اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت29-05-2010

تقدیس محمدی اور عالمی قانون سازی

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


امریکی صدر بش نے 11/9کے بعد اسلام دشمنی کے بیہودہ جذبات میں مغلوب ہوکر کروسیڈ جنگوں کی ہانک لگائی تھی گو کہ وائٹ ہاوس نے اسے زبان کی لغزش سے منسوب کرکے تردید کردی مگر سچ تو یہ ہے کہ بعد کے واقعات و حالات نے ثابت کردیا کہ بش کی دریدہ دہنی صد فیصد درست تھی۔مغرب میں ایک منظم منصوبہ بندی سے اسلامی شعائر کی تکذیب ،مسلمانوں کے جذبات میں نشتر چھبونے اور اسلام کو ازکار رفتہ بنانے کی سازشیں زوروں پر ہیں۔مسلم امہ کے احساسات میں چنگاریاں سلگانے کے لئے مغرب میں کبھی مقدس شخصیتوں کے توہین امیز خاکے چھاپے جاتے ہیں تو کبھی کارٹون۔سلیمان رشدی ایسے فاسق و فاجر دانشور کو ایشیائی ہیروز کی فہرست میں شامل کروانا سر کا خطاب دلوانا، گونتاناموبے جیل میں قران پاک کو اگ لگانا، شاتم رسول تسلیمہ نسرین کی پشت پناہی کرنا، مغربی زرائع ابلاغ میں اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کرنے کے ہزاروں مضامین کی اشاعت، جوتوں پر کلمہ طیبہ کندن کرنا، ننگے اجسام پر قرانی ایات لکھوا کر ارٹ کا نام دینا، مساجد کے میناروں پر پابندی فرانس و یورپی یونین میں حجاب پر پابندی ایسے اقدامات اتفاقیہ نہیں تھے بلکہ سوچی سمجھی پلاننگ تھی تاکہ مسلمانوں کو مشتعل کرکے انہیں انتہاپسندی و دہشت گردی کا کوسنا دیا جاسکے۔ عراق و افغانستان میں لغویات کو بیس بنا کر جس طرح معصوم بچوں عورتوں اور ازادی کا نعرہ لگانے والے نوجوانوں کا قتل عام کیا گیا یہ نسل کشی نہیں تو اور کیا ہے۔امریکہ، مغرب اور اسرائیل کے حکمرانوں کے ازہان میں یہ سفاکیت بھری خواہش ٹھاٹھیں ماررہی ہیں کہ کسی طرح کرہ ارض سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا کیا جائے۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لئے انٹرنیٹ کو استعمال کررہی ہیں۔فیس بک پر گستاخانہ کارٹونوں کا مقابلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ فیس بک کا تخلیق کار ایک صہیونی ارب پتی مارک زو گبرک ہے جسے دنیا بھر کے انتہاپسند یہودیوں کی پشت بانی ہے۔فیس بک تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب ایک امریکی ٹی وی چینل نے انحضرت کے خاکوں کے مقابلوں کا اعلان کیا۔مسلمانوں کے شدید رد عمل نے ٹی وی انتظامیہ کو مقابلہ منسوخ کرنے پر مجبور کردیا۔امریکی کارٹونسٹ مولی نورس نے منسوخی پر احتجاج کرتے ہوئے فیس بک کے توسط سے دوسرے کارٹونسٹ کو حضرت محمد کے نازیبا کارٹون بھیج کر مقابلے میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ملعون لی مورس تو بعد میں پسپا ہوکر مسلمانوں سے معافی کا ناٹک رچا کر رفو چکر ہوگئی مگر فیس بک کی کم بخت ایڈمنسٹریشن نے بڑی ڈھٹائی سے نہ صرف اللہ کے مقرب ترین نبی کے تمسخر زدہ خاکے شائع کرڈالے بلکہ انہوں نے مقابلہ جاری رکھنے کا اعلان کر کے ڈیڈھ ارب مسلمانوں کے احساس و جذبات میں اگ سلگادی۔پاکستانی عدلیہ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے سب سے پہلے معاملے کی سنگینی کا نوٹس لیا اور17 کروڑ پاکستانیوں کی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوئے فیس بک اور متعلقہ یوٹیوب پر پابندی عائد کردی مگر دکھ تو یہ ہے کہ انڈونیشیا کے علاوہ کسی اور اسلامی ملک نے ابھی تک پاکستان کی تقلید نہیں کی۔فیس بک امت مسلمہ کی ریاستوں سے سالانہ کروڑوں روپے کماتی ہے۔