اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت11-06-2010

جنوبی پنجاب طالبان کی نئی پناہ گاہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

جنوبی پنجاب میں ایک دفعہ پھر پنجابی طالبان کی اصطلاح پر گرما گرم بحث و مباحث کا بازار جاری ہے۔ اس مکالمے کا اغاز جون کے اخری ہفتے میں اس وقت ہوا جب وزیرداخلہ رحمن ملک نے قادیانیوں کی جائے مقتل پر کہا کہ لشکر جھنگوی قادیانیوں کو خود کش حملے کا شکار بنانے کی زمہ دار ہے جبکہ پنجابی طالبان بھی روز بروز زور پکڑ رہے ہیں۔رحمن ملک نے یہ بھی بتایا کہ وسیب(جنوبی پنجاب) میں پنجابی طالبان اپنے اپکو مضبوط و توانا کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ابھی وزیرداخلہ کے بیان کی موسیقی کانوں میں رس گھول رہی تھی کہ شہباز شریف نے رد عمل میں ارشاد فرمایا کہ پنجابی طالبان کا کوئی وجود نہیں۔رحمن ملک نے پنجابی طالبان کی اصطلاح کرکے صوبائی عصبیت کو ہوا دی ہے۔ رحمن ملک نے صوبائی عصبیت کے دشنام پر ایک طرف پنجابی طالبان کے متعلق تردیدی بیان جاری کردیا تو دوسری طرف انہوں نے وضاحت کی کہ وہ صوبائی عصبیت کے سخت مخالف ہیں۔قادیانی خود کش حملے میں گرفتار کئے جانے والے دو دہشت گردوں کا تعلق وسیبی اضلاع مظفرگڑھ اور رحیم یار خان سے ہے۔ رحمن ملک نے درست ہی کہا کہ انسانیت کے بخئیے ادھیڑنے والے دہشت گردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سرحد ہوتی ہے۔ رحمن ملک اور شہباز شریف ریاست کے دو اہم عہدوں پر فروزاں ہیں مگر ہماری ناقص العقل میں یہ بات ابھی تک نہیں گھس سکی کہ اخر پنجاب کے شہاز رحمن ملک کے بیان پر کیوں تلملا اٹھے ؟ پنجابی طالبان کی اصطلاح کوئی نئی بات نہیں اور تو اور انکا وجود کوئی نئی ایجاد نہیں۔پنجابی طالبان کا نام پہلی مرتبہ نائن الیون کے بعد میڈیا کی ارائش کرنے لگا۔کابل پر امریکی قبضے کے بعد افغان وزیرخارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امریکی یاترا پر ائے تو معروف امگریزی روزنامے ووگ نے فروری2002 کو انکا انٹرویو شائع کیا۔عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ افغانستان کو ملاعمر کے طالبان کے ساتھ ساتھ پنجابی طالبان نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ہمارے ہاں ملاعمر طالبان سے لیکر سواتی طالبان اور تحریک طالبان سے لیکر افغانی طالبان کی کارگزاریاں منظر عام پر اتی رہتی ہیں مگر المیہ یہ بھی ہے کہ قوم کو پنجابی طالبان کی سرگرمیوں سے اگاہ کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ یاد رہے کہ2009 میںGHQ کو ہائی جیک کرنے والے خود کش دہشت گردوں کا تعلق پنجابی طالبان سے تھا۔ جب پنجابی طالبان کی کارستانیاں منظر عام پر اچکی ہیں تو قوم کو بے خبر رکھنے کی کیا تک ہے؟ دین و مذہب کو سیاسی ترقی کا زادہ راہ بنانے والی دینی جماعتیں تو ماضی میں القاعدہ کے وجود سے انکاری تھیں۔وہ القاعدہ کو امریکی ایجنسیوں کا شوشہ قرار دیکر اسکے وجود سے انکاری تھی۔نو دو گیارہ کے بعد قاضی حسین احمد نے اپنے انٹرویو میں اس سوال کے بعد کہ القاعدہ والے خون ریزی کرکے اسلام کی خوبصورتی کو کیوں گہنا رہے ہیں کے جواب میں غصیلی زبان استعمال کی تھی کہ القاعدہ کا نام امریکی واہیات کا حصہ ہے القاعدہ کوئی وجود نہیں رکھتی پتہ نہیں پاکستانیوں کوstate of denial کی بیماری کیوں لا حق ہوچکی ہے؟دینی جماعتیں جو کبھی القاعدہ کے وجود سے الرجک تھیں مگر جب یکم مارچ2003 میں پنڈی سے القاعدہ کا ماسٹر مائنڈ خالد شیخ گرفتار ہوا تو مذہبی افلاطونوں نے اپنے ہونٹ سی لئے۔ سچ تو یہ ہے کہ القاعدہ کی تخریب کاریوں نے افغانستان، پاکستان اور عراق کے کوچہ بازار کو خون مسلم کی ندیوں میں ڈبودیا۔پنجابی طالبان ٹھوس اور مسلمہ حثیت رکھتے ہیں۔