اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔08-08-2010

اندھا دھند تقلید کا فیشن
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر

تجسس ،حسد، لالچ،بناوٹ،دکھاوا، شوشا کلچر،امراءکے فیشن کی اندھا دھند تقلید کرکے اپنے سے غریب لوگوں پر رُعب ڈالنے کی جبلتیں ہمارے قومی مزاج کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ دوسروں سے نمایاں یا پھر اُن جیسا نظر آنے کی کوشش نے ہماری قوم کے مزاج میں طبقاتی کشمکش اور تضادات کی راہیں ہموار کرلی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے مزاجوں میں ٹھہراﺅ نہیں رہا بلکہ ہمارے مزاجوں میں جارحیت کا عنصر غالب آنے لگا۔جارحیت کا یہی عنصر جرائم،معاشی و معا شرتی برایﺅں کا موجب اور اخلاقی اقدار کا قاتل بن رہاہے۔ ہر معاشرے کے لوگوں میں فیشن کے پیچھے دیوانے ہونے اور خود کو نمایاں کرنے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرنے کا جنون ہوتا ہے لیکن وہ فیشن کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے ملکی تعمیر وترقی کے عمل کو ساتھ ساتھ جاری کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں لوگوں میں کسی فیشن کے اپنانے کی جب جنونی لہر چلتی ہے تو وہ فقط اندھادھند تقلید کاروپ اختیار کر لیتی ہے۔پاکستان میں آجکل خوشحال نوجوان طبقہ اہل مغرب کی تقلید میں دیوانہ ہوا پھر رہاہے کسی نوجوان نے بڑے بڑے بال رکھے ہوئے ہیں تو کسی نے ایسا لباس زیبِ تن کیا ہوتا ہے کہ جسے دیکھ کر پہلی نظر میں پتہ ہی نہیں  چلتا کہ یہ
صاحب ہے یا صاحبہ۔ہر دوسری تیسری گاڑی پر

Me and My،Hot line،Don't touch me، It is my Life Big Boss

 وغیرہ وغیرہ کندہ نظر آتاہے۔ نوجوان طبقہ کو انگلش موویز،وی سی ڈی او ر انٹر نٹ کے غلط استعمال نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیاہے اور ہر دوسرا نوجوان اپنے ساتھیوں کی تقلید میں ان چیزوں کے حصول کی خاطر جنونی ہوا پھررہاہے ۔کچھ عرصہ قبل پرائز بانڈ کی پرچیوں کا کاروبار شروع ہو ا تو لوگوں نے اپنے گھر کا قیتمی سامان اور زیورات بیچ کر راتوں رات امیر بننے کے لالچ میں لاکھوں روپے کے نمبر ایک ہی قرعہ اندازی کے خریدے ۔ ایک ددوسرے کی دیکھا دیکھی لو گ مجذوب و نیم پاگل لو گوں کو ©"پہنچا ہوا پیر/فقیر" قرار دے کر اُنھیں سگریٹ،چرس کا ٹوٹا اور چائے کی پیالی پیلا کر ،اُن سے نمبر لکھواتے رہے ہیں۔ اِن فقیروں کے بے معنی اشاروں کو نمبروں کا روپ دے کر خوش بختی کی توہم پرستی کو ہوا دیتے رہے ہیں۔اِس کاروبار میں کسی نے لاکھوں کمائے تو کسی نے جیون بھر کی جمع پونجی لٹوا دی ۔ جس نے اِس کاروبار میں کمایا اُس نے بھی آخر ایک دن سب کچھ کھودیا ۔یوں بن محنت کے امیر بننے کے فیشن نے بہت سے گھر اُجاڑ دیئے لوگوں کو کنگال کردیا اور بہتوں کا رہا سہا کاروبار بھی تباہ ہوگیا اگرچہ حکومتی اقدامات کی بناپراِس بربادی کے کھیل پر سخت پابندی عائد ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی بہت سے ایسے علاقے و شہر ہیں جہاں پرائز بانڈ کی پرچیوں کے نمبر کا کاروبار قرعہ اندازی ،آکڑہ اور گھڑا کے نام سے جاری ہے۔مشرق وسطیٰ، یورپ امریکہ اور جاپان وغیرہ جانے کا جنون ہر دوسرے فرد میں پاگل پن کی حد تک موجود ہے خواہ انھیں پردیس میں برتن صاف کرنے پڑیں یا پھر گوروں کی کاروں کے شیشے و ٹائر کیوں نہ صاف کرنے پڑیں ۔اپنی دھرتی کی خوشبو مٹی اور خدمت چھوڑکر غیر کے جوتے کھانا معاشی مجبوری سے زیادہ آج فیشن بن چکاہے۔
مردوں کی نسبت عورتوں میں اندھا دھند تقلید کے فیشن کی شرح زیادہ ہے گھریلو بجٹ میں خسارہ معاشی و معاشرتی مشکلات کا سبب بھی یہی عورتوں کا مزاج ہے اگر کوئی ایک عورت سوٹ خریدتی ہے تو دوسرے دن اُس کی دیکھا دیکھی دوسری عورتیں بھی ویسا یا اُس سے بہتر نیا سوٹ خریدنے کی کو شیش کرتی ہیں خواہ ان کی معاشی پوزیشن اِس فضول خرچی کی متحمل ہی نہ ہو ۔ آج جس گھر میں رنگین ٹی وی

VCD

 فرج کارپٹ کمپیوٹر اور کیبل کنکشن نہیں اُسے معاشرہ عزت دینے کو تیار ہی نہیں اِسی نفسیاتی پستی نے پوری قوم کو بیمار کر کے رکھ دیا ہے ۔سفید پوشی اور دکھاوا کلچر کے بھرم کو قائم رکھنے کے لیے جس کے پاس اپنی چادر کے مطابق سائیکل ہونی چاہیے تھی اُس نے موٹر سائیکل رکھی ہوئی ہے جس کے پاس موٹر سائیکل ہونی چاہیے تھی اُس نے کار رکھی ہوئی ہے موٹر سائیکل اور کار کے افضافی اخراجات نہ صرف اُس شخص کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں محبت ،رشتوں کے تقدس،جذبوں اور احساسات کو بے حس کرہے ہیں کیونکہ ہر شخص اپنے ہی پیداکردہ معاشی تفکرات کا شکار ہو کر چڑ چڑا ہوگیاہے سماجی و اقتصادی ناہمواریوں کی فضا نے گھٹن کا ماحول ہر سو پیدا کر رکھا ہے جس کے ردعمل کے طور پر خود کر نمایا ں کرنے کے لیے دوسروں کی تقلید کا اندھا دھند فیشن جاری ہے اور یہ اُس وقت تک فیشن جاری رہے گا جب تک (۱) پڑھا لکھا طبقہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے سماجی برائیوں کے خاتمہ خاص طور پر فضول رسم ورواج اور راتوں رات امیر بننے کے خواب کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا نہیںکرتا ۔ (۲) تعلیم برائے ملازمت کا تصور ختم نہیں ہوتا۔ (۳)ذرائع ابلاغ اور حکومتی ادارے لوگوں کو نمودونمائش کے نقصانات کا صیحح تجزیہ کرکے ہلکے پھلکے انداز میں آگاہی اور راہنمائی نہیں دیتے۔( ۴)حکومتی سطح پر حکمران پہل کرتے ہوئے سادہ طرز زندگی کو نہیں اپناتے۔( ۵)میاں بیوی جوکہ زندگی کی گاڑی کے پہیے کہلاتے ہیں اپنی آمدو خرچ میں توازن اور ضروریات و فضولیات میں فرق کو نہیں سمجھ لیتے۔
پاکستان اِس وقت تقریباً 54ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا مقروض ہے اور ملک کا ہر فرد تقریباً27318روپے کے عوض غیر ملکی قرضوں میں گروی رکھا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود قدرت کی پاکستان پر کرم نوازیاں بے حدو حساب ہیں ہمارے پاس تمام غذائی اجناس، ہمہ قسمی موسمی پھل،معدنیات کی دولت کی ریل پل،قدرتی وسائل کی نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ محنت کش،جر تمنداور غیرت مند افرادی قوت موجودہے ۔پاکستان سترہ کروڑ عوام کی ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ اِن سب نعمتوں کے باوجود ہم غیر ملکی قرضوں اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں ۔ آخر کیوں- ؟ یہ وہ سوال ہے جو شاہد ہمارے حو صلے کے فقدان اور عزم کے بحران کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔؟
 

 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved