کو اج برتر مقام حاصل ہے۔اسی تناظر میں اوبامہ نے کہا ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان جب تک معاملات درست نہ ہونگے تو تب تک خطے میں پاور کا بیلنس اپ سیٹ رہے گا جس سے پاکستان اپنی سلامتی کے متعلق شکوک و شبہات میں گھرا رہے گا اور وہ دہشت گردی کے خلاف دلجمعی سے نہیں لڑسکے گا۔پاکستان اس وقت نیٹو و امریکہ سے اپنی بات منوانے کی پوزیشن میںہے۔پاکستان کی سیاسی حکومت کو چاہیے کہ وہ عسکری قیادت سے ملکر ایک طرف امریکہ کو افغانستان سے جلد از جلد نکالنے کا بندوبست کرے تو دوسری طرف حکومت ڈاکٹر قدیر کے تجربے سے فائدہ اٹھائے اور انہیں جوہری توانائی کے حصول کا مشن سونپ دے۔ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کب تک یہود و ہنود کے سامنے جھولیاں پھیلاتے رہیں گے اور کب تک جوتیوں میں دال تقسیم کرنے کا دھندہ کرتے رہیں گے۔وقت اگیا ہے کہ ہمیں کسی بیساکھی کی بجائے اپنی راہ خود ناپنی چاہیے جو ہمیں دفاعی سلامتی ریاستی یکجہتی معاشی و صنعتی خوشحالی اور مغرب کی غلامی سے ازدی کی منزل سے ہمکنار کرسکے۔ امریکی وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ جن ملکوں نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے امریکہ انکے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔صدر اوبامہ نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ پاکستان نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کی یقین دہانی کروادی ہے۔گو اوبامہ کا بیان پاکستان کے لئے لفاظی کی حد تک خوش کن ہے مگر پاکستان کو اپنی باسٹھ سالہ امریکی دوستی کے تناظر میں واشنگٹن پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہاں بغل میں چھری اور منہ میں رام رام والا فارمولہ امریکیوں کا مرغوب مشغلہ ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team