اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔12-07-2010

وہ۔۔۔۔۔۔ جن کی زندگی کادوسرا نا م پیسہ ہے
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر

کسی بھی ملک کی ثقافت ،رسم ورواج،اخلاقی قدروں، احساسات جذبات اور معاشرتی رویوں کا انحصار اُس کی اقتصادیات پر ہوتا ہے اقتصادی طور پر مستحکم معاشرے کے لوگوں کی طزز زندگی میں ایک سنجیدہ پن اور رویوں میں ٹھہراو ہوتا ہے اُن کے طرز بودوباش میں اعلیٰ روایات کی عکاسی ہوتی ہے جبکہ اقتصادی طور پر غیر مستحکم معاشرے کے لوگو ں کی طرز ندگی میں بناوٹ،جھوٹ، کرپشن ،شوشا، فرسٹریشن، رشوت ،سفارش، بلیک مارکیٹنگ،سمگلنگ،راتوں رات امیر بننے کا جنون اور ناجائز ذرائع آمدن سے کمائی ہوئی دولت کا کھوکھلا پن ہوتا ہے معاشی طور پر کمزور معاشرے کے وہ افراد جن کے پاس اچانک کہیں سے دولت آجاتی ہے انہیں عرف عام میں نو دولتیے کہا جاتا ہے کسی بھی مہذب اور ترقی پذیر ملک میں نو دولتیوں کی تعداد جس قدر زیادہ ہوگی اُسی قدر اُس ملک کی معاشی ، اخلاقی اور سماجی حالت خراب اور زوال پذیر ہوگی ۔کھمبیوں کی طرح کسی بھی معاشرے میں اُگ آنے والے یہ نودولیتے اپنی دولت کی بنا پر دولت مندوں میں خود کو شمارتو کرنے لگتے ہیں لیکن ان کی حرکات وسکنات احساس کمتری کے اظہار، رہن سہن اور رویوں سے ان کے اندر چھپے ہوئے کھوکھلے انسان کی غمازی ہوتی رہتی ہے ۔ اِن نودولتیوں کی زندگی اذیتوں اور کوفتوں کا مرقع ہوتی ہے یہ لوگ اپنا احساس کمتری چھپانے کی غرض سے جہاںچار افراد اکٹھے بی ©ٹھے دیکھتے ہیں وہا ں پر اپنی شاہ خرچیوں کے قصے اور باربار اپنے خاندانی ہونے کا ذکر کرتے ہیں شہر کے معززین اور افسران سے تعلق داری کے من گھڑت قصے سنا کر خود کو ہائی جنیٹری کا فرد ثابت کرتے کی سعی کرتے رہتے ہیں شہر کے بڑے ہوٹلوں میں ہوٹلنگ ، ویٹیر کو بھاری رقوم کی ٹپ دے کر جھوٹی شان کی تعظیم کرانا، بے ڈھنگے قیمتی ملبوسات زیب تن کرکے ٹوٹی پھوٹی انگلش بولنا، نوکروں پر رعب اور خاندانی رئیس ہونے کا تاثر ڈالنے کی غرض سے نوکروں کی بات بات پر بنا قصور سرزنش کرنا، جم جوائن کرنا، پرانے نام بدلنا مثلاً اللہ ڈیوایا، اللہ ڈتہ سے اے ڈی خان ، محمد بخش سے ایم بی بن کر معاشرے میںجھوٹی شان و شوکت کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ نودولتیے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے انگریزی سکولوں کی بھاری فیسیوں کی ادائیگی اور گھر پر ٹیوشن کی غرض کے عو ض تین چار ہزار روپے والے ٹیوٹر کا بندوبست تو کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کو استاد کی عزت و احترام کا وہ درس نہیں دے پاتے جو غریب والدین اپنے بچوں کو استاد کی عزت وا حترام کے حوالے سے دیتے ہیں یہی وجہ ہے ان نودولتیوں کے بچوں کے نزدیک استاد کی عزت تین چار ہزار روپے والے ملازم کی حیثیت سی ہوتی ہے ٹیوٹر کی غربت کا تمسخر اُڑاکر انجوائے منٹ کرنا ان کا روز کامعمول ہوتا ہے ٹیوٹر کی ملازمت کا انحصار اُن کے بچوں کی پسند اور نا پسند پر ہوتا ہے اگر بچے ٹیوٹر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیں تو ٹیوٹر کو بغیر تنخواہ دیئے ذلیل کر کے گھر سے نکال دیتے ہیں ۔ اِسی لیے ہر دوتین ماہ بعد اُن کے گھروں میں ایک نیا ٹیوٹر نظر آتا ہے ان لوگوں کے ہاں رشتہ داری دولت کے ترازو میں تول کر کی جاتی ہے یہ لوگ اپنی بیٹی کے لیے ایک ایسا لڑکا ڈھوننے کی کوشش کرتے ہیں جو اول تو گھر داماد بن جائے یا پھر اُس کے ساتھ ماں باپ اور بہن بھائی کا دم چھلا نہ تاکہ اُن کا کنڑول لڑکے پر سو فیصد رہ سکے ۔ اپنے لڑکے کے لیے بہو کی تلاش مقصود ہو تو یہ شہر بھر میں ایسے لڑکی تلاش کرتے ہیں جیسے انہیں اپنے لڑکے کے لیے قربانی کا بکرا اور گھر کے لیے خادمہ کی ضرورت ہو اور خادمہ بھی ایسی جس کے باپ بھا ئی کے پاس جہیز میں کار، کوٹھی اور لاکھوں کاسامان دینے کی مالی حیثیت ہو ان لوگوں کی زندگی میں شوشااور بناوٹ کلچر اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اگر دوسروں کے کام بھی آئیں گے تو اُن پر پھر ہر محفل میں اپنا احسان جتائیںگے اللہ کی راہ میں بھی خرچہ کریں گے تو اُس کا ڈھنڈھورا پورے شہر میں پٹیں گے ان نو دولتیوں کی بیگمات کے چہروں پر بیوٹی پارلر کا تھوپا ہوا میک اپ اور بے موقع محل سر سے لے کر پاﺅں تک لادی ہوئی جیولری ہوتی ہے یہ بیگمات اپنی عمر رنگت اور موسم کا بنا خیال کیے ریشمی کمخواب ،جاپانی اور ویلوٹ کے کپڑوں کے انتخاب میں کلر میچنگ اس انداز کی کرتی ہیں کہ ان کے تن پر سجے کپڑوں کے رنگوں کی دیکھ کر کسی رنگ ساز کی دوکان کا گمان ہوتا ہے کھٹ کھٹ کرتی اونچی ہیل کی جوتی پہن کر،نارمل آواز میں بولنے کی بجائے آہستہ بوکر یہ محفلوں میں خود کو خاندانی ، مہذب اور تعلیم ےافتہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں ان بیگمات کے ڈرائنگ روم اور گیسٹ روم کی دیواروں میں بنے شیلفوں میں دیواروں کے رنگوں سے کلر میچنگ کرنے والی ہمہ قسمی موضوعات کی سنیکڑوں کی تعداد میں کتب تو موجود ہوتی ہیں لیکن ان کتا بوں کو پڑھنا انہیں کبھی بھی نصیب نہیں ہوتا ان نودولتیوں کی پہچان موبائل فوبیا سے بھی ہوتی ہے یہ لوگ موبائل فون جیب میں رکھنے کی بجائے ہاتھ میں پکڑیں گے کسی محفل میںبیٹھیں گے تو مو بائل کو سب کے سامنے میز پر رکھ دیں گے۔ مارننگ یا ایوننگ واک پر جائیں گے تو کسی کو آتا دیکھ کر فورًا مو بائل پر باتیں کرنا شروع کردیں گے۔ لوگوں کو متا ثر کرنے کی غرض سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد مو بائل پر بے تکی اور لا حاصل گفتگو کریںگے یہ نو دولتیے اپنی دولت کی فروانی کی بنا پر ضروریات ِزندگی کی ہمہ قسمی اشیا ءتو خرید لیتے ہیں لیکن انہیں کبھی بھی وہ خاندانی و جا ہت اور عزت و احترام نہیں ملتا جو دن رات محنت مشقت کرنے والے لوگوں کو معاشرے میں ملتا ہے کیونکہ محنت مزدوری اور جائز ذرائع سے امیر بننے والے لوگوں کو نہ صرف دولت برتنے کا ڈھنگ آتا ہے بلکہ ان کی طرززندگی اور رویوں میں امارت کی مہذبانہ جھلک ان کی خوبصورت سیرت پرمبنی شخصیت میں خود بخود بولتی ہے کسی بھی شحض کے پاس دولت کا ہونا بذات خود کوئی بری بات نہیں ہے دولت اُس وقت بُرائی کی جڑ بن جاتی ہے۔ جب اسے کرپشن،رشوت، بلیک مارکیٹنگ ،سمگلنگ اور ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے جتنا مرضی مہذب نظر آنے کی کوشش کریں وہ محنت کی روزی سے تین چارمرلے کے مکان بنانے والے شخص سے زیادہ متعبر اور قا بل احترام معاشرے میں نہیں ہو سکتے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved