اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔29-06-2010

روح پر لگا بے بسی کا ناقابل برادشت پچھتا وا
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر

ایک سانحہ کیا ہوا میرا تو سب کچھ لُٹ گیا۔آلامِ دنیا سے اب کبھی جی گھبراتا ہے تو کبھی غم ِروز گار سے دل گھٹنے لگتاہے۔ کبھی کسی طرف سے کوئی دُکھ ملتا ہے تو کبھی کسی پہلو زندگی میں کوئی نئی دشواری نئی مصیبت بن کر سامنے آجاتی ہے۔ وہ ہاتھ جو پہلے میری طرف لپکنے والی بلاﺅں کو روکے رکھے تھے وہ پلو جو میرے آنسوﺅں کو پونچھ لیتا تھا وہ دُعائیں ، وہ محبت بے گرہ، وہ ٹھنڈا سایہ، وہ آنچل کا بے لوث پلو، وہ حقیقی بہشت کا مجسمہ ذات، وہ رشتہ لافانی کی حامل میری ماں حکمِ ِربی سے خاک نشین ہوگئی ہے۔ قادرمطلق کا حکم تھا سُو حکم بجاآواری صبر کے سواکوئی چارہ زندگی نہیں ہے۔ میری ماں کی مسافت عدم میں جہاں قضائے الٰہی کی منشا شامل تھی وہا ں پر بے بسی ولاچارگی کا ایک ایسا نشتر بھی باعثِ مسافت بنا ہے جو دل میں آج تک ایسا چُبھا ہوا ہے جسے سوچوں تو کرب کی لہریں پورے جسم میں سرایت کر جاتی ہیں۔ وہ کرب سول ہسپتال ڈیرہ غازی خان کے ایمرجنسی وارڈ میں طبی سہولیات کا فقدان تھا۔میری والدہ نہایت صحت مند و توانا تھیں ۔ وہ اپنی حیات میں کبھی بھی بیمار ہوکر ہسپتال نہ گئی تھیں۔انسانی احتیاط و تدابیر کے حوالے سے وہ صوم وصلوٰة کی باقاعدہ پابندی کے ساتھ ہلکی پھُلکی واک اور بحیثیت مالکن گھرداری تمام امور کی چست و چو بند نگران تھیں۔ بدنصیبی کے ایک روز اچانک اُن کا بلڈ پریشر انتہائی کم ہوا ۔ انہیں پانچ منٹ کے اندر رہائش گاہ ہسپتال کالونی سے ایمرجنسی وارڈ پہنچا یا گیا۔ ذاتی تعلق داری کی بنا پر آن ڈیوٹی ڈاکٹربمعہ سٹاف نے انسانی کاوشوں کی حد تک کوئی کسر نہ اُٹھا چھوڑی۔راقم کو اُن سے ذاتی طور پر کوئی گلہ بھی نہیں ہے لیکن باعثِ اَمر افسوس تو یہ ہے کہ ایمرجنسی وارڈ میں آن ڈیوٹی کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر موجو د نہ تھا۔بیماری کی تشخیص کے لیے سرکاری لیب اور پرائیویٹ لیب سے ایک ہی قسم کے ٹیسٹ الگ الگ کرائے گئے۔ہر ٹیسٹ کی رپورٹ مختلف تھی ۔محدود لسٹ پر مشتمل ایمرجنسی ادویات ذاتی تعلق کی بنا پر مل گئیں۔ آکسیجن سیلنڈر کا انتظام سرکاری کم اور ذاتی زیاد ہ تھا۔دوتین گھنٹوں کی فسٹ ایڈ دینے کے بعد جب ڈاکٹر ز صاحبان سے کچھ تشخیص نہ ہوپایا تو اُنہو ں نے ڈیرہ غازی خان سے ایمرجنسی وارڈ نشتر ہسپتال ملتان منتقل کردیا۔وہاں پر بھی آن ڈیوٹی کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹرز نہ تھے۔ نیم مردہ جان میں سے تشخیص بیمار ی کے لیے نئے سرے سے پھر خون نکلا گیا پھر دوبارہ ضروری غیرضروری ٹیسٹ کیے گئے۔ آئی سی یو میں شفٹ کرنے کے لیے داخلہ چارٹ ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کے پاس آتا جاتا رہا۔ ایمرجنسی وارڈ میں سرکاری طور پر دستیاب ادویات کے غیر تسلی بخش معیار کو دیکھتے ہوئے راقم نے ڈاکٹر ز کی اجازت سے ادویات نجی طور پر بھی خریدیں۔میرے ہر ممکن اقدام کے باوجود میں اپنی رحمت کے سایہ کو 22گھنٹوں کے اندر ہمیشہ کے لیے کھوبیٹھا۔ ایمرجنسی وارڈ ڈیرہ غازی خان سے نشتر ہسپتال ملتان تک کی تمام کاروائی کا خلاصہ حال فقط یہی بنتا ہے کہ ڈاکٹرز فیملی سے تعلق ہونے کے باوجود 22گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹرحکومتی فراہم کردہ سہولیات کی بناپر فقط یہ تشخیص بھی نہ کرسکا کہ آخر مریضہ کا بلڈ پریشرتمام ٹیسٹوں کی درستی کے باوجود اِس قدرکیوں کم ہوا ہے اور سرکاری و نجی ادویات کے استعمال کے باوجود مریضہ صحت یاب کیوں نہیں ہورہی؟ ۔ ابھی والدہ کے غم ِشدت میں کمی نہ ہونے پائی تھی کہ ایک دن میرے کزن نے ایمرجنسی وارڈ سول ہسپتال لیہ سے مجھے روتے ہوئے آگاہ کیا کہ اُس کی امی کا بھی اچانک بلڈ پریشر کم ہوگیاہے اور اِس وقت وہ سول ہسپتال لیہ کے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہیں۔ میں فورًا گاڑی نکال کر لیہ جا پہنچا ۔وہا ں جا کر خالہ کی حالت اور ہسٹری سُنی تو ایسے لگا جیسے میری والدہ کے آخری لمحات کی فلم چل رہی ہے۔خالہ کا اچانک بلڈ پریشر کم ہونا، جملہ ٹیسٹوں کی رپورٹ کا درست آنا،ڈاکڑز ، نرسنگ سٹاف کا وہی روایتی دیکھ بھا ل کا کردارمیری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ خالہ کو آئی سی یو وارڈ میں شفٹ بھی کردیا گیا۔ بظاہر وہ آئی سی یو وارڈ تھا لیکن وہاں بھی ڈیرہ غازی خان کی طرح نہ آکسیجن کا بندوبست، نہ کوئی سپیشلسٹ ڈاکٹر، نہ ایمرجنسی کے لیے تربیت یافتہ سٹاف، نہ معیاری ادویات، نہ قابل اعتماد لیب، نہ جدید مشینری اور نہ ہی ہارٹ کو مانیٹر کرنے والے ایمرجنسی آلات موجود تھے۔حتی ٰکہ آئی سی یو وارڈ میں فقط ایک چارج نرس آن ڈیوٹی تھی خالہ کا میرے آنکھوں کے سامنے آخری ہارٹ اٹیک ہوا تو حسبِ قابلیت چارج نرس نے ایک عدد انجکشن لگایا میرے شور مچانے پر ایک وارڈ بوائے نے بتایا آئی سی یو وارڈ میں کوئی ڈاکٹر تعینات نہیں ، ڈاکٹر کو تیسرے بلاک ایمرجنسی وارڈ سے بلوانا ہوگا۔ کافی فاصلہ پر بنے ایمرجنسی وارڈ سے جب ڈاکٹر آئی سی یو وارڈ میں پہنچا تو فقط یہ کہتا ہوا واپس چل دیا کہ © ©”صبر کریں“۔میرے سامنے میرے کزن بھی قضائے الٰہی کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں ناقص طبی سہولیات کے فقدان کی بناپر یتیم ہوگئے۔ میرا بیٹا کمیل جو زندگی میں پہلی بار سرکاری ہسپتالوں میں گیا تھا اور اِن دونوں حادثات میں میرے ساتھ ساتھ تھا ، زارو قطار روتے ہوئے مجھ سے بار بار یہی سوال کرنے لگا کہ ابو حکومتوں کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکل کی تمام فراہم کردہ سہولیات کہاں ہیں ؟ ۔ میں فقط اُسے یہی کہا پایا کہ بیٹے ہمیں اول پاکستانی اور دوم جنوبی پنجاب کا رہائشی ہونے کی سزا دے جار ی ہے ورنہ بڑے بڑے شہروںمیںلوگوں کے قائم کردہ نجی ہسپتالوں کی سہولیات و معیار بھی جنوبی پنجاب کے سرکاری سول ہسپتالوںسے ہزار گنا بہتر ہے۔ ایمر جنسی سروس کے لیے نیورو فزیشن و سرجن اور ہارٹ سپیشلسٹ ، جدید لیب جس کے نتائج پر حتمی یقین کیا جاسکے، جدیدتشخیصی الیکٹرانک آلات اور معیار ی ایک نمبر ادویات کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن صاحب اقتداران کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایمرجنسی وارڈز میں انہی تمام ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ غیر یبوں کے ٹیکس پر لندن اور امریکہ سے اپنی چھینک کا علاج کرانے والے ایمرجنسی وارڈزمیں غیرمعیاری ادویات کی مفت فراہمی کا نعرہ لگاکر نجانے کب تک عوام کو فریب دیتے رہے گے اور راقم جیسے اور کتنے لوگوں کو اپنی اپنی ماﺅںکی جدائی کا کرب سہنا ہوگا۔؟
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved