اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت19-05-2010

 جمہوری استحکام اور پارلیمنٹ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

آصف علی زرداری حسب سابق میڈیا کے افلاطونوں قانونی فلاسفروں اور سیاسی بانکوں کی تندوتیز تنقید کی زد میں ہیں ۔ انکا تازہ جرم اپنے ائینی اختیارات کی تقلید ہے جو انہوں نے وزیرداخلہ رحمن ملک کی سزاوں کو معاف کرنے کے لئے استعمال کی۔ ناقدین ایک طرف پارلیمنٹ کی سپرمیسی ائین و قانون کی پاسداری کا غوغہ مچاتے ہیں مگر دوسری طرف وہ مرکزی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں سے ملنے والے صدارتی مینڈیٹ کے تقدس کا احترام نہیں کرتے ۔ صدر پارلیمنٹ کا جزو لانفیک ہیں۔ پاکستان میں روزانہ عدلیہ صدر مملکت اور حکومت کی کشاکش کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔اب سوال تو یہ ہے کہ عدلیہ ،پارلیمنٹ اور فوجی و سول ایسٹیبلشمنٹ میں سے کونسا ادارہ سپریم ہے؟ اقوام عالم کی ترقی یافتہ اور جمہوری ریاستوں میں پارلیمنٹ ہی واحد سپریم ادارہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جہاں کہیں فوجی امروں اور بادشاہوں نے پارلیمنٹ کی تقدیس مجروح کرنے کی ظلمت ڈھائی انکا برا حشر ہوا۔ ماضی کے چند اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو کئی ایسی دیدہ زیب داستانیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جن ممالک میں پارلیمنٹ کو سپریم طاقت حاصل ہے انہی ملکوں نے معاشی جمہوری صنعتی و تہذیبی و ائینی ترقی کے انقلابات کو جنم دیا۔۔اس پر مستزاد یہ کہ ایسی مثالوں میں پاکستان کے کئی بڑوں کے لئے بصیرت کا ساماں موجود ہے۔ برطانوی بادشاہ چارلس کا تعلق عیسائیوں کے پروٹیسٹنٹ فرقے سے تھا جبکہ فرنچ شہنشاہ لوئی ہنری چہارم کیتھولک فرقے کا پرتش کار تھا۔چارلس نے مذہب کی پرواہ کئے بغیر ہنری چہارم کی بیٹی سے شادی کرلی جو پروٹسٹنٹ فرقے سے سخت نفرت کرتا تھا۔1621 میں فرنچ بادشاہ لوئی نے پروٹیسٹنٹ فرقے کے پجاریوں کے خلاف فوجی اپریشن شروع کردیا۔برطانوی بادشاہ چارلس نے برطانوی عوام کے جذبات کو دھتکار کراپنے ہم مذہبوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم سے پردہ پوشی کی۔اس پر طرہ یہ کہ برطانیہ نے فرنچ شہنشاہ کے فرعونی اقدامات کی حمایت کی۔چارلس کے متعصبانہ روئیے پر برطانیہ کے طول و عرض میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔یہ وہ دور تھا جب برطانیہ میں پارلیمنٹ معرض وجود میں اچکی تھی جو شہشاہوں کی انکھوں میں کانٹے کی طرح چھبتی رہتی تھی۔بادشاہ اور پارلیمنٹ کے درمیان خلیج حائل تھی۔میگناکارٹا کے مطابق بادشاہ سرکاری خزانے کو ایوان کی منظوری بغیر ہاتھ تک لگانے سے قاصر تھا۔بادشاہ نے ٹیکسز کی رقم سے دس لاکھ پاونڈ حاصل کرنے کی کوشش کی تو پارلیمنٹ نے صرف ایک لاکھ پاونڈ کی منظوری دی جس پر چارلس سیخ پا بن گیا ۔ طرفین پارلیمنٹ اور چارلس کے مابین اختیارات کی جنگ شروع ہوگئی۔ بادشاہ نے اپنے دور کے 58.2B کے کلہاڑے سے پارلیمنٹ کے وجود کوقتل کردیا۔۔1626 میں دوسری پارلیمنٹ وجود میں ائی۔دوسری پارلیمنٹ نے بھی چارلس کی شاہ خرچیوں، قومی وسائل کی لوٹ مار اور ٹیکسز کے نفاز پر پابندی عائد کردی۔ ممبران نے مطالبہ کیا کہ بادشاہ کے نورتن ،مشیر و وزیر ایوان میں اراکین کے سوالات کا جواب دیں مگر چارلس کو پارلیمنٹرین کی یہ ادا پسند نہ ائی اور اس نے دوسری بار پارلیمنٹ کا تیاپانچہ کردیا۔فریقین کے مابین کدورتیں بڑھتی گئیں۔ممبران عوام کے منتخب نمائندوں کی حثیت سے پارلیمنٹ کو اقتدار کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔وہ ایوان کی سپرمیسی کے لئے ڈٹ گئے۔برطانوی قوم انکی پشت پر کھڑی ہوگئی۔چارلس نے برطانیہ کے مذہبی پیش امام ارچ بشپ WILLIAM LOUDسے فتوی جاری کروایا کہ بادشاہ خدا کا نمائندہ ہے جسکا تقرر خدا کی مرضی و منشا کے مطابق ہوا ہے۔ ولیم کے خود ساختہ فتوے نے برطانویوں کو برانگیختہ کردیا۔یوں سیاستدان فتوے جاری کرنے والے ارچ بشپ کے بھی خلاف ہوگئے۔بادشاہ نے ڈکٹیٹرشپ کے سرور میں 5 سالہ عرصہ میں تین اسمبلیوں کا خون کیا ۔ چوتھی اسمبلی کے نے ٹھان رکھی تھی کہ ایک طرف بادشاہ کے امرانہ اختیارات کو محدود کردیا جائے گا تو دوسری جانب ائین کشوں اور امروں کے لئے موت سمیت دیگر سنگین سزاوں کی قانون سازی کی جائے گی۔اسی اسمبلی نے اپنی سپرمیسی تسلیم کروائی اور بادشاہ کے قریبی مقربین اور وزرا ولیم لائیڈ اور تھامس وینٹ کو غداری کے جرم میں پھانسی کے تختے کا دولہا بنا دیا۔پارلیمنٹ نے پہلی مرتبہ بادشاہ اور اسکے پیادوں کو پھانسی دینے کا قانون منظور کیا۔1941 میں برطانیہ خانہ جنگی کے شعلوں میں بھڑکنے لگا۔ انگلینڈ اور ویلز کے جاگیرداروں سرمایہ داروں نے بادشاہ کی حمایت کا اعلان کیا۔وہ عام برطانیوں کو شاہی فوج میں بھرتی کرانے کا دباو ڈال رہے تھے۔دوسری طرف لندن اور جنوب مشرق کی کاونٹیاں پارلیمنٹ کا ساتھ دے رہیں تھیں۔ تصادم اور خانہ جنگی کے شعلوں کو دیکھر چارلس کی اکڑفوں چلتی بنی اور وہ اکسفورڈ اور سکاٹ لینڈ کی جانب فرار ہوگیا۔یہ شعلے تین سال بھڑکتے رہے۔شاہ کی امریت پسند فوج پسپا ہونے لگی۔عوامی سمندر کے سامنے چارلس کی تمام سازشیں و مکرکرنیاں ریت کے گھروندوں کی طرح بہہ گئیں اور وہ شکست سے دوچار ہوا۔چارلس کے ایک ہزار گارڈز مارے جبکہ چار ہزار پکڑے گئے۔شاہی فوجوں کی ہزیمت نے عوام کو فتح دلوائی۔چارلس اکسفورڈ سے لندن اور سکاٹ لینڈ سے جنگلوں تک کی خاک چھانتا رہا۔1647 جنوری میں چارلس کو سکاٹ لینڈ سے پکڑا گیا مگر وہ فوجی حراست سے بھاگ گیا۔1647 نومبر میں کرا مویل کی افواج نے ایک طرف چارلس کو دوبارہ گرفتار کرلیا تو دوسری جانب شاہی لشکر کو جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں مکمل شکست ہوئی۔گرفتاری کے بعد چارلس پر ان گنت اموات جلاو گھیراو اور فسادات سمیت غداری کے درجنوں مقدمے قائم ہوئے۔تیس دسمبر1649 چارلس کے لئے موت کا پیغام لیکر ایا۔چارلس49 برس کی عمر میں پھانسی کا حقدار ٹھرایا گیا۔ چارلس کو شاہی محل کے دروازے پر لایا گیا۔اس نے کرنل نیکر کے ساتھ سرگوشی کی کہ یہاں کوئی میری بات سننے پر امادہ نہ ہوگا۔لوگوں سے کہو کہ وہ مجھے ازیت نہ دیں۔چارلس نے دونوں قمیضیں اتار دیں اور اپنا سر بلاک پر رکھ دیا جسے جلاد نے کلہاڑے کے ایک وار سے تن سے جدا کردیا۔چارلس کی گردن زنی کے بعد بادشاہت برطانیہ میں قصہ پارینہ بن گئی مگر جمہوریت پارلیمنٹ اور عوام کا اج تک وہاں راج ہے۔تمام اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔برطانیہ میں بادشاہت کی نشانیاں تو موجود ہیں مگر پارلیمنٹ اقتدار کا سرچشمہ ہے۔ویسے تو ہمارے ہاں افرنگیوں کے کئی تہذیبی قانونی اور انتظامی ورثے موجود ہیں جنکی اتباع اج بھی کی جاتی ہے مگر پارلیمنٹ کو برطانوی دارلعلوم کی تابندہ روایات پر کاربند رہنے کا انتظام کیوں نہیں کیا جاتا؟سیاسی و زاتی مخاصمت کی اڑ میں پارلیمنٹ کو توڑنے ،کمزور کرنے اور پارلیمانی روایات ،فرائض کو عدلیہ میں گھسیٹنے والے کسی صورت میں جمہوریت پسند نہیں بن سکتے۔اگر پوری قوم سیاسی برادری ،قانون دان اور اراکین پارلیمنٹ ایوان کی سپرمیسی کے لئے یک جان بن جائیں تو مستقبل میں نہ تو کوئی پاکستانی و خاکی چارلس پارلیمنٹ کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا اور نہ ہی کوئی جسٹس منیر پارلیمنٹ کو قتل کرنے والے ملزمان کو نظریہ ضرورت کے ہتھیار سے معصوم قرار دینے کی جرات کرے گا؟ عدلیہ کی حمایت میں قومی اسمبلی کو نیچا دکھانے والوں کو محولہ بالا داستان سے سبق حاصل کرتے ہوئے مان لینا چاہیے کہ پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے جو ملک میں سیاسی و جمہوری استحکام کے لئے ناگزیر حثیت رکھتا ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team