اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت04-06-2010

ارمی نائیس غیر منصفانہ جنگی اصول

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


دوسری عالمی جنگ کے بعد استعماری طاقتوں نے جغرافیائی و تزویراتی فوائد کے لئے جہاں ایک طرف امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیردیا تو وہاں جزیرہ نما کوریا بھی انکی عیارانہ جبلت سے محفوظ نہ رہ سکا او دو ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ شمالی کوریا ایٹمی طاقت ہے اور اسکی امریکن مخالفت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ چین پیاناگ یانگ کی سرپرستی کرتا ہے جبکہ جنوبی کوریا امریکہ کی طفیلی ریاست کا درجہ ر کھتا ہے۔دونوں اطراف کی حکومت اور افواج ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بنی ہوئی ہیں اور دونوں کے مابین ایک دوسرے کو کچل دینے کی ہلکی پھلکی موسیقی ہوتی رہتی ہے۔ شمال اور جنوب کے درمیان اجکل رنجشوں اور جنگی دھمکیوں کا گراف اسمان کو چھو رہا ہے۔26 مارچ کو ہونیوالی سمندری مڈبھیڑ کے بعد شمالی اور جنوبی کورین جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔شمالی کوریا نے جنوب پر سمندری حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا اور پھر جنوبی کوریا کے سمندری جہاز چیوٹن پرتاروپیڈو کا نشانہ لیکر غرق اب کردیا۔ علاقائی طاقتوں کی مخلصانہ کاوش سے اسی سال طرفین کے درمیان خوشگوار تعلقات کی کوششوں کا اغاز ہونے والا تھا کہ صورت حال یکسر بدل گئی۔جنوبی کوریا کے صدر لی باک نے شمالی کوریا کو صدارتی کانفرنس کی دعوت دے رکھی تھی۔لی باک نے شمال میں غربت کے خاتمے اور عوام کی امدنی کو جوہری ہتھیاروں سے دستبرداری کی شرائط پر 3 ہزار ڈالر سالانہ فی کس تک لے جانے کی نوید سنا رکھی تھی مگر چیوٹن کی تباہی کے بعد سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔لی باک نے رد عمل میں شمال کو دوبارہ پابندیوں کی زنجیر پہنادی۔1948 تک جنوب و شمال ایک ہی جسم کے دو حصے تھے۔1910 سے1948 تک جاپان نے متحدہ کوریا کی ازادی پر قبضہ کرکے حاکمیت قائم رکھی۔امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں میں غریق کیا تو کورین جاپان کے پنجہ استبداد سے ازاد ہوگئے مگر انہیں یہ ازادی راس نہ ائی۔سرد جنگ کوریا کے لئے تباہی کا سندیسہ لیکر ائی اور یوں کوریا شمال و جنوب میں منقسم ہوگیا۔امریکہ نے جنگ عظیم میں کوریا کے جنوب جبکہ روس نے شمال کو جاپانیوں کے قہر سے نجات دلوائی تھی۔دونوں سپرپاورز نے کوریا کو متحد نہ ہونے دیا۔ کوریا کے دونوں حصوں میں ابتدائے افرینش سے نظریاتی بعد المشرقین تھا مگر یہ عوام کی بجائے طبقہ اشراف کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔شمال و جنوب میں رہنے والے کورین ایک ہی نسل سائبرین سے تعلق رکھتے ہیں۔دونوں کی زبان بھی ایک ہے۔کوریا کے بالائی طبقوں میں سے ایک گروہ سٹالن کا پجاری تھا جبکہ دوسرا سوشلزم اور کیمونزم کی راہ روکنے کا تہیہ کئے ہوئے تھا۔ ٹالسٹائی کا قول ہے کہ جس سماج میں دو الگ الگ نظریات کے پرتش کار ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تل جائیں اور وہاں تفرقہ پرستی و نسلی گروہ بندی پہلے سے موجود ہو تو ایسا سماج یا ملک ایک نہ ایک روز زمین بوس ہوجاتا ہے۔1950 سے1953 تک شما لی و جنوبی کوریا نے جنگی میدان کو کورینزکے خون کا سمندر بنادیا۔3سالہ جنگ میں 40 لاکھ کوریائی باشندے ہلاک ہوگئے۔چین نے کھلا کھلم شمالی کوریا کی حمایت کی اور بے دریغ اسلحہ گولہ و بارود سپلائی کیا جبکہ امریکہ کی سوا لاکھ فوج نے unoکے بینر تلے اتحادیوں کی معاونت سے جنوبی کوریا کا ساتھ دیا۔یہ ہولناک جنگ تھی جس میں ہزاروں امریکی و جاپانی فوجی مرکھپ گئے اور ہزاروں لاپتہ ٹھرے۔