اگر مسلم ریاستیں فیس بک کاتشہیری کاروبار ختم کرلیں تو انٹرنیٹ سے فیس بک کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔امریکہ و یورپ میں ہر سال ازادی اظہار کے نام پر پیغمبر انسانیت کی شان میں گستاخی کے درجنوں واقعات زرائع ابلاغ میں جان بوجھ کر چھاپے جاتے ہیں مگر جب کوئی بھولہ بھٹکا مغربی دانشور ہٹلر کے ہاتھوں قتل کئے جانیوالے یہودیوں کے لئے مختص لفظ ہولو کاسٹ پر انگلی اٹھاتا ہے تو وہ مجرم بن جاتا ہے۔دنیا کے 2کروڑ یہودیوں کے دینی عقائد اور امنگوں کا تو خاصا تحفظ کیا جاتا ہے مگر المیہ تو یہ ہے کہ کوئی عالمی ادارہ ڈیڈھ ارب مسلمانوں کے دینی شائعر پر کیچڑ اچھالنے پر سزا دینے قانون نہیں رکھتا۔ امت مسلمہ کے 57 حکمرانوں ولی عہدوں شہنشاہوں اور مہاراجوں کا فرض ہے کہ وہ عشاق رسول بنکر uno میں قرارداد پیش کریں کہ ہولوکاسٹ کی طرح انحضرت کے تقدس کو پامال کرنے والوں کو سنگین سزائیں دینے کا قانون پاس کیا جائے۔ مغرب اپنے اپکو کائنات کا تہذیب یافتہ خطہ سمجھتا ہے جہاں جانوروں کے حقوق کے لئے کئی قوانین موجود ہیں اور ان قوانین کی رو سے جانوروں کو ایذا دینے والوں کو جیل کی سزا بھگتنی پڑتی ہے مگر دکھ تو یہ ہے کہ یورپین نہ تو ڈیڈھ ارب مسلمانوں کی امنگوں و ترنگوں کا خیال رکھتے ہیںور نہ ہی وہ مذہب کے احترام اور انبیا کرام کی تقدیس کو خاطر میں لاتے ہیں۔ حرمت انبیا اور شعائر اسلام کا تحفظ مسلمانوں کی اہم ترین ڈیوٹی ہے۔دوسری جانب فیس بک کی بندش پر روشن خیال اتھل پتھل مچارہے ہیں کہ ہم نے اپنے اوپر جدید سائنسی علوم کے دروازے بند کردئیے ہیں۔ایسی طفلانہ سوچ رکھنے والوں کا نظریہ ہے کہ سکیولر سوچ ترقی کا زینہ ہے اور جب سے یورپ نے مذہب کو حکومت و سیاست سے نکالا یورپ ترقی کی منازل طے کرتا ہی جارہا ہے۔جہاں تک فیس بک کے حامیوں کے اس استدلال کا تعلق ہے تو اسے سفید جھوٹ کہنا درست ہوگا۔مغرب انقلاب فرانس یعنی 19 صدی میں مذہب سے علحیدہ ہوا تو 20صدی میں یورپ عالمی جنگوں کا چمپین بن گیا۔عالمی جنگوں میں کروڑوں لوگ موت کا لال کفن پہن گئے۔عالمی جنگوں میں کسی پر دباو نہ تھا کہ وہ دین کی سربلندی کے لئے لڑے مگر پھر بھی ایسے لڑے کہ کئی نسلیں موت کی وادیوں میں اتر گئیں۔اسی عرصہ میں ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوئے۔اج دنیا بھر کے کئی ممالک میں کئی ایسے قوانین موجود ہیں جو فیس بک تو دور کی بات ہے نجی محفلوں میں بھی یہودیوں کے خلاف بات کرنے کو قابل دست اندازی جرم تصور کیا جاتا ہے۔ رومانیہ کے ائین میں یہودیوں کے خلاف نفرت پر اکسانا ملکی سلامتی کے لئے خطرے کا نشان ہے۔سپین کے ائین میں1996 کو شق نمبر22 اور510 شامل کی گئیں جو یہودیوں کے متعلق ہیں۔ان شقوں کی رو سے یہودیت کے خلاف بات کرنے والا 3 سالہ قید کا مجرم بن جائے گا۔2003 میں میکسیکو کے ائین میں ارٹیکل نمبر4 کا اضافہ ہوا کہ یہودیوں سے دشمنی کرنے والا قانونی مجرم ہوگا۔سوئزرلینڈ میں2001 میں ارڈینیس پاس کیا گیا جسکے مطابق تعلیمی نصاب میں یہودیت کا courseشامل ہوا تاکہ یہودیوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کو کم کیا جاسکے۔uno نے1992 میں ایک قرارداد پاس کی کہ یہودیوں کے خلاف نفرت کو عالمی جرم سمجھ کر جنگ کی جائے۔2005 میں امریکہ برطانیہ اور برازیل کی درخواست پرuno نے27 اگست کو عالمی یوم ہولوکاسٹ منانے کی قرار داد پاس کی۔پاکستانی عدلیہ اور حکومتی ادارے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایسی ویب سائیٹ پر پابندی لگائی جس نے امت کے کروڑوں لوگوں کو ابدیدہ کیا ہے۔پاکستان کو ایٹمی طاقت کے بعد عالم اسلام میں یہ دوسرا بڑا اعزاز ملا ہے کہ ہمیں تقدیس محمدی کے تحفظ کا موقع ملا ہے۔مسلم حکمرانوں اور امت مسلمہ کو یک جان ہوکر شاتمین رسول کو سنگین سازئیں دلوانے کے لئے عالمی سطح پر قانون سازی کی مساعی جلیلہ انجام دینی چاہیے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team