ویسے پاکستان میں قوم کو ایسے بیدار مغز سچ سے اگاہ نہ کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ جب1971 میں ڈھاکہ ہمیشہ کے لئے سقوط کے بھنور میں گم ہورہا تھا تب ارباب اختیار مغربی پاکستانیوں کو لا یخل اور من گھڑت معلومات دینے میں مصروف تھے کہ ڈھاکہ میں محبت و سلامتی کے زمزے پھوٹ رہے ہیں حالانکہ وہاں تو نفرت و عداوت کے چشمے بہہ رہے تھے۔اج پنجابی طالبان ہمارے کوچہ بازاروں کی رنگینیوں کو خونی دریاوں میں بدل رہے ہیں مگر ایک ہم ہیں جو انکا نام سننے کے روادار نہیں۔پاکستانی دانشور مجاہد حسین کی لکھی گئی کتاب پنجابی طالبان میں lower پنجاب میں پنجابی طالبان کے متعلق کئی بصیرت افروز حقائق قلمبند کئے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے چپے چپے پر قلعہ نما مدارس موجود ہیں جہاں انتہاپسندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔جنوبی پنجاب کے طالبان القاعدہ اور ملاعمر کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔پنجابی طالبان نامی کتاب کا امریکہ میں انگریزی ترجمہ چھاپا جارہا ہے۔انگریزی مترجم افواج پاکستان میں کام کرنے والی اہم شخصیت کے بھائی ہیں۔۔گوکہ پنجابی طالبان کی سرگرمیاں انٹیلی جینس ایجنسیوں کی نظر میں ہیں تاہم پاکستان شمالی و مغربی سرحدوں پر دشمنوں کی موجودگی میں تیسرا محاز کھولنے کی ہمت نہیں رکھتا تاہم پنجابی طالبان جنکا محور و مرکز جنوبی پنجاب ہے کو نظر انداز کرنا جنوبی پنجاب کے امن اور ریاستی سلامتی کے لئے سم قاتل ہوگا۔ہمیں پنجابی طالبان کے خطرات کا حکمت و دانش کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپانے سے طوفان ٹل نہیں جایا کرتے۔ہر مسئلے کو ضروری نہیں کہ توپ و تفنگ سے حل کیا جائے۔کشت و قتال کی بجائے دیگر اپشن بھی اس ناسور کو ختم کرسکتے ہیں۔پاکستان کے کل دینی مدارس کا 70 ٪جنوبی پنجاب میں پھل پھول رہا ہے۔پاکستان میں ٹریبون نامی ادارے کے سروے کے مطابق15 لاکھ طلبہ کا80 فیصد لوئر پنجاب کے مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ مظفرگڑھ ڈی جی خان لیہ لودھراں راجن پور بہاولپور اس وقت طالبانی سرگرمیوں کی اماجگاہ بن چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے 90 فیصد لوگ بھوک و ننگ کی جیتی جاگتی تصویر بن چکے ہیں۔غربت کی لکیر سے نیچے غمناک زندگی گزارنے والے خاندان اپنے بچوں کو مدارس کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ وہ مدارس کے ٹکڑوں پر تعلیم حاصل کر سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جنوبی پنجاب میں مفت تعلیم کی سہولت گھر گھر پہنچائے۔غربت کے خاتمے کا جامع پروگرام شروع کیا جائے تاکہ معصوم بچے مدارس کی انتہاپسندی کی بیڑیوں کا مقدر نہ بن سکیں۔جنوبی پنجاب کے باسیوں کو پنجابی طالبان کے متعلق اگاہی دی جائے تاکہ وہ اپنے ارد گرد پھیلنے والی انتہاپسندی اور سرائیکی طالبانیت کا قلع قمع کرسکیں۔حکومتی ادارے مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو روزگار مہیا کریں تاکہ وہ بیروزگاری سے تنگ اکر جہادی تنظیموں کی طرف راغب نہ ہوں۔سیاسی جماعتوں کو الیکشن میں مدارس کی سیاسی حمایت سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنا انکی قوت کو بڑھاوا دینا ہوگا۔جنوبی پنجاب کے مدارس سے سیاسی ایندھن حاصل کرنے والی اہم سیاسی جماعتیں پنجابی طالبان کے خلاف اپریشن کی مخالف ہیں۔کیا دین و جہاد کو بزنس بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے طالبان کی روح کو اپنی روح کا حصہ قرار دینے اور پنجابی طالبان کے وجود کو صوبائیت سے تشبیہ دینے والے سیاسی گرگے بتانا چاہیں گے کہ کیا سوات کی طرح لوگوں کی زندگیوں کو مٹھی بھر شدت پسندوں کے سپرد کرنا درست ہوگا؟ ۔
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team