اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔05-08-2010

ہماری کار کردگی اور قدرتی آفات
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر


پاکستان ایک ایسا انوکھا ملک ہے جہاں سیاست دان ہر لمحہ اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے موقعہ کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور سعی کرتے ہیں کہ ہاتھ میں آیا ہوا موقعہ و بے موقعہ وار خالی نہ جائے۔ اِس تمام سیاسی شعبدہ بازی کے پیچھے عوامی خدمت و مفادات کی آڑمیں درحقیقت اپنے دل کی بھڑاس نکالنا مقصود ہوتا ہے ۔ دہشت گردی ، قتل و غارت اور فسادات میں خواہ لاشیں گریں یا پھر قدرتی آفات و حادثات میں معصوم شہری جاں بحق ہوں سیاست دانوں کی زبان سے فقط سیاست ہی نکلتی ہے۔ ایسا ہی کچھ سیلاب کی موجودہ تباہ کاریوں پر نون لیگ کے قائدین میاں برداران نے صدر آصف علی زرداری کے دورہ برطانیہ اور فرانس کو بے وقت قراردیتے ہوئے صدر کو مشورہ دیا کہ وہ یہ دورہ اِن سنگین حالات میں ملتوی کردیں اور اِس دورہ پر اُٹھنے والے اخراجات سیلاب زدگان کو د ے دیں ۔ اِس بیان کے فوری ردعمل میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے اپنی شعلہ بیانی کا جھٹ مظاہرہ کرتے ہوئے میاں صاحبان کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے لندن کے فلیٹ فروخت کرکے سیلاب زدگان کی مدد کریں تو بہتر ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے متوقع سیلا ب کے پیس نظر اپنے ایک انتظامی دورہ کے دوران فرمایا کہ لوگ سیلاب کے پندرہ بیس دنوں کو تفریحی دورہ کی طرح سمجھیں اور گھروں سے نکل کر پھر واپس لوٹ آئیں۔ وزیر اعلی سندھ ہوں یا پھر اُن کے آقا آصف علی زرداری ، میاں برداران ہوں یا اے این پی کے راہنما، سب سیاسی مداری ہیں ا ور اِنہوں نے پوری قوم کو اپنی ڈگڈگی پر نچا رکھا ہے۔میاں برداران کا صدر آصف علی زرداری کو برطانیہ کا دورہ ملتوی کرنے کا مشورہ بے شک موجودہ حالات کے تناظر میں سو فیصد درست ہے لیکن وہ ذرا اپنے گریبانوں میں تو جھانکیں اُنہوںنے دوبار ایوان اقتدار میں پہنچ کر اِس قوم کو کیا دیا ہے؟سیلابوں کی تباہ کاری روکنے کے لیے اُنہوں نے کتنے ڈیمز بنائے ہیں؟شہروں میں نکاسی آب کے کتنے معیاری منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے؟ ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے جاوید ہاشمی کے پولیس اسکواڈ کو اسلام آباد جانے سے روکتے ہوئے واپس بُلانے والے جب اپنے وفادار ساتھی کے ساتھ مخلص نہیں تو اِس غریب بے چاری عوام کے ساتھ کیا مخلص ہوں گے۔صدر آصف علی زرداری دورہ برطانیہ اور فرانس اگر اب نہ کرتے تو پھر فرانس اور برطانیہ کا خوشگوار اور دلفریب موسم کب انجوائے کرتے؟وزیراعظم برطانیہ ڈیوڈ کیمرون نے پاکستان کے خلاف بیان دے کر اگر بھارت کو خوش کردیا ہے تو زرداری کے نظریہ میں ایسی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ دورہ برطانیہ کو ملی غیر ت کے نام پر احتجاجاًمنسوخ کردیا جاتا۔ ویسے بھی سیلا ب کی تباہ کاریاں صوبہ پی کے ، پنجاب اور سندھ کے دیہاتوں میں آرہی ہے جہاں غریب آباد ہیں ایوان ِصدر میں تو سیلابی ریلا نہیں آرہا تھا جو صدر پاکستان کو پریشانی لاحق ہوتی اور وہ اپنا دورہ منسوخ کردیتے۔ پوری قوم کو خبر ہے کہ صدر نے اپنے تفریحی دورہ کااپنے بچوں کے ساتھ کئی ماہ قبل سے وعدہ کررکھا تھا ۔ اب اپنے بچوں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ ،غریبوں کے بچوں کی خاطر توتوڑا نہیںجاسکتا۔ تباہ حال سیلاب زدگان غریبوں نے تو ویسے بھی لند ن کے چرچل ہوٹل کے سات ہزار پاﺅنڈفی رات کرایہ کے رائل لگژری سویٹ میں نہیں رہنا تھا۔ پھر صدر زرداری بھلا کیوں نہ بر طانیہ جاتے۔ پنجابی خادم اعلیٰ کو نظر نہ لگے واقعی ہی وہ سچے مسلمان کی طرح سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور اُن کی انتظامی صلاحیت کی بنا پر ہی ہر ضلع میں انتظامیہ حرکت میں نظر آرہی ہے۔ ایسے اچانک اور ناگہانی حالات میں اُن سے جو کچھ ممکن بن رہا ہے وہ اُس کو سرانجام دے رہے ہیں لیکن یہ تمام اقدامات عارضی و وقتی نوعیت کے حامل ہیں۔ خدا نے ابر ِرحمت برسایا تھا۔ ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کی گذشتہ 63سالوں کی نااہلی او رکرپشن، ملک بھر میں ڈیموں کے فقدان اور شہروں میں نکاسی آب کے غیر معیاری منصوبوں نے اِس کو خود زحمت میں بدل دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے سربراہ کے بقول اِس تباہی میں 150ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا ہے جبکہ ماہرین پانی و بجلی کے بقول سمندر میں ضائع ہونے والے اگر اِس پانی کو استعمال میں لایا جاتا تو اِس سے 1720ارب روپے کی بجلی پیدا کی جاسکتی تھی جس سے ایک طرف توانائی کا بحران ختم ہوتا تو ووسری طرف معاشی خوشحالی آتی ۔ میڈیا پر ہونے والے ماہرین کے یہ تبصرے سچے ہیں یا جھوٹے ، معلوم نہیں ہاں البتہ یہ خواب ضرور ہیں۔

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved