اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com

Telephone:- 

 

 

 
 
 
 
 
 
 
 

<<<<-----<<<<

 
 
تاریخ اشاعت:۔25-06-2010

میک کرسٹل کا زوال ٹھنڈی ہوا کا جھونکا

 

کالم۔۔۔  روف عامر پپا بریار

افغانستان میں امریکن جنگ بازوں کے سالار اول میک کرسٹل نے افغان جنگ کے حوالے سے اوبامہ ایڈمنسٹریشن کا تمسخر اڑایا ہے جس سے ایک طرف دنیا بھر میں اوبامہ اینڈ کمپنی کی سبکی ہوئی ہے تو دوسری طرف میک اور ساتھی فوجیوں کا طرز عمل عیاں کرتا ہے کہ افغان جنگ کا نتیجہ کیا ہوگا؟ میک کرسٹل نے کہا کہ صدر کا معاون کوتاہ اندیش ہے اگر اسکی بات مان لی جائی تو افغانستان کیاوستان بن جائے گا۔کسی نے پوچھا کیا وہ نائب صدر بائیڈن ہے؟ میک کرسٹل نے پوچھا وہ کون ہے؟ فوجی کمانڈروں سے میل جول کے بعد کرسٹل10 منٹ کے لئے اوبامہ سے ملے تو بعد میں ارشاد کیا کہ اوبامہ میں افغان جنگ سے کوئی دلچسپی نظر نہیں اتی۔کرسٹل اوبامہ سرکار کی افغان پالیسی پر خوب برسے کہ یہ بوگس ہے۔ میک کرسٹل کا جنگ کے متعلق اپنا وژن کیا ہے؟ اس پر انکے ساتھ کام کرنے والے جونیر افیسر نے انٹرنیٹ پر ریلیز جاری کی یہ اسکی سمجھ سے بالاتر ہے کہ افغان جنگ کس مقصد کے لئے لڑی جارہی ہے۔ پہلے ہمیں ٹارگٹ کے متعلق اگاہی دی جاتی ہے مگر بعد میں حکم ملتا ہے کہ ٹارگٹ سے ہٹ کر فائر کرو۔ جنگجو بعض اوقات ہم پر بم پھینک کر کسی نذدیکی مکان میں چھپ جاتے ہیں۔کسی افغانی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے جو ہدایت نامہ دیا جاتا ہے کہ تلاشی کے لئے افغان فوجی کا ساتھ ہونا لازمی ہے مگر جب ہم مکان کی نشان دہی کرتے ہیں تو افغان فوجی یا گائیڈ روکھا سا جواب دیتا ہے کہ یہ تو شریف گھرانہ ہے۔ان حالات میں کوئی جنگ نہ تو جیتی جاسکتی ہے اور نہ ہی لڑی جاسکتی ہے۔ امریکی جونیر افیسر کی ریلیز کے مطابق نیٹو کمانڈرز افغان جنگ کو لاحاصل مہم جوئی کا نام دیتے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار لاڈوسٹ نے میک کرسٹل کے زوال کے نام سے ریسرچ رپورٹ ترتیب دی ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق میک کرسٹل کو افغانستان میں امریکن فورسز کی قیادت کرتے ہوئے ایک سال اور سات دن کا عرصہ بیت گیا ہے۔کرسٹل نے رولنگ سٹون میگزین کو جو متنازعہ انٹرویو دیا ہے کے تناظر میں اسے برخاست یا معاف کرنے کا فیصلہ اوبامہ کریں گے۔بی بی سی کی رپورٹ سے یہ عنصر نمایاں ہوتاہے کہ اوبامہ کے سویلین وزیروں اور مشیروں کے بارے میں میک کرسٹل کا نفرت افریں بیان نہ صرف انکے اپنے زوال کا سبب بنے گا بلکہ اسکے مضر اثرات افغان جنگ پر مرتب ہونگے جس میں اتحادی فوجی پہلے سے ہی خطرناک اور شکست خوردہ صورتحال سے دوچار ہیں۔ لاڈ وسٹ لکھتے ہیں کہ میں نے افغان وزیردفاع جنرل رحیم وردک سے میک کرسٹل کے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے بتایا نائن الیون کے بعد میک ایسے فوجی کمانڈر ہیں جنہوں نے افغان جنگ میں اپنا کیرئر تک داو پر لگادیا۔لاڈ وسٹ کے بقول رحیم وردک کی بات اج کسی اور دن کے حوالے سے سچی لگ رہی ہے۔ لارڈ وسٹ نے جہاں رپورٹ میں میک کرسٹل کے زوال پر خامہ فرسائی کی ہے تو وہاں انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کرسٹل کی طرح کابل میں اتحادی فورسز کا زوال بھی بہت جلدالم نشرح ہے۔امریکہ کے وزیردفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ ان پر دباو ہے کہ سال کے اختتام پر افغان جنگ میں کامیابی کے اثرات نظر ا نے چاہیں مگر انکا کہنا ہے کہ وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہیں۔ جنگ کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے لئے چند واقعات اہم ہیں جو سابق سفیر ملحیہ لودھی نے افغان پراجیکٹ کے حوالے سے اپنے ارٹیکل میں بیان کئے ہیں1۔ مرجاہ اپریشن کو قندھار میں لاگو کیا گیا تھا مگر وہاں کامیابی نہیں مل سکی۔2۔ حامد کرزئی نے امریکن ایجنٹ انٹیلی جینس چیف امر صالح کو برخاست کردیا تھا جس پر وائٹ ہاوس کے منتری چیں بچیں ہیں۔امریکہ نے کرزئی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ افغانستان میں اتحادی فوجوں کی کامیابی کی توقع نہیں کرتے۔3 امریکی کانگرس نے عجلت میں اجلاس طلب کیا جس میں جنگی کوششوں و منصوبہ بندیوں پر شکوک جبکہ سینیر افیسرز پر تنقید کی گئی۔کیا مندرجہ بالا واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نو برسوں میں امریکن پالیسی کنفیوژن اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔امریکی افواج میں میک کرسٹل کی ہاہاکار کے تناظر میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ امریکن فورسز میں اوبامہ کی افغان پالیسی کی روشنی میں اختلافات اور لایخل کشیدگی کے اثار روز روشن کی طرح ہویدا ہیں۔وائٹ ہاوس کے جنگی تاجدار نہ تو اس نقطے سے اگاہ ہیں کہ جنگ کیسے جیتی جائے اور نہ ہی وہ اس حقیقت سے اگاہی رکھتے ہیں کہ غیرموزوں جنگ کو کیسے جاری رکھا جائے۔ امریکہ کی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات دراصل اپنے اپکو ناکامی کے دھبوں سے بچانا ہے۔میک کرسٹل نے اوبامہ سے ایسے مطالبات کئے جو فوری طور پر قابل عمل نہ تھے۔ کرسٹل یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ فوج تو جنگ جیتنے کے لئے پر عزم ہے مگر سیاسی قیادت نااہل ہے۔دوسری جانب امریکہ کی سیاسی قیادت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ فوجی اپریشن جیت کے لئے کارگر نہیں رہا اور جنگ کا دراز ہوتا سلسلہ امریکہ معیشت کا مذید ستیاناس کردے گا جو مالیاتی بریک ڈاون کے عمل کو تیز تر بنادے گی۔ اسی لئے واپسی کے لئے باعزت راستہ تلاش کیا جائے۔19 جون کوuno نے ایک رپورٹ میں اقرار کیا ہے کہ افغانستان میں سڑک کنارے نصب بم دھماکوں کی تعداد میں94 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جبکہ ناٹو اور افغان نیشنل ارمی کی ہلاکتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔8 جون کو ایک ہی دن10 نیٹو فوجیوں کے لقمہ اجل بن جانے کے بعد مغربی ملکوں میں عوام پر رقت طاری ہوگئی اور ناٹو فورسز کی واپسی کا مطالبہ شدت پکڑ گیا۔ امریکی کانگرس کو دی گئی معلومات کے مطابق امریکی حکومت یومیہ لاکھوں ڈالر سپلائی لائن کی حفاظت پر سیکیورٹی ایجینسیوں کو ادا کررہی ہے مگر اس رقم کا زیادہ حصہ طالبان کو بطور بھتہ ادا کیا جاتا ہے۔ امریکن جریدے ملٹر ی ٹائمز نے 26 اپریل کو خبر دی ہے کہ محاز سے واپس انے والے گورے سپاہیوں کی زہنی حالت بگڑ جاتی ہے اور وہ بھیانک قسم کے نفسیاتی عوارض کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔ہر ماہ950 فوجی خود کشی کی کوشش کرتے ہیں اور خود کشی کا زہر پینے والے فوجیوں کی تعداد یومیہ19 ہے۔2003 کے بعد جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ بے پناہ جنگی اخراجات نے اوبامہ کمپنی پر مرگ سکوت طاری کر رکھاہے۔جنگی اخراجات کا گراف عراق جنگ کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ۔عراق جنگ میں ماہانہ5.5 بلین ڈالرز پھونکے جاتے تھے مگر افغانستان میں ماہانہ6.5 بلین ڈالرز خرچ ہورہے ہیں۔امریکہ بے سود جنگوں پر ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرچکا ہے جبکہ امریکی حکومت 3 ٹریلین ڈالرز کی مقروض ہوچکی ہے۔افغانستان میں87 ہزار امریکی اور47 ہزار نیٹو کے سپاہی طالبان کے ساتھ لڑرہے ہیں۔عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد94 ہزار تھی۔اوبامہ نے نئے فوجی دستے کابل روانہ کئے تو ناٹو اور امریکہ کی مجموعی فوجی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار ہوچکی۔2010 میں میں کابل میں105 بلین ڈالرز جبکہ2011 میں یہ اخراجات107 بلین ڈالرز درکار ہونگے ۔کابل میں جانی نقصانات پچھلے8 سالوں کے مقابلے میں بڑ ھ چکے ہیں۔مغربی میڈیا اصل تعداد پر سیاہ چادر تان دیتا ہے۔قابض افواج کی ہلاکتوں کی تعداد51 فوجی یومیہ ہے مگر صہیونی میڈیا 5سے 7 سے زیادہ کا اعلان نہیں کرتا۔کنٹرولڈ میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 4 ماہ میں 200 فوجی جہنم واصل ہوچکے۔2009 میں ناٹو کو520 فوجیوں کی موت کا صدمہ سہنا پڑا۔ایک سروے کے مطابق61 فیصد افغان حملہ اوروں و قابضین کو دشمن نمبر اول سمجھتی ہے۔4 فیصد کے علاوہ ساری افغان قوم چاہتی ہے کہ اتحادی افغانستان سے نکل جائیں۔افغانستان میں ناٹو کے خلاف برسرپیکار گلبدین حکمت یار نے کہا ہے کہ افغان قوم پر قوت کے بل پر کوئی حکومت نہیں کرسکتا۔امریکہ جب تک انخلا کا عمل شروع نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں ہونگے۔تاریخ شائد ہے کہ افغان قوم پر انکے شہنشاہ حکومت نہیں کرسکے تو بھلا جارح افواج کا لشکر قاہرہ کیونکر حاکمیت کرسکتا ہے۔امریکہ کی فوجی و سیاسی قیادت کے اختلافات نے شکست پر مہر ثبت کردی ہے۔ ٹیگور نے کہا تھا غلطی کو غلطی مان کر اسکی اصلاح نہ کرنے والے سنگین غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔بش نے عراق وار پر اپنی غلطی کا اعتراف کردیا تھا مگر اوبامہ نے ابھی تک افغان وار کو غلطی سے تشبیہ دیکر اصلاح کی کوشش نہیں کی۔اوبامہ سمیت امریکہ کے تمام جنگ بازوں کو چاہیے کہ وہ میک کرسٹل کی بغاوت سے سبق سیکھتے ہوئے کابل خالی کردیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کابل میں موجود ساری امریکی فوج کرسٹل کی پیروی کرتے ہوئے جنگ لڑنے سے ہی انکار کردے۔

 

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team