اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت26-04-2010

 پارلیمنٹ ہی سپریم ہے

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

صدر مملکت زرداری نے ا18 ویںترامیم کے مسودے پر دستخط کرکے اسے ائین کا اٹوٹ انگ بنادیا۔ کہا جارہا ہے کہ اس ترامیم میں کچھ سقم رہ گئے ہیں مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ صیح سمت میں پیش رفت ہوئی ہے۔پارلیمنٹ کے توسط سے ائین میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں تبدیلیاں جمہوری رحجانات کا پیش خیمہ ہیں جس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت بدلے ہوئے سیاسی سنیاریو کی رو سے مثبت ائینی تبدیلیاں لانے کی صلاحیات سے مالا مال ہے۔مسودے پر دستخط کرنے کی تقریب میں شرکت کرکے نواز شریف نے بھی اس راز کو پالیا ہے کہ پاکستان کی بقا جمہوریت میں پوشیدہ ہے۔ انکی شرکت احسن قدم ہے۔ ہندوستان کے سابق صدر محمود حسین نے اپنی بائیوگرافی میں لکھا ہے کہ کسی بھی قوم کے مستقبل کا انحصار سیاسی قیادت کے فہم و تدبر میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اگر قیادت دانا اور مدبر ہو تو وہ ہزار ہا مشکلات اور کٹھن مراحل کے باوجود قومی مفاد کے حصول کی سرگرم کوششوں میں جتی رہتی ہے جئبکہ خود غرض بے ضمیر اور اقتدار کے پجاری قائدین ملک و قوم کو تباہی کی طرف دھکیل دیتے ہیں ۔ہندوستانی صدر نے درست کہا ہے ۔ پاکستان کی62 سالہ تاریخ میں سیاست دانوں نے فوجی جرنیلوں کے مقابلے میں کئی تابندہ کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔مسئلہ ائین سازی کا ہو یا یا ائین کی اصل شکل میں بحالی کا بھارت کی قید سے80 ہزار فوجیوں کی رہائی کا مسئلہ ہو یا سانحہ کشمیر کا معاملہ یاکارگل جنگ میں فوجی ایڈونچر کو عالمی کوششوں سے درست کرنے کا کریڈٹ ہو، امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی طاقت کی بنیاد رکھنے کا تاریخ ساز فیصلہ ہو یا ایٹمی دھماکے کرکے ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کے اعزاز سے سرفراز کرنے کا معاملہ ہو یہ زمہ داری سیاسی قائدین نے خوب نبھائی۔پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کا زخم، قوم کو لسانی مذہبی، گروہی اور تعصبی فرقوں میں تقسیم ،ہیروئن کلاشنکوف کلچر کا ناسور اور شخصی امریت کے لئے ائین میں مشرقانہ ترامیم کی پیوندکاری ،مہنگائی ہارس ٹریڈنگ اور غیر سیاسی جماعتوں کی راتوں رات تشکیل و پیدائش فوجی امریت کے کارہائے نمایاں ہیں۔پاکستان کو سیاسی معاشی جمہوری اور صنعتی تنزل پزیری میں ڈبونے میں فوجی ڈکٹیٹروں کے جرائم نے اظہر من التمش کردار انجام دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ہماری سیاسی قیادت نے قومی مفاد کے تناظر میں باہمی مشاورت سے1973 کا ائین مرتب کیا مگر ظلم تو یہ ہے کہ فوجی امر نے صرف 4 سال بعد1977 میںائین کو نہ صرف معطل کردیا بلکہ اپنی امریت کی دیر گاہ سلامتی کے لئے 8 ویںترمیم کے توسط سے تمام اختیارات اپنی زات میں مرتکز کرلئے۔58 ٹو B کی بدنام زمانہ ترمیم اسی دور کی شاہکار نشانیاں ہیں۔نواز شریف کے دوسرے دور میں سیاسی جماعتوں نے ضیائی ترامیم کو ختم کرکے ائین کی جمہوری ساخت بحال کی گئی مگر اکتوبر1999 کے مشرفی انقلاب کے بعد ائین کا 17 ویںترمیم کے نام پر تیاپانچہ کیا گیا۔ ضیائی اور مشرفی گماشتوں کی ائینی ترامیم نے ائین کو صدارتی مورتیوں میں بدل ڈالا۔وزیراعظم کا عہدہ نمائشی و فرمائشی بن کر رہ گیا۔فروری2008 کے الیکشن میں معرض وجود میں انے والی پارلیمان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا تھا جس میں اہم ترین ائین سازی تھی تاکہ ائین کو دوبارہ جمہوری شکل کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ صدر زرداری نے رضا ربانی کی قیادت میں26 رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں کے قانونی بقراط شامل تھے۔کمیٹی نے9 ماہ کی عرق ریزی ، جہد مسلسل اور باہمی ڈائیلاگ سے18 ویں ترمیم کا مسودہ تیار کیا جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرکے سیاسی تاریخ کے کالے اوراق میں روشن باب کا اضافہ کیا۔18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد امید واثق ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی طرز حاکمیت مذید مستحکم ہوگا اور جمہوری روایات اور اقدار کا دور دورہ ہوگا اور عوام کو درپیش حقیقی مسائل کو تندہی سے حل کرنے کی طرف برق رفتارپیش رفت ہوگی۔ بدقسمتی سے ہر دور میں جب کبھی سیاسی سربراہوں نے اتحاد و یگانگت سے قومی مفاد میں فیصلے کئے تو غیر جمہوری عناصر نے سیاسی سکور ٹانکنے کے لئے تنقید برائے تنقید کے گھوڑے دوڑا ڈالے تاکہ جمہوریت کا نو زائیدہ پودا افزائش سے قبل پت جھڑ کا نشانہ بن جائے۔ ایسے ناقدین نے قومی وحدت کے تصور کو پارہ پارہ کرنے کا مکروہ کردار انجام دیا۔اس پر طرہ یہ کہ ماضی کی عدلیہ نے جرنیلی ترامیم اور شب خون کو قانونی جواز بخشا۔18 ترمیم کی منظوری کے خلاف وکلا کا ایک گروپ نہ صرف بے سری بانسری بجا رہا ہے تو دوسری طرف ترمیم کو عدالت میں چیلنج کرکے پارلیمان کی سپرمیسی کو زنگ الودہ کرنے کی مہم شروع کردی گئی ہے ۔ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ18 ویں ترمیم کو پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے منظور کیا ہے۔ عدلیہ اسے رد نہیں کرسکتی اگر ایسا ہوا تو تصادم ناگزیر ہے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے شیخی بگھاری ہے کہ پارلیمان کو ائین کے بنیادی اجزائے ترکیبی ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔عدلیہ کسی شق کو مسترد کرسکتی ہے۔ معروف قانون دان اکرم شیخ کہتے ہیں کہ مجھے اعتزاز احسن نے بتایا ہے کہ اگر عدلیہ نے مداخلت کی تو پارلیمنٹ عدلیہ کے فیصلے کو چند منٹوں میں سکریپ کردے گی اور ججوں کو نتائج بھگتنا ہونگے۔سپریم کورٹ بار کے صدر قاضی انور کہتے ہیں کہ اعتزاز عدلیہ کو دھمکارہے ہیں۔عدالت ہر اس شق کو ختم کرنے کے ہتھیار سے لیس ہے جو ججز کی ازادی پر قدغن لگاتی ہے۔ایس ایم ظفر کا نکتہ نظر ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی قانون کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وہ قانون سازی میں بااختیار ہے۔اس اہم ترین ائینی تناو پر چیف جسٹس اف پاکستان نے جوڈیشل کانفرنس کے موقع پر کہا عدلیہ ریاستی اداروں کو اختیارات کے تجاوز پر روک سکتی ہے۔عدالتیں اسلامی اقدار اور بنیادی حقوق کے منافی اقدامات کو کالعدم کرسکتی ہیں۔پارلیمنٹ کو قانون کی حدود میں رہتے ہوئے قانون سازی کرنی چاہیے۔چیف نے کہا کہ وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہیں۔پاکستان میں ایسے فوجی ڈکٹیٹر گزرے ہیں جو عوامی جواب دہی سے پہلو تہی کا بہترین جواز تراشتے تھے کہ وہ خدا کی حاکمیت پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ خدا اپنے بندوں سے جدا نہیں ہے۔اواز خلق ہی نقارہ خدا ہوتی ہے۔بندوں کی خوشی میں اسکی خوشی اور انسانوں کی ناراضگی میں اسکی ناراضگی کا راز پنہاں ہوتا ہے۔بندگان خدا کی نمائندگی کا اختیار بھی عوام کے منتخب ادارے کو حاصل ہے۔کسی غیر منتخب شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کوئی عزر تراش کر عوامی ادارے یعنی اسمبلی کو بائی پاس کرے۔یہ کہنا کہ پارلیمنٹ چاہیے جتنے اتفاق و مشاورت سے کوئی قانون سازی کرے اسے کسی دوسرے ادارے کا سربراہ بیک جنبش قلم رد کرسکتا ہے بالکل لغو نظریہ ہے۔پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنا قوم کی تذلیل ہوگی۔عوامی مفاد کا ہر فیصلہ پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔اب جبکہ اتفاق رائے سے18 ویں ترمیم پاس ہوچکی ہے اسکے خلاف عدلیہ میں رٹیں کرنا یا وکلا کی جانب سے متنازعہ بیانات کی چھنکار سے ججز کی خوشنودی حاصل کرنے کی مشقیں کرنا غیر ائینی فعل ہے جسکی مذمت کی جانی چاہیے۔اگر عدلیہ نے پارلیمنٹ کے اقدامات کو بلڈوز کرنے کی کوشش کی تو پھر نیو برانڈ مشرفی یا ضیائی انقلاب سارے سسٹم کو پل بھر میں خش و خاک کی طرح بہادے گا۔ حکومتی بڑوں وکلا عدلیہ کے افلاطونوں اور بیوروکریسی کو ہندوستانی صدر محمود حسین کے فلسفے کی روشنی میں اپنا اپنا ائینی کردار ادا کرنا چاہیے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team