اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت03-06-2010

ارض فلسطین پر صہیونی قبضے کی62 سالگرہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

فلسطین پر صہیونی قبضے کے62 سال اپنی تمام تر ہیبت ناکی کے ساتھ مکمل ہوچکے ہیں مگر تا حال ابھی تک کوئی ایسی امید کی کرن نظر نہیں اتی جو ارض فلسطین پر6 دہائیوں سے طاری شب دیجور کا سینہ چاک کردے۔1897 میں جدید صہیونیت کے معمار تھیوڈر ہرزل نے پہلی عالمی صہیونی کانفرنس کے موقع پر ایک جملے میںکانفرنس کا خلاصہ بیان کیا کہ دنیا اگلے 50 برسوں میں جدید صہیونی ریاست کا ظہور دیکھے گی۔1917 میں سامراجیوں اور یہودیوں کے مابین معاہدہ بالغور ہوا اور پھر امت مسلمہ کی ناچاقیوں یورپی ممالک کی ریشہ دوانیوں اور امریکہ و برطانیہ کی کرم فرمائیوں سے تھیوڈر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور14مئی 1948 میں اسرائیل عالمی نقشے پر ظہور پزیر ہوا۔یہودی ریاست کا78 فیصد علاقہ مقبوظہ ہے جسکے تہذیبی حسبی و نسبی مالکان فلسطینی ہیں جو 62 سالوںسے اپنے ہی وطن میں مسافر بن کر بھٹک رہے ہیں۔قیام اسرائیل کے بعد دوسرا بڑا مقصد اسرائیل کو معاشی طور پر مستحکم بنانا تھا۔ساری دنیا کے یہودی تاجر اس مقصد میں جت گئے گو کہ یہودی ابادی کے لئے لحاظ سے دنیا کا 1 فیصد بھی نہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنی منصوبہ بندی مکاری اور قابلیت سے روئے ارض کے ہر شعبہ پر چھائے ہوئے ہیں۔یہودیوں کی معیشت صنعت و حرفت اور جدید سائنسی و طبعی ایجادات میں کارناموں کی فہرست دیکھ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔20 ویںصدی کے اکثر سائنسدانوں کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ائن سٹائن سے فرائیڈ تک اور مارکس سے فرائیڈ مین تک سارے شہرہ افاق سائنسدان صہیونیت کے پیروکار ہیں۔پچھلے105 سالوں میں یہودیوں نے ہر شعبہ زندگی میں182 نوبل پرائز جیتے ہیں جبکہ امت مسلمہ کی تنزل پزیری کا اس سے زیادہ کیا زلت امیز حال ہوسکتا ہے کہ اس عرصہ میں مسلمانوں کو 3 نوبل پرائز کا تاج پہننے کو مل سکا۔ امریکہ کی معاشی سلطنت کی بنیادیں85 کاروباری اداروں کی مرہون منت ہیں ان ادروں میں55 ایسے ہیں جنکی ملکیت یہودیوں کے ہاتھ ہے۔ وال سٹریٹ امریکہ کا وہ واحد فنانشل ادارہ ہے جو دنیا کی80 فیصد دولت پر چھایا ہوا ہے۔وال سٹریٹ کے مالک کا نام جارج سورس ہے جو کٹر یہودی ہے۔2010 کے اغاز میں کئے جانیوالے سروے کے مطابق روئے ارض پر صرف400 لوگ ایسے ہیں جنکی دولت کھربوں میں ہے۔کھرب پتیوں کی لسٹ میں154 یہودیت کے دیوانے اور اسرائیل کے عشاق جمال ہیں۔ امریکہ میں وائٹ ہاوس سے لیکر نامی گرامی دفاعی و صنعتی اداروں تک میڈیا سے لیکر سرکاری و غیر سرکاری اداروں تک یہودیوں کا تسلط ہے۔امریکہ کی خارجی و داخلی پالیسیاں اسرائیل کے مفاد کو مد نظر رکھ کر تشکیل دی جاتیءہیں۔وائٹ ہاوس شروع ہی سے یہودیوں کی سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے۔مغربی دانشور رابرٹ فسک نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ امریکہ کے55 کاروباری ادارے ایسے ہیں جنکے ولی وارث وائٹ ہاوس میں لگاتار بھانت بھانت کے سازشی کھیل کھیلتے رہتے ہیں۔امریکہ میں زرائع ابلاغ کی پانچ بڑی کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ہر کمپنی375 کے قریب ٹی وی نیٹ ورکس اور3900 ریڈیو اور سینکڑوں چینلز کا نظام سنبھا لتی ہے۔ ان کمپنیوں میں چیف ایگزیٹو سے لیکر جنرل منیجر تک اور براڈ کاسٹر سے لیکر خاکروب تک لاکھوں ملازمین یہودی ہیں۔دنیا کے10 بڑے کثیرالاشاعت میگزین3 بڑے اخبارات اور3 بڑی نیوز ایجنسیوں کی ملکیت یہودیوں کی جیب میں ہے۔ امریکی اور یہودی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔دونوں یک جان بنکر اسرائیل کو معاشی دفاعی مالی فوجی اور ہر قسمی ایڈ دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔یہودی پروٹوکول کی رو سے اسرائیل کے بانیوں نے گریٹر اسرائیل کا نعرہ لگایا تھا۔ امریکہ مغرب اور اسرائیل کے جو حمایتی امن کی صورت میں ازاد فلسطینی ریاست کا شوشہ چھوڑتے ہیں وہ دراصل یا تو خود نادان ہیں اور یا پھر مسلمانوں کو بہلانے پھسلانے اور طفل تسلیاں دینے کے لئے ایسے پر از فریب بیانوں کا جنگل اگاتے ہیں۔گریٹر اسرائیل کے نقشے کے مطابق اسرائیلی سلطنت کی لمبائی لبنان اور سعودی عرب اور چوڑائی دریائے دجلہ سے دریائے نیل تک پھیلی ہوئی ہے۔اس نقشے میں فلسطینی ریاست کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔اسرائیلی پرچم میں دو نیلی پٹیاں اور اٍن پٹیوں میں موجود ستارہ بالترتیب اسرائیلی حدود اور عظیم تر اسرائیل کی علامات کی نشان دہی کر رہے ہیں۔3 اپریل1968 کو برطانیہ کے یہودیوں نے ایک کارڈ شائع کیا جسکی پشت پر مڈل ایسٹ کا جغرافیائی نقشہ کندن تھا مگر مشرق وسطی کی حدود پر اسرائیلی پرچم لہرا رہا تھا۔امت مسلمہ اندھیروں کی سفیر بن چکی ہے جبکہ یہودی اور صلیبی دھیرے دھیرے اپنے استعماری عزائم کی طرف گامزن ہیں۔1948 میں اسرائیل کا رقبہ7993 مربع میل تھا جس میں1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے27 ہزار مربع میل کا اضافہ کردیا۔مشرقی یروشلم غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیاں مقبوضہ جات ہیں۔اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں برق رفتاری سے یہودی بستیاں تعمیر کررہا ہے تاکہ مقبوضہ علاقت یہودیوں کی ملکیت بن جائیں۔اوبامہ نے امت مسلمہ کے ساتھ ازسر نو تعلقات قائم کرنے کے لئے جب پچھلے سال مسلم ملکوں کا دورہ کیا تھا نے اسرائیل کو وارننگ دی تھی کہ بستیوں کی تعمیر فوری طور پر روک دی جائے کیونکہ قیام امن کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔اجکل دوبارہ طرفین کے مابین اجکل دوبارہ امن مزاکرات کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے مگر فلسطینی حریت پسند جماعت حماس کے شہسوار خالد حماس نے شرط عائد کی ہے کہ جب تک فلسطین کے مقبوظہ علاقوں میں بستیوں کی تعمیر روک نہیں دی جاتی تب تک وہ ڈائیلاگ نہیں کرسکتے۔ یہودیوں کے فلسطین پر خونخوار قبضے کے62 سالوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ یہودی اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہوچکے ہیں۔طاغوتی قوتوں اسلام کو سرنگوں کرنے کے لئے عالم اسلام میں نفرت کے بیج کاشت کئے تھے وہ تنااور درختوں کا روپ دھار چکے ہیں۔امت مسلمہ کی باہمی شورشوں اور رنجشوں کی بدولت اسرائیلی مشرق وسطی کے چوہدری بن گئے۔صہیونیوں نے امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ ازادی فلسطین کی دو جماعتوں حماس اور الفتح کو ایک دوسرے کے سامنے صف ارا کردیا ہے۔الفتح اسرائیل کی ہم نوالہ و پیالہ بن گئی۔قبلہ اول کی بازیابی اور بیت المقدس کی حرمت کو بچانے کے لئے مسلم حکمرانوں اور oic و عرب لیگ کوارض مقدس پر قبضے کی62 ویں سالگرہ پر اپنا احتساب کرتے ہوئے ازدی فلسطین کے لئے مشترکہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے۔اگر صہیونیوں اور یہودیوں کی مکاری عیاری وحشت و بربریت کو بزور شمشیر روکنے کی جہادی کاوش نہ کی گئی تو پھر تھیوڈر یرزل کے گریٹر اسرائیل کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔دوسری بات یہودی اپنے مذہب ملک و قوم سے ایسی والہانہ عقیدت رکھتے ہیں جسکا مقابلہ دنیا کی کوئی اور قوم نہیں کرسکتی۔ٹیگور نے کہا تھا روشنی جہاں سے ملے حاصل کرلو یہ مت دیکھو مشعل بردار کون ہے۔ہمیں ٹیگور کے جملے کی روشنی میں مذہب اور امت مسلمہ سے جانثاری و وفاداری کے لئے یہودیوں کی تقلید کرلینی چاہیے آخر وہ بھی تو اہل کتاب ہیں۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team