جنگ کے اختتام پر جب اتحادیوں نے کوریا کی شیرازہ بندی کی تو شمالی و جنوبی کیمونٹی کی عوامی امنگوں کو کوئی اہمیت نہ دی۔ امریکہ نے عوامی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے جنوبی علاقوں پر اپنے فوجی سرخیل جنرل جان اج ہور کی سربراہی میں us ملٹری گورنمنٹ اف جنوبی کوریا کے نام سے حکومت بنادی مگر شمالی علاقوں کے باشندوں کو نہ تو کورین تسلیم کیا گیا اور نہ ہی شمالی کورین کو جنوب میں پناہ گزین ہونے کی اجازت دی گئی ۔1945 میں کوریا کے متعلق ماسکو کانفرنس منعقد ہوئی جس کی رو سے کوریا کا انتظام و انتصرام مشترکہ طور پر امریکہ اور سوویت یونین کی زمہ داری تھی۔یہ طے پایا تھا کہ کوریا کو5 سال تک ٹرسٹی طرز پر چلایا جائے گا اسکے بعد انتخابات منعقد ہونگے۔ امریکی نیت میں فتور نظر ایا تو عوام سڑکوں پر نکل ائی جس سے فائدہ اٹھا کر جنرل ہوج نے مارشلا نافذ کردیا۔امریکہ نے31 مارچ1949 میں الیکشن کا اعلان کردیا جسکی نگرانی unoکے سپرد تھی۔اتحادیوں نے شمالی ریاست کی راہ روکنے کا منصوبہ بنارکھا تھا تاہم روس کی دھمکی پر اتحادیوں نے جنوبی کوریا میں الیکشن منعقد کروائے۔امریکہ میں تعلیم مکمل کرنے والے سنگ میں ری بر سراقتدار اگئے۔سنگ مین ری نے15 اگست 1948 میں عوامی جنوبی کورین گورنمنٹ کا اعلان کردیا ۔ شمالی علاقوں کے رشین زون پر کم ال سنگ نے کیمونسٹ حکومت قائم کرلی۔امریکہ اور سوویت فوجیں1948 اور1949 میں علاقہ چھوڑ گئیں۔شمال و جنوب میں حکومتیں تو وجود میں اگئیں مگرسچ تو یہ ہے کہ یو ایس ایس ار کی چالاکیوں اور امریکہ کی چالبازیوں نے شمالی و جنوبی کورینز کو ایک دوسرے سے ایسا بدگمان کرڈالاکہ تلواریں اج تک میان میں واپس نہ جاسکیں۔ گئیں۔1953 میں رک جانے والی جنگ ارمی نائیس کا حصہ تھی یعنی جنگ کو وقتی طور پر معطل کردیا گیا تھا مگر ختم کردینے کا کوئی معاہدہ نہ ہوسکا۔دونوں کے درمیان لاتعداد معاہدے ہوئے تاہم ارمی نائیس کا اپشن کسی وقت دونوں کو جنگ کے نرگ میں جھونک دینے کے لئے کافی ہے۔ دونوں فریق کسی وقت جنگ کو1953 والی پوزیشن پر واپس لے جاسکتے ہیں۔2000 میں سیﺅل اور پیانگ یانگ کے مابین عدم جارہیت کا سمجھوتہ ہوا مگر چھبیس مارچ کے تنازعے نے ہر معایدے پر خط تنسیخ پھیر دیا۔امریکہ اور مغرب کی پشت پناہی سے جنوبی کوریا ایشین ٹائیگر بن چکا ہے مگر شمالی حصہ غربت کے اندھیروں میں کلبلا رہا ہے۔ اگر دونوں حصوں کے انضمام کا وقت اگیا تو کوریا جنوبی گریز کرے گا کیونکہ شمالی حصہ ابتدا ہی میں ایک ٹریلین ڈالر کا جھٹکا دے گا۔ جنوبی کوریا کے صدر لی باک نے ایک طرف شمالی کوریا کی امداد بند کردی اور دوسری طرف شمالی و جنوبی کوریا کے مابین300 ملین ڈالر کی باہمی تجارت پر پابندی عائد کردی۔شمالی کوریا میں شہنشاہی نظام قائم ہے۔شمالی کوریا کے بانی کم ال سنگ نے اپنے بیٹے کم جونگ ال کو ولی عہد نامزد کیا تھا اور اب کم جونگ ال نے بھی بیٹے کو وراثت سونپ دی ہے۔شمالی کوریا کو اقتصادی خوشحالی کے لئے ایک طرف ولی عہدی ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ کرنا ہوگا تو دوسری طرف وہاںجمہوریت کا احیا لازم و ملزوم ہے۔امریکہ دونوں حصوں کے انضمام کا دشمن ہے تاہم شمالی اور جنوبی کوریا کے دانشوروں کسانوں اور ازادی پسندوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر دیوار برلن گر سکتی ہے تو شمالی و جنوبی کوریا کا ادغا م کیوں ممکن نہیں؟ خطے میں قیام امن کے لئے یو این او فوری طور پر ارمی نائیس کا جنگی قانون ختم کرے کیونکہ یہ غیر منصفانہ اصول شمالی اور جنوبی کوریا کو جنگی افراط و تفریط میں گھیر سکتا ہے۔یاد رہے اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو پھر دنیا تیسری مرتبہ ایٹمی جنگ کے نظارے دیکھ سکتی ہے۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team