اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔02-07-2010

دم توڑتی ثقافتی و معاشرتی قدریں
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر
ترقی اور خوشحالی کے حصول کے لیے تیزرفتاری سے مسلسل دوڑتے انسان نے جب سے محبت ،چاہت اور احساس کی جمع تفریق شروع کی ہے سماجی زندگی مادیت کی ترقی کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہے رشتے ناطوں کا تقدس اور باہمی غم و خوشیاں نفع نقصان کی شرح سے بانٹی جارہی ہیں۔ معاشی و معاشرتی اونچ نیچ نے ایک ہی کوکھ سے جنم لینے والوں کے خلوص اور ُ حسن خلق میں کٹھور پن پیدا کردیاہے آ سائشوں اور تعیشات کو ضروریات زندگی کا نا م دے کر مشینی زندگی نے اخلاقی و خاندانی اقدار میں صبروقناعت، ایثارو قربانی،محبت ورواداری اور رشتے ناطوں میں خون کی مٹھاس کو کٹرواہٹ میں بدل دیاہے مذہبی اور اخلاقی روایات کی بِنا پاسداری کئے راتوں رات امیر بننے کے جنون نے آدمی کو آدمیوں کی بھیڑ میں تنہا کر دیاہے بہت کچھ پالینے کی خواہش اور کچھ کھوجانے کے خوف نے انسان کو خود سے دور کردیاہے اخلاقی و خاندانی اقدار کے زوال میں نفرتوں نے محبتوں کو مات دے دی ہے معاشی ومعاشرتی آسودگی کے حصول کی دوڑ میں انسان اپنی اُن روایات واقدار کو ہر سنگ میل کے نیچے دفن کرتا چلا آرہا ہے جن کی بناپر انسان کو مخلوقاتِ عالم میں اشرفِ المخلوقات کا خطاب ملاتھا۔ ایک وقت تھا جب دوسروں کے کام آنا، دکھ درد بانٹنا اپنا فرض اور عبادت سمجھتا تھا۔ذات برادری یا خاندان میں اگر کوئی ایک فرد معاشی طور پر آسودہ حال ہوجاتا تو وہ اپنے عزیز رشتہ داروں کو اپنی آسودگی کی معرفت فائدہ پہنچتا تھا اگر کوئی اعلٰی عہدے دار بنتا تو اپنے پیاروں کے لیے وسیلہ روزگار بننے کی کوشش کرتا اگر بیرون ملک بہتر روزگار میں کامیاب ہوجاتا تو دیگر عزیز رشتہ داروں کے لیے بھی کامیابی کی راہ ہموار کرتاتھا اول رشتہ داروں کی محبت ومعاشی بھلائی کے اصول کی بناپر خاندان سے باہر شادی کر نا معیوب سمجھا جاتاتھا امیر بھائی اپنے بیٹے کی شادی غریب بھائی کی بیٹی سے کرنے کو ترجیج دیتا تھا اگر کسی بہن بھائی یا پھر کسی بھانجے بھتیجے میں معاشی اعتبار سے کمی رہ جاتی تو اُس کو بِنا احسان جتائے ہم پلہ بنانے کے لیے خاندانی طور پر مشترکہ اقدامات کیئے جاتے تھے محلہ میں کسی کے گھر شادی کا موقعہ آتا تو پورا محلہ تیاریوں میں مصروف ہوجاتا تھا محلہ دار کی بیاہی جانے والی بیٹی کو پورا محلہ اپنی سگی بیٹی کی مانند رخصت کرتاتھا شادی والے گھر میں دُور دراز شہروں اور دیہاتوں میں رہنے والے رشتہ داروں کو کئی کئی ہفتہ قبل مد عو کیا جاتا اور محلہ داروں کی بیٹھکوں میں مہمانوں کی رہائش چائے پانی کا اہتمام اور رات رات بھر گپ شپ کے سلسلے کا بندوبست کیا جاتاتھا شادی کے موقعہ پر گلے شکو ﺅ ں اور رنجشوں کو ختم کرتے ہوئے محبت کی شمع سے قر بتوں میں روشنی پھیلائی جاتی تھی رشتہ داروں کا تعارف والدین اپنے بچوں سے رشتوں ناطوں کے تقدس کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے کراتے تھے تاکہ تعلقات کا یہ سلسلہ آئندہ نسلوں میں موتی کی مالا بن کر جڑا رہے۔ ماضی کے بر عکس آج شادی بیاہ، عید ملن پارٹیاں، سالگرہ اور دعوتوں پر نفع نقصان کا جائزہ لے کر دعوت ناموں کی تقسیم کی جاتی ہے لہو کے سنگ سے زیادہ معاشی مفادات کے حامل باعثِ افتحار ہستی کو دعوت نامہ دیا جاتا ہے شہروں کی جدید اور اونچی ہاو ¾سنگ کالونیوں میں شامیانے لگے دیکھ کر ہمسایہ کو ہمسایہ کی خوشی یا غمی کا پتہ چلتا ہے اپنا کوئی عزیز رشتہ دار دوسرے شہر میں یا گا ﺅں بیمار ہو تو عیادت کے لیے جانے کی بجائے بذریعہ ٹیلی فون یا خط حال احوال دریافت کرلیا جاتاہے ایک ہی شہر میں کوئی رشتہ دار ہسپتال میں داخل ہوتو کوئی نہیں پو چھتا کہ علاج معالجہ کے لیے پیسے بھی ہیںیا نہیں، مریض کے پاس رات کو کون ٹھیرتاہے؟ دوا کون لاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ بس مریض کے پاس چکر لگا کر تھوڑے بہت پھل اور پھول چھوڑ کر جلدی سے جان چھڑانے کی کوشش کی جا تی ہے دوسرے شہر میں رشتہ داروں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شرکت سے کتراتے ہوئے ٹیلی فون پر اپنی مصروفیت اور وقت کے نہ ہونے کا رونا روکر معذرت کے شبدوں سے جان چھڑا لی جاتی ہے خود نمائی اور سٹیٹس کی بیماری کی وجہ سے امیر بھائی اپنے غریب بھائی سے ملنے سے کتُرانے لگاہے ۔ حتٰی کہ غریب باپ کا امیر بیٹا ا پنے باپ کی کمتر سماجی حیثیت پر شرمسار نظرآتاہے امیر بہن بھائیوں کے بچے اپنی غریب خالہ ماموں یا چچا کے ہاں جانے یا اُن سے تعلق قائم رکھنے میں شرم محسوس کرنے لگے ہیں غریب بہن بھائیوں کے بچوں کی شادی اپنے امیر کزنوں سے نہیں ہوسکتی خواہ تعلیمی اور اخلاقی اعتبار سے غریب کزن کتنے ہی ارفع و قابل کیوں نہ ہوں اگرچہ موجودہ دُور میں ہر شے روپے پیسے اور سماجی حیثیت کے تراوز میں تولی جانے لگی ہے اور مندرجہ بالا بے اعتنائیوں اور لا پرواہیوں نے ہماری سماجی زندگی میں اخلاقی وخاندانی اقدار کو گرہن زدہ کردیاہے تاہم ان سب باتوں کے باوجود ہمارے ہاں ماں باپ بہن بھائی اور عزیز رشتہ داروں کا تقدس ابھی بھی قائم ہے شکر الحمداللہ ابھی ہمارے معاشرہ میں اولڈ ہاﺅس نہیں بنے ابھی ہر گھر ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی ایک فرد ایسا موجود ہے جو رشتوں سے جڑی مالا کو بکھرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے مادی ترقی میںہمارے رویوں نے محبت وانس کا گلا گھونٹاہے ورنہ ہر گھر میں موجود اُس اکیلے فرد کی حوصلہ افزائی اور محبت کا جواب محبتوں سے دے کر پرانی اقداراور رشتوں ناطوں کے تقدس کو مشینی زندگی میں زندہ رکھا جاسکتا ہے۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved