اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔04-07-2010

اب تو چشم پوشی ترک کردیں
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر
)
وہ گھر سے نکلا تو شیر حنان گورچانی تھا۔ چھ بھائیوں اور ایک اکلوتی بہن کا چہیتا بھائی تھا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی بنا پر گھر کے ہر فرد کی آنکھ کا تارا تھا۔ اُس کی ہر خواہش پوری کرکے ہر فرد اُس سے محبت کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ وہ ماں باپ کا لختِ جگر تھا۔ ماں باپ کی محبت اولاد کی تعداد سے بے نیاز ہوتی۔ کسی کا ایک بچہ ہو یا پھر درجن ۔وہ سب اپنے والدین کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ والدین کا رشتہ قدرتی الٰہی کی طرف سے بچوں کے لیے ایک انمول نعمت ہے جبکہ بچے والدین کے لیے جہاں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہوتے ہیں وہیں پر وہ ایک بہت بڑا امتحان بھی ہوتے ہیں۔جوان اولاد اگر بوڑھے والدین کا جنازہ اُٹھائے تو والدین کے لیے یہ ایک اعزاز ٹھہرتاہے لیکن اگر بدقسمتی کے سایے میں کسی آسیب زدہ مانوس گھڑی کی بناپرخدا نخواستہ جوان بیٹے کا جنازہ بوڑھے باپ کو اُٹھانا پڑجائے تو یہ اُس کے لیے بہت بڑا روگ اور امتحان بن جاتاہے۔ اپنی ایک چھوٹی سی نادانی کی بنا پر شیر حنان بھی اپنے بوڑھے باپ سردار پرویز اقبال گورچانی اور محبتوں میں گوندھے بھائیوں کو ایسے ہی ایک امتحان سے دوچار کر گیاہے۔ زندگی کی رعنائیاں اور خوبصورتی کیا ہے،چاندنی، برکھا، پون، گاگر ،ندی اوربدلتے موسموں کی رم جھم کیا ہے،اِن سب باتوںسے بے خبر چودہ سالہ نوخیز پھول اپنے اہل خانہ کے ساتھ اہلیان شہر کے لیے بھی ایک کسک چھوڑ گیا ہے۔سرخ چادر میں سجا اُس کا جنازہ اُسے موت کی آغوش میں لے جانے کے باوجود دُلہا کا روپ دے رہاتھا۔بھائیوں کی آنکھوںمیں اشکوں کا سمندر تھا جو تھمنے میں نہیں آرہا تھا۔اُس کی موت ایسی موت تھی کہ ہر شخص حیرت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ اُس کی ایک چھوٹی سی شرارت نے اُسے عدم کا راہی بنا دیاتھا۔ وہ میرے بیٹے کمیل کا نرسری کلاس سے کلاس فیلو اور ہمسایہ تھا۔ اکثروبیشتر کمیل سے ملنے گھر آتا تو ادب سے انکل انکل کہتے ہوئے اُس کی زبان نہ رُکتی تھی۔ اُس میں مجھے اپنے بیٹے کی جھلک نظر آتی تھی۔ وہ دونوںدوست کم اور بھائی زیادہ لگتے تھے۔ نجانے ہفتہ کی شام اُسے کیا سوجھی جو وہ اپنی نئی موٹر سائیکل پر وہیلنگ کرنے انڈس روڈ جا م پوربائی پاس پر جاپہنچا۔جوانی کے نادان جذبوں سے مجبور ہوکر اُس نے ایک دوست کو اپنی پشت والی سیٹ پر بیٹھا کر ہوا سے باتیں کرنا چاہیں ۔ تیزرفتاری جو حسب ِمعمول کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتی آج بھی اُس نے بے وفائی کا ہُنر دکھایا اور تیز رفتار دونوں نوجوان شیر حنان اورسرفراز کو کراچی سے آنے والی ایک تیررفتار فلائنگ کوچ سے جاٹکرایا۔ انتظار میں کھڑا اجل فورًا لپک کر اُن معصوموں کو اپنے ساتھ لے گیا۔جوانی کے بے لگام گھوڑے کو نوعمری میں تھامنا بہت مشکل ہوتاہے۔ اِس عمر میں والدین اور بڑے بہن بھائی اگر چھوٹوں کو کوئی نصیحت کریں تو انہیں کوفت ہونے لگتی ہے۔ جدید بے ہنگم دور نے معاشرتی اقدار کی پامالی کرکے نوجوان نسل کے مزاجوں میں ٹھہراﺅ ختم کردیاہے۔ مزاجوں میں جارحیت کے عنصر نے نوجوان طبقہ کو ضدی بنا دیا ہے۔ اہل مغر ب کی تقلید ،انگلش موویز کے ایکشن کلچر اور انٹر نٹ کے بے جا استعمال نے معصوم نادان نوجوانوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ ہر سال جشن ِآزادی 14اگست اور عیدین کے تہواروں پر سینکڑوں نوجوان موٹر سائیکلوںپر سلنسر نکال کر ون وہیلنگ کرتے ہیں۔ کئی زخمی اور کئی ہلاک ہوتے ہیں۔ ہر دفعہ میڈیا ایسے واقعا ت پر چیختا ہے تاکہ آئندہ نوجوان ایسی حرکتوں سے اجتنا ب کریں۔ لیکن جوانی کی بد مستی میں سرچار لڑکوںکو موت نظر نہیں آتی۔ اِن نوجوانوںکو خدا ہدایات دے۔ شیر حنان کی موت میں جہاں اُس کی جوانی کا جذبہ شرارت قصور وار ہے وہا ںپر مقامی انتظامیہ بھی برابر کی قصور وار ہے۔ تمام اہلیان ڈیرہ غازی خان کو خبر ہے کہ اِسی جائے موت انڈس ہائی وے پر ہر جمعہ والے دن باقاعدہ موٹر سائیکلوں کی غیر قانونی جوا پر مبنی ریس ہوتی ہے۔ باقاعدہ کھانے پینے اور کارپارکنگ کا انتظام ہوتا ہے۔ جواری حضرات معصوم نوجوانوں کو استعمال کرتے ہوئے اُن کی زندگیوں سے کھلوار کرتے ہیں۔متعلقہ تھانہ کی فورس جان بوجھ کر چشم پوشی کرتی ہے۔ اگر متعلقہ اتھارٹی تھوڑی سی سختی کرئے تو گھنا ﺅناجوئے کا کھیل نہ صرف ختم ہوسکتا ہے بلکہ کئی معصوموں کی جان بھی بچ سکتی ہے۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved