اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت05-05-2010

پرتشدد تحریکیں اور نئے صوبوں کی تشکیل

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

 
بنیادی سماجی حقوق سے محروم، غربت و بیروزگاری کے عفریت میں جکڑی ہوئی پاکستان کی90 فیصد ابادی دنگ رہ گئی کیونکہ18 ترمیم کے مسئلہ پر ریاست کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور رہنماوں نے کمال فراست اور باہمی اعتماد سازی کے مظاہر دکھائے۔مشرف کی 17 ترمیم کو غتر بود کرنے کے لئے پہلی مرتبہ سیاسی قیادت یکجہتی اور اتحاد سازی کی روز روشن مثال قائم کرکے ثابت کردیا کہ اگر ایسا رشتہ قائم و دائم رہا تو پھر کسی ہوس گیر جرنیل کو جمہوریت پر شب خون مارنے کی جرات نہ ہوگی۔ تھامس مور نے طویل عرصہ قبل کہا تھا کہ دنیا کی کوئی سپرپاور اپنی سلامتی و وحدت کو اس وقت تک ناقابل تسخیر نہیں بناسکتی جب تک وہاں عوامی اتحاد و اتفاق قائم نہ ہو گا۔ تاریخ کئی ایسی شعلہ افروز مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ازمنہ قدیم سے لیکر موجودہ 21 صدی تک کمزور اقوام نے ہزاروں گنا طاقتور حریف کو جوش جنون سے پچھاڑ دیا ۔ کمزور ریاستیں یگانگت، سیاسی و معاشی استحکام کے توسط سے ا سلامتی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں ۔ پاکستان میں کسی متنازعہ امور پر غالب سیاسی جماعتوں کا ہم اہنگ ہونا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔17 ترمیم کے خاتمے پر پوری قوم نے جشن منایا مگر دکھ تو یہ ہے کہ شرپسند وں اور پاکستان مخالفین کو قومی یکجہتی کی یہ ادا پسند نہیں ائی اور یار لوگوں اور غیر ملکی ایجنسیوں نے ایسے گھناوئنے طریقے اپنا رکھے ہیں تاکہ پاکستان میں ملکی وحدت کا نظریہ ہی دم توڑدے۔18ویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خواہ رکھا گیا اور یہ سارا عمل مشاورتی انداز و اطوار میں سامنے ایا۔یہ بل قومی اسمبلی سے منظور ہوکر سینٹ میں بھی اپنی فتح کے جھنڈے گاڑھ چکا ہے۔۔ خیبر پختون خواہ کے مخالفین نے پلک جھپکتے ہی ہزارہ ڈویژن علیحدہ صوبائی حثیت کے لئے پرتشدد مظاہروں اور اگ و خون کا کھیل بیک وقت شروع کردیا ہے ۔ تحریک صوبہ ہزارہ کے رہنماوں اور سیکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں سے 8 احتجاجی زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔ مسلم لیگ ق نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور نیو صوبہ ہزارہ کی حمایت کا اعلان کردیا۔ صوبائی حکومت نے امن و سکون اور ناخوشگوار واقعات سے بچنے کے لئے ہزارہ میں دفعہ144 نافذ کردیا مگر گھیراو جلا و اور اگ و خون کی ہولیاں بہانے والوں نے قانون شکنی کرتے ہوئے قانون کے پرخچے اڑا دئیے۔ احتجاج کرنا ہر انسان کا جمہوری حق ہے مگر روئے ارض پر نہ تو کوئی ایسا قانونی جواز پایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی مذہب نے دوسروں کی املاک کو نذراتش کرنے کی اجازت دی ہے ۔ ایبٹ اباد میںبپھرے ہوئے مظاہرین نے ہائی وے بند کردئیے۔پختونوں کی دوکانیں اور صوبائی حکومت کی گاڑیوں کو نذراتش کردیا۔ہر سو لاقانونیت ہٹ دھرمی انارکی کا رقص بسمل ہماری زہنی خجالت کی حقیقی تصویر کا راج تھا۔ صوبے کے نام کی تبدیلی کی اصل محرک anpہے۔anpتبدیلی نام پر ایک طرف خوشیاں منارہی تھی تو دوسری جانب غیر ملکی ایجنسیوں نے سیاسی اتفاق و اتحاد کو نیست نابود کرنے کی خاطر راتوں رات تحریک صوبہ ہزارہ کو پروان چڑھا کر ملک دشمنی اور قتل جمہوریت کی بنیاد رکھ دی۔ صوبائی حکومت پہلے ہی مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔تشدد فرقہ واریت اور انبتہاپسندی نے فاٹا میں عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ انتہاپسندی کے ہاتھوں خونی صدمات سہنے والی ANP ثابت قدمی سے شدت پسندوں کے ساتھ مردانہ وار لڑرہی ہے قومی رہنماوں کے متضاد و متعصب رویوں نے چند روزہ باہمی اتفاق اور قومی یکجہتی کی بنیادیں لرزا دی ہیں۔ مسلم لیگ نواز نے اخری لمحات پر ائینی کمیٹی کی اصلاحات کو مسترد کردیا تھا مگر بعد میں بے پناہ عوامی اعتراضات اور امنگوں کی روشنی میں ترامیم کی حمایت کردی تھی مگر اب شریف برادران ہزارے کے پر اشوب دور کی روشنی میں بہکی بہکی باتیں کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ نئے نام سے متفق نہ تھے۔ہزارہ ڈویژن کے ممبران اور پارٹیوں کے کارکنان اپنے قائدین کے فیصلوں پر تنقید کررہے ہیں۔تحریک کے افلاطونوں نے نے ساری غلطیوں کا بوجھ صدر اور وزیراعظم کے سر تھوپ دیا ہے۔anp کا موقف ہے کہ تبدیلی نام صوبے کی اکثریتی ابادی کا وہ مطالبہ ہے جو وہ 1947 سے بھی پہلے سے جاری و ساری ہے۔سرخ پوش پشتونوں نے اسے اکثریت کی فتح کا نام دیا ہے۔سرحدی عوام نے اپنی شناخت کی باراوری کے لئے پاکستان بننے سے پہلے ہی مسلم لیگ سے رابطہ کیا گیا تھا۔ نے احتجاج کو غیر ضروری اور احتجاجیوں کو مشرف کی باقیات کا نام دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی 18 ترمیم کو منظور کرلیا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ ہمارے ملک کے لئے جمہوریت لازم عنصر بن چکی ہے مگر ایک سچ تو یہ بھی ہے ہماری جمہوریت اپنے فن و کمالات اور اداکاری کے وہ جوہر نہ دکھا سکی جس کی توقع طویل عرصے سے کی جارہی ہے۔پاکستان میں پے درپے مسلط ہونے والے جرنیلوں نے ایک طرف جمہوریت کے پودے کو پنپنے نہیں دیا تو دوسری طرف امریتوں نے ریاستی اداروں کے تار و پود کو بکھیر دیا ہے۔ موجودہ دور کو مشرف سے زیادہ بدنام سمجھنے والوں کی عقل پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔زرداری نے اپنے سارے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کرکے ماضی کے تمام حکمران جرنیلوں اور سول حکومت کی اڑ میں ڈکٹیٹر مسلط کرنے والوں کو شکست دیکر تاریخ رقم کردی۔ ہزارے میں پھیلی ہوئی طوائف الملوکی کے پس پردہ کئی خفیہ ہاتھ ملوث ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی سیکیورٹی فورسز صدر مملکت وزیراعظم کو تحریک ہزارہ پراونس کے ساتھ ڈائیلاگ کرنے چاہیں تاکہ باہمی مشورہ سے تلخیوں کو کم کیا جاسکے ۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کیا غیر ملکی ایجنسیاں قوم کو لسانی ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے تشدد امیز کاروائیوں کو پروان چڑھا رہے ہوں؟ یوں طوفانی انداز میں شروع ہوجانے والی تحریک پر کڑی نظر رکھی جائے کیا ہماری ایجنسیاں غیر جمہوری عناصر کے ساتھ ملکر سیاسی یکجہتی کی فضا کو مکدر کرنے میں تو ملوث نہیں۔؟ پاکستانی قوم کی غالب ابادی مصائب و الام میں جکڑی ہوئی ہے۔غربت بے روزگاری بھوک و ننگ نے لوگوں کو اگاہی نہیں دی۔ حکومت عوامی مسائل کے حل کئے کئی کردار ادا کئے۔ ہزارہ میںہنگاموں جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو ریاستی یکجہتی کے لئے ریاست کو قوت کے بے رحمانہ استعمال سے گریز کرنا ہوگا۔ نئے صوبوں کے مطالبات ہر قوم کیا بنیادی حق ہے۔اگر ائین پاکستان سندھیوں کے لئے سندھ بلوچوں کے لئے بلوچستان پنجابیوں کے لئے پنجاب اور پختونوں کے لئے پختون خواہ کے ناموں کی اجازت دے سکتا ہے۔اگر سرحدی صوبے کا نام خیبر پختون خواہ رکھنے کے لئے ائین میں ترمیم کی جاسکتی ہے تو پھر ہزارے کے باسیوں اور سرائیکی وسیب کے کروڑوں محب وطن پاکستانیوں کی شناخت کے لئے سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے قیام کے لئے ائین پاکستان میں ترامیم کرنا ناممکن کیوں؟ پاکستان بیرونی و اندرونی محازوں پر پر سنگین خطرات میں گھرا ہوا ہے۔معاشی سماجی اور سیاسی استحکام کے لئے قومی یکجہتی ناگزیر بن چکی ہے۔قومی سلامتی کے لئے سرائیکی و ہزارہ صوبے کا احیا لازم ہے۔اگر ارباب اختیار نے سرائیکیوں اور ہزارہ ڈویژن کے احتجاجیوں کو صوبائی خود مختیاری نہ دی تو پھر یاد رہے کہ ایک اور سقوط تیز رفتاری سے ہمارا تعاقب کررہا ہے۔دوسری طرف اگر ہم اقوام عالم کے نقشے پر زندہ و تابندہ رہنے کے متمنی ہیں تو پھر حکمرانوں سیاسی قلابازوں بیوروکریسی اور پوری قوم کو تھامس مور کے قول کی روشنی میں اتحاد کا دامن تھامنا ہوگا ورنہ سب بیکار ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team