اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت15-04-2010

 عنوان۔تلوار اور خون کے گیت

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

چار اپریل کو ایک طرف ریاست کے چپے چپے سے انے والے لاکھوں جیالے ممبران پارلیمان اور حکومتی شہسوار اپنے محبوب رہنما قائد عوام کی برسی کو چار چاند لگانے کے لئے شاداں و فرحاں گڑھی خدا بخش میں دیوانہ وار نعرے لگارہے تھے تو دوسری جانب بھٹوز فیملی کی عقابی روح رواں فاطمہ بھٹو دہلی میں اپنے دادا بھٹو کی 31 برسی پرانگریزی زبان میں شائع ہونے والی اپنی کتاب سونگز اف بلڈ اینڈ سورڈ کی افتتاحی تقریب میں اپنا حال دل سننانے میں محو تھیں۔ لاڑکانہ میں ایک جانب عقیدت مند قائد عوام اور بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے تو دوسری جانب فاطمہ بھٹو دہلی میں اپنے والد مرتضی بھٹو پر1996 میں موت بنکر ٹوٹنے والے طوفان کی گلوگیر کتھا سنارہی تھی۔فاطمہ بھٹو نے اس کتاب میں جہاں بھٹو فیملی کی قربانیوں پر الفت و یگانگت کی گل پاشی کی ہے تو وہاں انہوں نے بھٹوز کو درپیش مصائب و الام کے کئی سربستہ رازوں کو منکشف کردیا۔ بھٹو خاندان کے کروڑوں عقیدت مند ہر سال قائد عوام کی برسی پر نہ صرف قائد عوام اور دختر مشرق کی یاد میں اشکوں کا سمندر بہاتے ہیں بلکہ وہ بھٹو کے دونوں بیٹوں مرتضی اور شاہنواز پر اپنی محبتوں کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔پی پی پی کا ہائی جائیکر اور اقتدار پرست ٹولہ قائد عوام اور بے نظیر بھٹو کی قبروں سے تو لپٹ کردھاڑیں مارتا ہے تاکہ بادشاہ گریس مارک دے دے مگر وہ ایک ہی مزار میں موجود شاہنواز اور مرتضی بھٹو کی قبروں پر صرف لیپا پوتی سے کام چلاتے ہیں تاکہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا درجہ پالیں۔پی پی کی مرکزی و حکومتی ٹیم بھٹو کی برسی اور سالگرہ کی تقریبات تو دھوم دھام سے منا تی ہے مگر انہیں نہ تو قائد عوام کی شریکہ حیات نصرت بھٹو کی یاد تڑپاتی ہے جو مرتضی بھٹو کی ہلاکت کے بعد دوبئی کے ہسپتال میں بستر مرگ پر پڑی ہوئی ہے اور نہ ہی پارٹی کا کوئی تھانیدار شاہنواز اور مرتضی کی یاد تازہ کرنے کی زحمت کرتا ہے۔یہ سچ ہے کہ چاروں بھٹوز کے لہو نے پی پی پی کو چار مرتبہ سربرائے مملکت بنایا۔ بھٹو فیملی کے چاروں رجال کاروں کی غیر فطری اموات نے ریاست میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ شاہنواز بھٹو کو زہر سے مارا گیا۔مرتضی ضیائی مارشلا کے خلاف ایک دہائی تک لڑتا رہا۔وہ بی بی کے دوسرے دور میں پاکستان ایا۔الذولفقار تنظیم کی عسکری کاروائیوں پر مرتضی بھٹو کو دہشت گردی کیسز میں ایرپورٹ سے ہی دھر لیا گیا۔وہ رہا ہوئے تو اس نے قائدعوام کے شکستہ دل ساتھیوں کو ساتھ ملا کر پی پی پی شہید بھٹو گروپ کی بنیاد ڈالی مگر وائے حسرت مرتضی کو20 ستمبر1996 میں70 کلفٹن کے باہر نقلی و فرضی پولیس مقابلے میں مار دیاگیا۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت دی۔ گنگ دان پاکستانیوں کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا۔بھٹو کو عدالتی قتل کے قبرستان میں دفن کرنے والے مارشلائی گماشتوں کی وحشت و بربریت کے باوجود پاکستابنیوں کے دلوں سے بھٹوز کی الفت محبت و عقیدت کو محو نہیں کیا جاسکا۔ بھٹو کے بعد شاہنواز اور مرتضی قتل ہوگئے۔شاہنواز کو ضیاالحق نے قتل کروایا مگر کیوں اور کیسے یہ معمہ ابھی تک سربستہ راز ہے۔بے نظیر بھٹو نے دونوں ادوار میں مرتضی کو سیاست و حکومت سے دور رکھا۔ وہ اصرار کے باوجود پاکستان ائے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔کہا جاتا ہے کہ بی بی نے زرداری کی خواہش پر مرتضی بھٹو کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا حالانکہ مرتضی بھٹو قائد عوام کا حقیقی جانشین تھا۔ مرتضی کے قاتلوں کے بارے متضاد ارا گونجنے لگی۔بی بی کی جانب سے صدر مملکت لغاری پر شک و شبہ کیا گیا مگر رد عمل میں اصف زرداری کو بھی قاتلوں کی فہرست میں رکھا گیا۔مرتضی بھٹو کو کس نے قتل کروایا اور قتل کروانے کے پس پردہ کیا عزائم درکار تھے؟ پی پی پی کسی بھٹو کی عدم موجودگی میں کیا مستقبل رکھتی ہے؟ زیڈ اے بھٹو کی سیاسی وراثت پر بھٹو فیملی کے چشم و چراغ جانشینی کا حق رکھتے ہیں یا پھر بلاول بھٹو اور زرداری؟مرتضی بھٹو کی بڑی صاحبزادی فاطمہ بھٹو جن کو فطرت نے کم عمری میں اپنے داد قائد عوام ا جیسی فراست اور باپ مرتضی ایسی جرات سے نوازا ہے نے سیونگ اف بلڈ اینڈ سورڈ نامی کتاب لکھی جسکی افتتاحی تقریب بھارت میں منعقد ہوئی۔فاطمہ بھٹو نے فیملی کے چاروں افراد کی قربانیوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ بھٹو خاندان یعنی 70 کلفٹن کے باسیوں کی زندگی عدم تحفظ کا شکار ہے۔وہ درست ہی لکھتی ہیں کہ فاطمہ بھٹو بھائی زولفقار بھٹو جونیر اور سسی شاہنوازبھٹو قائد عوام کی سیاسی میراث کی وارث ہیں مگر ہمیں اپنے حق سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فاطمہ رنجیدہ اواز میں گویا ہوئی کہ صدر مملکت زرداری نے صدارت کا حلف19 ستمبر کو لینا تھا مگر انہوں نے اپنی تقریب حلف وفاداری ایک دن کے لئے ملتوی کردی کیونکہ اگلے روز 20 ستمبر کو میرے والد مرتضی بھٹو کی برسی تھی۔عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد صدارتی تقریر میں زرداری نے ایک منٹ کے لئے مرتضی بھٹو کی برسی کے حوالے سے خاموشی اختیار کی تھی۔زرداری کے طرز عمل فاطمہ تبصرہ کرتی ہیں کہ ملک کا صدرہم پر طنز کرر ہا ہے۔ فاطمہ نے اپنی کتاب تلوار اور خون کے گیت میں انکشاف کیاہے کہ بے نظیر بھٹو صدر ضیا الحق سے صلح پر امادہ ہوگئیں تھیں مگر مرتضی بھٹو کی مخالفت سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ فاطمہ بھٹو کی اس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ بینظیر اور مشرف کے مابین nro پر ڈیل ہوگئی تھی حالانکہ مشرف بھی ڈکٹیٹر تھا۔ فاطمہ بھٹو نے اپنی بصیرت افروز کتاب میں بھٹو خاندان کے چاہنے والوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ قائد عوام کے حقیقی ورثا ہیں۔ صدر مملکت کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں مگر ابھی تک اس راز کو منکشف نہیں کیا جاسکا۔یواین او کی ٹیم نے اپنی تحقیق مکمل کرلی ہے ۔یہ تفتیش31 مارچ کو اوپن کی جارہی تھی مگر صدر مملکت کی خواہش پر اسے 15اپریل تک موخر کردیا ہے۔سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے وہ کونسی وجوہات ہیں کہ بی بی قتل کیس کو 15دنوں کے لئے موخر کرنے کی ضرورت اپڑی؟ فاطمہ بھٹو نے کتاب میں زرداری کے متعلق جو خامہ فرسائی کی ہے انکی سچائی کا علم تو زرداری یا 70 کلفٹن کے پناہ گزینوں کو ہوگا مگر ایک کڑوا کسیلا سچ تو یہ ہے کہ بھٹو کی سیاسی و سماجی وراثت کا حق صرف اور صرف فاطمہ بھٹو، جونیر بھٹو اور سسی شاہنواز بھٹو کو حاصل ہے۔پی پی پی اور بھٹو فیکٹر ایک ہی سکے کے دو روشن رخ ہیں۔ بھٹوز کی عدم موجودگی میں پارٹی کا حال کسی بیوہ کی اجڑی ہوئی کلائی ایسا ہوگا۔ زرداری کو بھٹوز کے خون نے ہی صدارت کے سنگھاسن پر جلوہ گر کروایا۔ صدر مملکت الیکشن کے بعد نائن زیرو گئے جہاں انہیں الطاف جئے کے نعرے لگا نے پڑے حالانکہ طویل مدت کے بعد پی پی متحدہ اتحاد کی بیل منڈھے چڑھی تھی۔ اگر زرداری نیک نیتی سے بھٹوز کے گن گاتے ہوں تو پھر انہیں اسی روز ستر کلفٹن جاکر بھٹو کے جانشینوں فاطمہ بھٹو زوالفقار بھٹو جونیر کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہیے تھا۔ صد پرر اکثر اوقات جیالے پن کا دورہ پڑجاتا ہے اور وہ صدر کی مسند سے نیچے اکر ورکروں کی طرح نعرے لگاتے ہیں۔ زرداری یہی نعرے 70کلفٹن میں کیوں نہیں مارتے؟ صدر مملکت وزیراعظم اور سرکاری پی پی کے افلاطونوں کا فرض ہے کہ وہ فاطمہ بھٹو کی کتاب تلوار اور خون کے گیت کی روشنی میںقائد عوام کے پوتے پوتیوں کے سروں پر دست شفقت رکھیں۔مرتضی قتل کیس میں عائد کئے جانیوالے الزامات کا جواب دینا صدر مملکت کا اسلامی و سماجی فرض ہے۔ پی پی کی بقا اور روشن مستقبل کے لئے بینظیر بھٹو کی جگہ فاطمہ بھٹو اور بلاول کی جگہ بھٹو جونیر کو ایڈجیسٹ کیا جائے۔ اگر سرکاری پی پی پی نے بھٹوز کے حقیقی ورثا کو مکڑی سمجھ کر نظر انداز کردیا تو یاد رہے کہ پانچ سے دس سال کے عرصہ میں پی پی کے لورز اور قائد عوام کے عوامی فوجی اہستہ اہستہ فاطمہ بھٹو اور بھٹو جونیر کو سیاسی رہبر تسلیم کرنے پر مجبور ہونگے جہاں تک فاطمہ بھٹو کی سیاسی فراست کا تعلق ہے تو یاد رہے کہ فاطمہ بھٹو کا سیاسی مستقبل روشن ہے۔ ستر کلفٹن کے اندھیرے فاطمہ، سسی اور بھٹو جونیر کے قہقوں سے روشن ہوچکے ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب70 کلفٹن70 کی دہائی کا منظر پیش کرےگا مگر وہاں کسی زرداری و بلاول کے بیٹھنے کے لئے ایک انچ زمین نہ ہوگی۔

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team